پاکستان میں صحافت خطرے میں ہے یا صحافی؟


معروف صحافی حامد میر نے آزاد صحافت کے حوالے سے ایک ٹوئٹ کیا تو میں نے انھیں واٹس ایپ پر پیغام چھوڑا کہ ایک الجھی گتھی ہے جو مجھ سے سلجھ نہیں رہی کہ ”مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ پاکستان میں صحافی کو خطرہ ہے یا صحافت کو“ انھوں نے مجھے جواب دیا both are under threat اُن کے اس جواب کی طرف بعد میں آتے ہیں پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ صحافت آخر ہے کیا؟ پاکستان میں صحافت خطرے میں ہے یا صحافی؟

صحافت لکھت پڑھت کا نام نہیں بلکہ ہر گھر اور تمام افتادگان خاک کی سیاسی و سماجی ضرورت ہے اس کے اثرات ہمہ گیر بھی ہیں اور دوررس بھی اس وجہ سے اس شعبے کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں جب سے دنیا گلوبلائز ہوئی ہے اس لمحے سے ابلاغ اور اور اس کے ذرائع کو بے حد اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ جدید دنیا میں یہ ممکن نہیں رہا کوئی ”مغل اعظم“ کسی ”انارکلی“ کو دیوار میں چنوا دے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو اور یہ بھی ممکن نہیں رہا کہ کوئی بادشاہ پنگھوڑے میں جھولتے بچے کو اپنا جانشین نامزد کر دے اور رعایا اس کے آگے سرتسلیم خم کر دے۔ یہ آزاد صحافت کا ہی کنٹری بیوشن ہے کہ اُس نے رائے عامہ کی آنکھوں سے پٹی اتاری ہے کسی زمانے میں ہاتھی کسی کو روند کر چلا جاتا تھا نہ کوئی اُس کی چنگاڑ سُن پاتا اور نہ اُس کی لتاڑ دیکھ پاتا آج صحافت لوگوں کی بصارت اور سماعت کا مترداف بن چُکی ہے۔

ایکسپلورنگ جرنلزم (Exploring Jounralism) کے مصنفین ای اولزلے اور کیمپ بیل نے صحافت کی تعریف نہایت اختصار کے ساتھ یوں بیان کی ہے۔

”صحافت“ جدید وسائل ابلاغ کے ذریعہ عوامی معلومات، رائے عامہ اور عوامی تفریحات کی باضابطہ اور مستند اشاعت کا فریضہ ادا کرتی ہے۔ ”

اگر اس تعریف کی رو سے دیکھا جائے تو ہمارے ہاں صحافت کو خطرہ نہیں، صحافی کو خطرہ ہے۔ مفادات کی جنگ میں عامل صحافی تو کہیں بہت پیچھے چلا گیا، وہ آج بھی صحافت کو مقدس پیشہ سمجھ کر تندہی سے کام کر رہا ہے اُس کے نزدیک صحافت کو تو کوئی خطرہ نہیں، جن صحافیوں کے مفادات کو زک پہنچ رہی ہے وہ آزاد صحافت کا علم اُٹھائے پھر رہے ہیں۔

جب سے صحافت نے ترقی پا کر خود کو انڈسٹری کی سطح پر پہنچایا یوں معلوم ہوتا ہے کہ ترجیحات بالکل اُلٹ کر رہ گئی ہیں ماضی قریب میں صحافت کے حوالے سے کتنے عظیم الشان اور لائق احترام نام ہیں جب بھی لب پر آتے ہیں بے اختیار سر تعظیم کو جھک جاتا ہے جمال الدین افغانی ”العروۃ الوثقی“ کے مدیر اُن کا پرچہ کیا تھا ایک شعلہ جوالہ تھا۔

سر سید احمد خان نے ”تہذیب الاخلاق“ کے ذریعے نسل نو کی ذہنی نشوونما کا کام لیا محض تفریح طبع ان کا مقصد نہیں تھا۔

مولانا آزاد کا ”الہلال“ اور ”البلاغ“ صور اسرافیل کی طرح برصیغر ہند میں گونجا، مولانا ظفر علی خان کا ”زمیندار“ محض صحافتی و سیاسی مجلہ نہیں ایک للکار اور پکار تھا، لیکن یہ سبھی لوگ اس مشن میں فاقے لے کر کال کوٹھڑی تک پہنچے لیکن اب اس راستے میں کوئی قافلہ نہیں آتا اور کال کوٹھڑی کی جگہ طویل و عریض نیلی پیلی کوٹھیاں آ گئی۔

دل تھام کر بتائیں کہ آج ہمارا کوئی بھی میڈیا ہاؤس لے لیں کیا وہ مولانا آزاد، سر سید احمد خان اور مولانا جمال الدین افغانی کا پیرو کار نظر آتے ہیں؟ کیا وہ ان لائق صد احترام لوگوں کی طرح قوم کو آگاہی دے رہا ہیں؟ کیا کوئی میڈیا ہاؤس قوم کی تعلیم و تربیت کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے؟

صحافت تو ان چیزوں کا نام ہے مگر ہمارے ہاں سب کچھ اس کے اُلٹ ہو رہا ہے کچھ میڈیا ہاؤس پرائم ٹائم میں اپوزیشن کو صلواتیں سنا رہے ہوتے ہیں اور کچھ میڈیا ہاؤس حکومت کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی اداروں پر لعن طن کر رہے ہوتے ہیں۔

اس سارے عمل میں اصل خبر کہیں بہت پیچھے رہ جاتی ہے وہ عوام کی نظروں سے پوشیدہ رہتی ہے الیکٹرانک میڈیا آنے کے بعد بریکنگ نیوز کے حوالے سے دوڑ لگی ہوئی ہے۔ رپورٹر پہلے بریکنگ نیوز دے گا، پھر اس کی صداقت کی جانچ کرے گا۔ آج یورپ میں رپورٹر خبر بریک کرنے سے قبل اس کی مستند ہونے کے حوالے سے مہینے لگا دیتا ہے تاکہ خبر کی صحت پر کوئی شک نہ ہو۔

ہمارے ہاں صحافت ایک پیشہ بن گئی ہے اور پیشے میں پیسے کو دیکھا جاتا ہے خبر بس خبر ہوتی ہے اُسے ہر حال میں آن ائر یا پبلش ہونا چاہیے، خواہ کسی کی بھی عزت سربازار پامال ہو۔

میڈیا سے وابستہ سب ہی لوگوں کو اپنے اندر ”خود احتسابی“ کے نظام کو عملی طور پر بروئے کار لانا پڑے گا جس کے کمزور ہونے کی وجہ سے اس شعبے میں ”بیان یاتی اور مفاداتی صحافت کرنے والی مخلوق غالب ہوتی ہے“۔ صحافت کو بطور کیریئر اختیار کرنے والے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران اس ضابطہ اخلاق پر کاربند رہنے کے پابند ہیں جسے دنیا بھر کے آزاد اور غیرجانبدار میڈیا سے وابستہ صحافی اور ان کی پیشہ ورانہ تنظیمیں تسلیم کرتی ہیں۔

جس کے مطابق وہ اپنی ذاتی پسند وناپسند، سیاسی ونظریاتی نقطۂ نظر اور مذہبی رجحانات سے قطع نظر کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کے حق یا مخالفت میں ایکٹوسٹ نہیں ہوسکتا ہے۔ البتہ وہ کسی ایک جماعت کو پسند اور کسی دوسری جماعت سے اختلاف تو رکھ سکتا ہے مگر اپنے اختلاف کو کسی کی دشمنی کے لئے وجہ جواز نہیں بنا سکتا۔ تاہم وہ اپنے گرد وپیش رونما ہونے والے واقعات سے نہ تو بے خبر رہ سکتا ہے اور نہ ہی کسی واقعہ کی رپورٹنگ، تجزیے یا تبصرے میں ان زمینی حقائق کو نظرانداز کرسکتا ہے جو اس کے سامنے پیش آتے ہوں یا اس کی تحقیق یا مصدقہ ذرائع سے اس کے علم میں آئے ہوں۔ قائداعظم نے درست فرمایا تھا کہ صحافت ایک عظیم طاقت ہے جو فائدہ بھی پہنچا سکتی ہے اور نقصان بھی۔ اگر یہ صحیح نہج پر ہو تو اس سے رائے عامہ ہموار کرنے کا کام لیا جاسکتا ہے۔

سنجیدہ صحافی آج بھی ضمیر کا علم اُٹھائے فراعنہ مصر کے سامنے کلمہ حق کہنے میں مصروف ہیں۔ قلم کی حرمت کے لیے سر قلم کروانے کی مثالیں ابھی باقی ہیں۔ باضمیر صحافی سچ اور پورے سچ کی خاطر اپنی ترقیوں اور ملازمتوں کو خطرے میں ڈال لیتے ہیں، جری اور بے باک مالکان جرائد حکومت سے اشتہارات کی بندش اور ڈیکلریشن کی منسوخی تک خطرات مول لیتے ہیں۔ اس طرح جرات مندانہ اور پیشہ ورانہ امانت کے حامل رپورٹر بھی صحیح خبریں لانے کے لیے جنگ زدہ علاقوں میں بے خوف و خطر گھس کر حقائق عوام کے سامنے رکھتے ہیں۔

حکومت کو بھی اعلیٰ ظرفی دکھانی چاہیے۔ اپوزیشن کے جلسے جلوسوں پر پابندی نہیں لگانی چاہیے۔ اپوزیشن کا موقف بھی قوم کے سامنے رکھا جائے، اس سے قیامت نہیں آ جائے گی۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui