پردیسی پریاں اور دیسی شہزادے


گزشتہ دنوں میں نے ایک چینل پر خبر دیکھی کہ باسٹھ سالہ پرتگالی خاتون بہاولپور کے ستائیس سالہ عرفان کی محبت میں پاکستان پہنچ گئی، محترمہ نے اسلام قبول کیا اوردونوں نے شادی بھی رچا لی۔ دونوں کی عمر میں تقریبا پینتیس سال کا فرق تھا۔ خیر خبرتواچھی تھی آخر ایک محبت اپنے انجام کو پہنچی۔ اسی طرح ہی کچھ عرصہ پہلے سیالکوٹ کے 21 سالہ کاشف کی اکتالیس سالہ امریکی خاتون سے محبت کا قصہ بھی کچھ ایسے ہی منظرعام پر آیا تھا اور وہ بھی خوشی خوشی شادی کے بندھن میں بندھے تھے۔

یہ تومیں نے اپنی بات آپ تک پہنچانے کے لئے آپ کو صرف دو مثالیں دی ہیں اور ان دنوں میں جو ایک بات یکساں ہے وہ ہے گرین کارڈ۔ اس کے علاوہ بھی درجنوں ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں غیرملکی حسینائیں پاکستانی خوبرو نوجوانوں کی محبت میں گرفتار ہوکر سات سمندر پار اپنی محبت حاصل کرنے کے لئے پہنچی ہیں۔ پہلے وقتوں میں لڑکیوں کو کہا جاتا تھا کہ تمہارے لئے سمندر پار سے شہزادے آئیں گے اور تم کو بیاہ کر لے جائیں گے مگر یہ بات تو آج کے ان لڑکوں کے لئے سچ ہو رہی ہے۔

یہ بات سچ ہے کہ محبت اپنے اندرایک خوبصورت احساس ہے جو کبھی بھی کہیں بھی کسی کو بھی کسی کے ساتھ ہوسکتی ہے اور اس کے لئے کسی عمرکی قید یا پابندی بھی نہیں اور یہی حال ان جوڑوں کا ہے۔ اس لئے ان جوڑوں کی عمروں میں واضح فرق ہونے کے بعد میں اس بات کو سوچنے پر مجبور ہو گئی ہوں کہ اگر یہاں کی کسی لڑکی اور لڑکے کی عمر میں اتنا فرق ہوتا تو کیا واقعی میں ہی یہ پاکستانی مرد ان خواتین سے ایسے ہی شادی کرتے کیا؟

پاکستانی معاشرے کی بات کی جائے تو یہاں ماؤں کو اپنے کماؤسپوتوں کے لئے دلہن ڈھونڈنی پڑتی ہے تو ان کے میعار ساتویں آسمان پر پہنچ جاتے ہیں۔ مائیں حتی المکان یہی کوشش کرتی ہیں کہ بیٹے کی دلہن ہو تو زمینی مگر اس میں خصوصیات جنت کی حوروں والی ہوں۔ اس معاملے میں وہ کوئی بھی رعایت نہیں رکھتی۔ بہو ایسی ڈھونڈنے کی کوشش کر تی ہیں جو ان کے بیٹے سے عمر میں کم ہو تاکہ بتا سکیں کہ چھوٹی عمر کی بہولائی ہیں اور خاندان والے واہ واہ کر اٹھتے ہیں کہ کیا قسمت پائی ہے کہ چھوٹی عمر کی لڑکی کو بہو بنا کرلائی ہو۔

اسی طرح قد کاٹھ اور رنگ کے معاملے میں بھی یہی کوشش ہوتی ہے بہو کا قد اتنا لمبا ہو نا چاہیے کہ گھر میں گھومتی پھرتی اچھی لگے اور یہی کہا جاتا ہے کہ بھئی قد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا کیوں کہ آنے والی نسل کا معاملہ ہے۔ رنگ تو چٹا سفید ہونا چاہیے اور سب سے بڑا معیار لڑکی کی شرافت کا ہوتا ہے کہ لڑکی شریف ہونی چاہیے۔ ویسے ہمارے یہاں شرافت کے اپنے معیار ہیں۔ بہت مشکل میعار ہیں پاکستانی بہو کے لیے۔ کبھی کبھی تو وہ بہو کم شو پیس زیادہ سمجھی جاتی ہے۔

ان سب معیارات کو پورا کرنے کے لئے ہم پاکستانی لڑ کیاں بہت مشکل کا سامنا کرتیں ہیں، اور ایسی شادیوں میں واضح عمر، تہذیب وتمدن سے بالاترغیرملکی حسنائیوں کے لئے پاکستانی لڑکوں اوراُن کی والدہ صاحبہ کی محبت دیکھتی ہوں تو دل میں بہت سارے سوالات اُٹھتے ہیں۔ کہ ہم پاکستانی لڑکیوں کے لئے معیارات اتنے مشکل کیوں ہو تے ہیں؟ جبکہ ان غیر ملکی حسیناوں کے گرین کارڈ نے کیسے ان کی مشکلات کو ختم کر دیا ہے۔ ان کے تو ماضی پربھی کوئی سوال نہیں اٹھتا جبکہ پاکستان میں اگرکسی لڑکی کی طلاق ہو جائے تو ساری زندگی وہ باپ کے دروازے پر بیٹھی رہتی ہے، ویسے میں یہ بھی سو چتی ہوں کہ یہ غیرملکی حسینائیں سوچتی ہوں گی کہ ہمارے دیس کے لوگ کس حد تک کھلے دل کے مالک ہیں ابھی ہم پاکستانی سرزمین پر لینڈ ہی کرتے ہیں تواتنی محبت اورخلوص والے سسرال نصیب ہوجاتے ہیں ساتھ ہی میڈیا بھی خوش آمدید کہتا ہے بلکہ خصوصی پیکجز بھی بنائے جاتے ہیں کہ دیکھو محبت آج کی دنیا میں زندہ ہے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتیں کہ اس معاشرے میں کس حد تک دوہرے معیار ہیں۔ یہاں مناسب رشتے کے معیار پر پورا اترتے اترتے لڑکیوں کی عمرگزر جاتی ہے۔ آپ کو یہاں اپنی قریبی دوستوں کے کچھ واقعات بھی بتادوں جو انہوں نے پاکستانی ماؤں کے دوہرے میعار کی وجہ سے برداشت کیے۔

میری ایک قریبی سہیلی کی سوشل میڈیا پر ایک پاکستانی لڑکے سے دوستی ہوئی جو آسٹریلیا میں مقیم تھا۔ دونوں کی دوستی تو سوشل میڈیا پر ہوئی اوردوستی نے جلد ہی محبت کی شکل اختیار کر لی۔ لڑکے نے آسٹریلیا سے اپنی پاکستان میں مقیم ماں کو فون کیا اور کہا کہ لڑکی کی طرف رشتہ لے کر پہنچیں مگر آنٹی تو پاکستانی تھیں آنٹی نے اپنے خاندان کو بھی تو بتانا تھا کہ لڑکی کون ہے؟ کیسی ہے؟ اور کس خاندان سے؟ چنانچہ آنٹی نے سٹیٹس کو بہانہ بنا کررشتے سے انکار کر دیا اور ان کے اکلوتے بیٹے نے آسٹریلیا میں ہی ایک ہندو لڑکی سے شادی کرلی۔

اسی طرح میری ایک ساتھی جو خود لاکھوں میں کما رہی ہے مگر اس کے والد صاحب اپنی فیملی کو سپورٹ کرنے کے لیے رکشہ چلاتے تھے۔ جس لڑکے کو وہ پسند کرتی تھی اس لڑکے کی ماں نے اس کے باپ کے کام کی وجہ سے اس گھر میں رشتہ جوڑنے سے انکار کر دیا حالانکہ لڑکی کے والد نے رزق حلال کما کر اپنی بیٹی کو ایک اعلیٰ مقام پر پہنچایا تھا اور وہ اس وقت لاکھوں روپے کما رہی ہے۔ اگراس لڑکی کا باپ کوئی کرپٹ بیوروکریٹ ہوتا یا کروڑ پتی اسمگلر ہوتا تو وہ آنٹی کبھی رشتے سے انکار نہ کرتیں مگر یہاں تو بات فیملی سٹیٹس اور پیسے کی تھی۔ شادی ایک خوبصورت رشتہ اور محبت ایک خوبصورت احساس ہے جس کے دامن میں ایک عظیم مقصد خوشی اور سکون کو حاصل کرنا ہوتاہے مگر اس جدید اور مہنگے دور میں پاکستانی عورت کے لئے حقیقی محبت تلاش کرنا آسان نہیں رہا۔ اللہ سے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ سب بچییوں کے نیک نصیب کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).