تاریخ کا جبر اور گلگت بلتستان


پرومیتھیس یونانی دیو مالا کا ایک عظیم ہیرو ہے جس نے کوہ اولمپس سے آگ چرائی تھی اور آگ کے استعمال کا راز انسانوں کو بتا دیا تھا۔ اس جرم کی پاداش میں اس کو ایک چٹان سے باندھ دیا گیا تھا، جہاں بھوکے گدھ دن بھر اس کے گوشت کو نوچ کر کھاتے تھے، مگر شام کو دیوتا اس کے زخم بھر دیتے تھے۔ ادب میں پرومیتھیس بغاوت اور عزم کی علامت ہے۔ اگرچہ ہر گزرنے والی بات اور ہر گزرنے والی راحت و تکالیف جھوٹی اور بے اصل ہے مگر اس میں سبق اور عبرت ضرور ہے۔

اس لئے دنیا کے مختلف اقوام کے عروج وزوال کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانے کی یونانی شہری ریاستوں ایتھنز اور سپارٹا سے لے کر زار روس اور نیپولین بوناپارٹ کے دور تک کے آئیڈیلسٹ سکول آف تھاٹ سے تعلق رکھنے والے سیاسی مفکرین نے سیاست کو خدمت کا نام دیا ہے، جبکہ دوسری طرف کلاسیکل رییلیزم کے فلسفے کے پرچار کرنے والے سیاسی مفکرین کا یہ ماننا ہے کہ اگرچہ اخلاقی نقط نظر سے سیاست کا مطلب عوام کا خدمت ہے مگر درحقیقت سیاست اقتدار حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

عوام کی اکثریت عام طور پر سیاست کے ان قدیم داؤ پیچ سے نابلد ہوتی ہے اس لیے سیاسی جماعتوں کے نعروں سے ان کو لگتا ہے کہ وہ ان کے مسائل حل کریں گے مگر اقتدار حاصل کرنے کے بعد عوام کے منتخب نمائندے عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کے حصولِ میں لگے رہتے ہیں۔ اور عوام کو بدلے میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں مل جاتا۔ میرٹ کی پامالی، اقرپروری اور رشوت کا چلن کسی قوم میں اس وقت عام ہوتا ہے جب عدل وانصاف ختم ہو جاتا ہے اور لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق جایز طریقے سے نہیں ملتے ہیں، اور اس ناقابل برداشت حالت سے بچ کر نکلنے کا وہ کوئی راستہ بھی نہیں ڈھونڈ پاتے۔

اس لئے وہ خود کو نظام سے لاتعلق سمجھتے ہیں، اور ان کی لاتعلقی روح میں لگنے والی گھاس کی طرح ہوتی ہے جو لاعلاج ہوتی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان مٹھی بھر افراد اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے جائز وناجائز ذرائع کا استعمال کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے چونکہ وہ خود کو کسی اور سیارے کے مخلوق سمجھنے لگتے ہیں، یوں پورامعاشرہ آہستہ آہستہ ایک بلیک ہول میں بدل جاتا ہے۔ اس طرح کی صورت حال کی منظر کشی کرتے ہوئے پولینڈ سے تعلق رکھنے والی ممتاز صحافی ریشارد کاپوشں نسکی اپنی کتاب ”شہنشاہ“ میں لکھتی ہیں کہ انقلاب ایران سے سے قبل رضا شاہ پہلوی کا عظیم تہذیب کا نعرہ اور شاہ کا برپا کیا ہوا انقلاب دراصل مراعات یافتہ افراد کے ہاتھوں ایک بہت بڑی لوٹ کھسوٹ تھی۔

شاہ کے خاندان کو دی جانے والی رشوت سو ملین ڈالر یا اس سے زیادہ ہوتی تھی۔ وزیراعظم اور جنرل تیس سے پچاس ملین ڈالر رشوت لیتے تھے۔ نیچے آتے آتے رشوت کی رقم کم ہو جاتی تھی، لیکن ختم کہیں نہیں ہوتی تھی۔ جوں جوں چیزوں کی قیمتیں بڑھتیں رشوت کی رقم بھی بڑھ جاتی، اور عام لوگوں کی آمدنی کا زیادہ سے زیادہ حصہ بدعنوانیوں کے دیوتا کے نذر ہونے لگتا۔ قدیم زمانے کے ایران میں اونچے عہدوں کی نیلامی کا دستور تھا۔

بادشاہ گورنر کے عہدے کی سرکاری قیمت کا اعلان کرتا اور جس کی بولی سب سے زیادہ ہوتی عہدہ اسی کو ملتا۔ ایک طرف پریوں کی کہانیوں کے سے ان خزانوں کے مقابلے میں جو شاہ اور اس کے لوگ جمع کر رہے تھے تو دوسری طرف معاشرہ زوال کی جانب رواں دواں تھا۔

قدیم زمانے کے ایران کی طرح آج گلگت بلتستان میں بھی عہدوں کی تقسیم، میرٹ کی پامالی اور اقرباپروری ایک عام بات بن چکی ہے۔ جبکہ برٹش انڈیا کے نوآبادیاتی نظام سے مماثلت رکھنے والے نظام حکومت اور پالیسیوں کی تسلسل کی بدولت مٹھی بھر افراد کے پاس تیزی کے ساتھ دولت کے ارتکاز سے صاف پتہ چلتا ہے کہ شاہ ایران کے زمانے کی روح ایک نئی صورت میں تیزی کے ساتھ گلگت بلتستان میں بھی سرایت کر گئی ہے۔

جبکہ مایوس چہرے والے تعلیم یافتہ قابل بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں روز بروز اصافہ ہو رہا ہے۔ یہ نوجوان اپنی قدرت اور صلاحیت کے مطابق اپنی بنیادی انسانی جمہوری حقوقِ اور سماجی انصاف کے حصول کے لئے دن رات سیاسی میدان کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ایک توانا آواز بن کر جدوجھد کر رہے ہیں۔ قیادت بتدریج نوجوان نسل کو منتقل ہورہی ہے اور وہ سیاسی ارتقاء کی منزلوں سے گزر رہے ہیں سیاسی ارتقاء کے اس عمل میں بعض نوجوان سیاسی نظریات اور سیاسی جدوجھد کی وجہ سے تادیبی کاروایؤں کا بھی شکار ہو چکے ہیں جنھیں حق اور انصاف کی بات کرنے پر قدیم زمانے کے یونانی دیوتا پرومیتھیس کی طرح ظلم اور نا انصافی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

جس کی ایک بہترین مثال گلگت بلتستان کے نامور ترقی پسند رہنما کامریڈ بابا جان اور اس کے ساتھی ہیں جو گزشتہ کئی سالوں سے جیلوں میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں جبکہ گزشتہ 72 سالوں سے گلگت بلتستان کے عوام سماجی انصاف اور بنیادی انسانی حقوق کے لئے کیے وعدوں کے پورے ہونے کے اس مبارک وقت کا انتظار کرتے کرتے سارا صبر گنوا چکے ہیں۔ عوام کا سڑکوں پر احتجاج اور دھرنے دینا ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ مگر گلگت بلتستان کے بدلتے معروضی حالات کو سمجھ کر عوامی مسائل کو حل کرنا تو دور کی بات، مخلوق خدا مسلسل چیخ رہے ہیں مگر کسی کے بھی کان پر جوں تک نہیں رینگتی ہے نہ ہی وہ اس بوسیدہ نظام کی تبدیلی کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات کرنے کے لیے تیار ہیں البتہ نوآبادیاتی پالسیوں کی آڈ میں کھیل کھیلنے کی باسی بدبو آرہی ہے جو کہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔

جس طرح تمام راہیں روم کی طرف لیجاتی ہیں اس طرح یہاں کی تمام راہیں عوامی وسائل کو بے درردی سے لوٹنے کی طرف لے جاتی ہیں، جبکہ شہنشاہ ایران کے درباریوں کی طرح خوشامدی حضرات خود کو عوام کے رہنما سمجھ رہے ہیں حالانکہ ان کو اچھی طرح پتہ ہے کہ نوجوان نسل ان کو محض نوآبادکار کے مسخرے ہی سمجھتے ہیں۔ ایسے نام نہاد رہنماؤں کی تمام تر کش مکش محض چاپلوسی سے شاہ کی خوشنودی اور مہربانی حاصل کرنی ہوتی ہے نہ کہ عوام کی حقیقی امنگوں کی ترجمانی۔

کہا جاتا ہے کہ شاہ ایران کے دور میں کوئی بھی شخص ایک دن میں بلکہ ایک منٹ میں ترقی پا کر اس طبقے میں پہنچ سکتا تھا اس کے لیے صرف شاہ کے حکم یا دستخط کی ضرورت ہوتی تھی۔ جو شخص زیادہ لگن کے ساتھ شاہ کی چاپلوسی کرسکے اسے اپنی وفاداری اور تابعداری کا یقین دلا سکے وھی شاہ کے عظیم تہذیب کے سرچشمے سے استفادہ کر سکتا تھا۔ بالکل اس طرح کی صورتحال گلگت بلتستان میں جنم لے چکی ہے۔ 1840 سے ڈوگرہ اور تاج برطانیہ کے دور حکومت سے لے کر آج تک کی تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے، کہ ذاتی مفادات کے لیے قوم کا سودا کیسے کیا گیا۔

اگرچہ گلگت بلتستان کے لوگوں نے ڈوگرہ راج سے تو ایک طویل ترین جدوجھد کے بعد یکم نومبر 1947 میں آزادی حاصل کی۔ مگر اس بھیانک خواب کے ختم ہونے کے بعد بھی اس کے نفسیاتی اور سماجی شاخسانے آج تک برقرار ہیں۔ ڈوگرہ راج سے آزادی کے بعد برٹش انڈیا کے نوآبادیاتی نظام سے مماثلت رکھنے والے نظام حکومت نے اس خطے میں ایک بنجر زمین تیار کر کے چھوڑا ہے جس میں فکر کا پورا جلد نہیں اگنے والا ہے۔ بقول ریشارد کاپوشنسکی ایسے حالات میں تاریخ ایک المناک دائرہ شر میں چکر کاٹنے لگتی ہے اور اس چکر سے آزاد ہونے میں ایک عہد گزر جاتا ہے۔

اس استدلال کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا میں واقع ہونے والی سیاسی تبدیلیوں اور گلگت بلتستان کے معروضی حالات کا تقابلی جائزہ لینے کے لیے ریشارد کاپوشں نسکی کی کتاب شہنشاہ دوبارہ پڑھنے لگتا ہوں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کے نصیب میں ایک المناک تاریخ آئی ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ڈوگرہ راج اور تاج برطانیہ کے دور حکومت سے ہی گلگت بلتستان کے لوگ تاریخی جبر کا شکار رہے ہیں اور سماجی نا انصافیوں اور بدقسمتوں کا گہرا احساس ان کے شعور کا حصہ بن گیا ہے۔

دوسری طرف اچھی بات یہ ہے کہ اس تاریخی جبر کی وجہ سے ہی حالیہ برسوں میں بعد گلگت بلتستان کے لوگوں میں ایک عظیم بیداری کی لہر چل پڑی ہے، اور ہماری تاریخ کا کوئی اور دور اس کی ہم سری نہیں کرسکتا ہے۔ تا ہم گلگت بلتستان میں رائج الوقت نوآبادیاتی طرز کی نظام حکومت، اور پاور پلیئرز کو اس خوبصورت خطے میں انکھ مچولی کا وہی پرانا کھیل کھیلتے ہوئے دیکھ کر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہماری تاریخ بدستور ایک المناک دائرہ شر کے گرد چکر کاٹ رہی ہے اور اس شیطانی چکر سے نکلنے میں ہمیں ایک عہد درکار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).