نظامِ تعلیم اور پریکٹیکل شوز


افسوسناک امر ہے کہ ہمارا نظام تعلیم اغیار کی پیروی اور امداد کے موجب تاثیر کی خوشبو سے محروم ایک کاغذ کاپھول بن چکا ہے۔ نمبرز اور گریڈ کی اندھی دوڑنے اخلاقیات، حقیقی ذہانت اور پیشہ ورایت کو روند کر تعلیمی انحطاط کی دلدل میں دھنسنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ گویا ہم محض زوال پذیر ہی نہیں بلکہ بخوشی زوال آمادہ بھی ہیں۔

طریقہ ہائے تدریس و امتحانات زمینی حقائق اور عصری تقاضوں سے کوسوں دور ہیں۔ لوگ اپنے بچوں کے سامنے اپنے تعلیمی ریکارڈ کھولتے ہچکچاتے ہیں۔ آج کے بچے کا بچپن خطر ناک دباؤ کا شکار ہے۔ اسے ہر حال میں اچھے نمبر لینے ہیں۔ امتحانی سنٹرز اور مارکنگ سنٹر پر ڈیوٹیوں پہ مامور اساتذہ کی اکثریت اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیے بغیر وقت پورا کرتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ کچھ حضرات انتہائی بے توجہی سے جوابی پرچے چیک کرتے ہیں اور بعض اوقات تو بغیر پڑھے اور گنے نمبر لگاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بچوں کی اکثریت کو نمبرز کی دوبا رہ گنتی کروا نا پڑتی ہے اور ان میں بے ضابطگیا ں ثابت بھی ہوتی ہیں۔ پھر روائیتی پریکٹیکل امتحان کا انعقاد سونے پہ سہاگہ ہے۔ بنظرِ غائر دیکھیں تو قابلِ رحم بچہ ہے۔ پہلا ستم یہ کہ اسے سکول یا کالج میں پریکٹیکل کی تیاری سرے سے کروائی ہی نہیں جاتی جبکہ پریکٹیکل کے تیس نمبر نتیجے میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں اور بچہ فیل تک ہو سکتا ہے۔ کچھ اداروں خصوصاً سرکاری اداروں میں تو لیبارٹریز اور اپریٹس کو ہو ا بھی نہیں لگوائی جاتی۔

رہی سہی کسر عملی امتحان کے ممتحن پوری کر دیتے ہیں۔ کچھ ممتحن دیانت داری سے زمینی حالات کے پیش نظر بغیر کسی لالچ کے فرائض بجا لاتے ہیں مگر اکثریت اپنی دیانت داری یا پھر بد دیا نتی سے مغلوب ہوکر طلباء و طالبات کے لئے گمبھیر مسائل پیدا کرتے ہیں۔ وہ یوں کہ کچھ غیر سجنیدہ ممتحن تعلقات یا مالی فوائد کے پیش نظر بچوں سے امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ بنا پرکھے کم یا زیاد ہ نمبر لگاتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ ممتحن ایمانداری کے زعم میں بچوں کو نفسیاتی و اخلاقی ہراساں کرتے ہیں مگر افسوس کہ ایک ہی ہال کے نیچے سفارشی طلبا ء کو سرِ عام کتابیں کھول کر لکھوایا اور غریب اور پہنچ نہ رکھنے والوں کی باقاعدہ تضحیک کی جاتی ہے۔

ایسے بد اخلاق ممتحن استاد کے نام کی توہین ہیں۔ بے شمار مقامات پہ دیکھا گیا ہے ایسے چڑچڑے ممتحن دوران امتحان طلبا ء طالبات کے اساتذہ، ادارے اور والدین کو مسلسل برا بھلا کہتے ہیں۔ انہیں باور کراتے ہیں کہ آپ کے ٹیچر حرام خور ہیں اور والدین بے وقوف و بے ایمان ہیں۔ اب بتائیں کہ ان حالات میں بچہ پریکٹیکل دینے اور لکھنے کے قابِل رہ سکتا ہے۔ ٹیچر اور والدین کی کوتاہیوں کی سزا بچے کو ہی کیوں؟ نفسیاتی طور پرطلباء پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہے اور اپنے جذبات اور غصے کو کیسے قابو میں رکھتے ہیں؟

۔ چند برس قبل اس ظالمانہ اسلوب کو ختم کرکے تحریری امتحان میں ہی ضم کیا گیا مگر تعلیمی بورڈز کے ناخداؤں اور عادی ممتحین کی ساکھ، وقار اور کچھ نابلِ ذکر امور خطرے میں پڑ گئے اور پھر سے پرانا طریقہ رائج کیا۔ وزیر تعلیم سے خصوصی استدعا ہے کہ ان امتحانوں کے میکنزم کا جائزہ لیں۔ ضروری ہے کہ فرض شناس اور با اخلاق اسا تذہ کو ممتحن بنایا جائے اور اس سے قبل اخلاقیات کا ریفریشر کورس کروا ئے جائیں۔ تاکہ بچے پر سکون ماحول میں بغیر ٹارچر ہوئے امتحان دے سکیں۔

پریکٹیکل میں بچے کی استعداد اور قابلیت کو پرکھنے کا ممتحن کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ ذہین ترین طالب علم بھی بغیر کسی واسطے کے پورے نمبر نہیں لے سکتا۔ یہ بات طے ہے کہ اچھے نمبر لگوانے کے لئے بھاگ دوڑ نا گزیر ہے۔ لہذا ان امتحانوں میں والدین اور اساتذہ کو اپنے بچوں اور طلبا ء کے مناسب مارکس کے لئے تعلقات یا پھر مالیات کا وسیلہ تلاش کرنا ہی پڑتا ہے۔ بہتر ہو کہ امتحانی اور پریکٹیکل سنٹرز میں سی سی کیمرے لگوائیں اور دیکھیں کہ کس طرح امتحانی ڈیوٹیاں لگوانے کے دلدادہ معمارانِ قوم امتحان دینے والے بچوں کے سر پر کھڑے ہو کر قصہ خوانیاں کرتے ہیں، خوش گپیوں اور قہقہوں سے بچوں کو ڈسٹرب کرتے ہیں۔ سیل فون ان کے کانوں سے الگ ہی نہیں ہوتے اور ہر بیس منٹ بعد چائے اور اشیائے بیکری کی کھیپیں کمرہ امتحان میں لائی جاتی ہیں اور کیسے شکم پروری کے مراحل طے پاتے ہیں؟ ۔ یہ سب اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھنے والے بچوں سے معاشرے کے اچھے شہری بننے کی توقع رکھنا دیوانے کا خواب نہیں تو اورکیا ہے؟ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).