وزیر اعظم مغالطوں کے الجھاوے میں – غیر سنسر شدہ کالم


صحافی پردہ چاک کرنے کی سستی خوشی کے لئے نہیں لکھتا۔ خالق کائنات نے سورہ آل عمران میں فرمایا۔ ہم تمہارے درمیان دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں۔ صحافی دنوں کے اس گرداب کا کیف و کم بیان کرتا ہے۔ عزت اور ذلت کے نیوتے دینے والوں کو یاد دلاتا ہے کہ زمیں نے سورج کے گرد ایک اور چکر مکمل کیا اور 25 جولائی آن پہنچی۔ ایک برس پہلے اس روز عام انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ رواں برس 25 جولائی کا دن طلوع ہوا تو رات کے ٹوٹتے لمحوں میں وزیر اعظم عمران خان دورہ امریکا سے واپس وطن پہنچے۔ حزب اختلاف کا یوم سیاہ اس یاد دہانی کے لئے ان کا منتظر تھا کہ ملک کے زمینی حقائق بیرونی دوروں کے چکاچوند مناظر سے مرتب نہیں ہوتے۔ ملک کے اندر تین سطح پر زبردست کشمکش جاری ہے۔ معیشت کا بحران منہ پھاڑے کھڑا ہے، سیاست تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے اور عدالتوں میں احتساب کا نقارہ گونج رہا ہے۔ امریکا کے ان ڈور سٹیڈیم میں بیس ہزار پرجوش مداحوں کے سامنے دھواں دھار تقریر میں اپنا ہی ایک لطف ہے لیکن جاننا چاہیے کہ اسی مقبول ترین وزیر اعظم کی دلدوز اپیلوں کے جواب میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 30 جون تک کل 26 ملین ڈالر جمع کرائے۔ ایک ارب ڈالر میں ایک ہزار ملین ڈالر ہوتے ہیں اور اور پاکستان نے گزشتہ مالی سال میں 16 ارب ڈالر کا بیرونی قرض لیا۔ وزیر اعظم عمران خان کا تین روزہ دورہ چنگھاڑتی ہوئی اخباری سرخیاں لایا۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی خبر ملنے پر گھبراہٹ کا اقرار کرنے والے وزیر اعظم کے لئے یہ دورہ ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ نتیجہ یہ کہ وزیر اعظم کھل کر بولے اور پے در پے ایسے بیانات دیے جن کی باہم جمع تفریق کا حساب کچھ ٹھیک نہیں بیٹھتا۔
حکومت حسب توقع اس دورے کو پاک امریکا تعلقات میں ایک نیا باب قرار دے گی۔ سوال یہ ہے کہ اس دورے کی تحریک امریکا کی طرف سے ہوئی یا محمد بن سلمان، جیراڈ کشنر اور لنڈسے گراہم کی پس پردہ مساعی رنگ لائیں۔ اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو افغانستان سے انخلا کے لئے بے تاب ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کو ایک اور موقع دیا ہے۔ امریکی امداد کے ضمن میں عمران خان کا لب و لہجہ بتاتا ہے کہ معیشت کے لئے درکار سد رمق کی یقین دہانی نہیں مل سکی۔ کولیشن سپورٹ فنڈ کے رکے ہوئے واجبات قریب نو ارب ڈالر کو پہنچ چکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جیب ہلکی نہیں کی بلکہ افغانستان پر مطالبات کی فہرست تھما دی۔ فلاں فلاں نکات پر مدد کیجئے تو مالی مدد مل سکے گی نیز تجارت کا حجم بھی دس گنا بڑھنے کی نوید ہے۔ باہم تجارت میں مشکل یہ ہے کہ ملک میں پیداواری سرگرمیاں معطل ہوں گی تو برآمد کیا کریں گے۔ شبر زیدی بھی درآمدات پر بریفنگ دیتے ہیں، برآمدات کا پیالہ خالی ہے۔
ایک صحافی کے سوال پر ٹرمپ کشمیر کے بارے میں برمائے اور ثالثی کی پیشکش کر دی۔ اتفاق سے عمران خان نے بھی ایران کے ساتھ امریکی تنازع پر ثالثی کی پیشکش کی۔ عمران خان امریکا اور ایران میں ثالثی پر جو قدرت رکھتے ہیں، کشمیر ثالثی کے ضمن میں ٹرمپ کی صلاحیت کم و بیش وہی ہے۔ بھارت کی وزارت خارجہ نے ترنت تردید کر دی۔ باقی بھارت کی داخلی سیاست ہے جہاں حزب اختلاف کو نریندر مودی کی ناک رگڑنے کا اچھا موقع ملا۔ سمجھنا چاہیے کہ کشمیر تنازع میں امریکا کا کوئی براہ راست مفاد نہیں۔ مسئلہ کشمیر پر ٹرمپ کی ثالثی کا مآل معلوم۔ البتہ ہمیں ماضی ہی کی طرح ہاؤہو کا اچھا بہانہ ملا۔ ثالثی کی ایسی درخواست ہم نے 4 جولائی 1999ء کو بھی کی تھی۔ ثالثی کے لئے ضروری ہے کہ تنازع کے فریقین مل کر ثالث سے رجوع کریں۔ بھارت نے شملہ معاہدہ کے بعد سے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا۔
عمران خان امریکی دورے میں حزب اختلاف پر خوب برسے۔ یہ بھی فرمایا کہ سابق حکومتیں امریکا کی غلامی کر رہی تھیں۔ ادھر ٹرمپ صاحب کو شکوہ ہے کہ پاکستان کی سابق حکومتیں حکم ماننے میں ہچر مچر کرتی تھیں۔ گویا پاکستان کے سابق رہنما قومی مفاد میں مزاحمت کرتے تھے۔ قوموں کے تعلقات معاشی مفاد کے تابع ہوتے ہیں۔ ان تعلقات میں عمران خان کو جس برابری اور احترام کی تلاش ہے اس کی جڑیں ملک کے اندر مستحکم اور ہموار سیاسی عمل میں ہوتی ہیں۔ عمران نے اپنے سیاسی مخالفین کو سسلین مافیا قرار دیا ہے۔ اٹلی کی مافیا کا یہ حوالہ جس ادارے کی دین ہے وہ اپنی ساکھ کے بحران میں مبتلا ہو چکا۔ جس ٹوکری میں احتساب کے انڈے رکھے تھے اس کا پیندا مدینۃ الاولیا اور مدینہ منورہ کے راستے میں کہیں گر گیا ہے۔ اپنے ملک کے سیاسی معاملات بیرون ملک بیان کرنا کسی قومی رہنما کو زیب نہیں دیتا۔ خبر لیجئے کہ بھارتی وزیر اعظم نے اپنے ملک کے تمام گزشتہ وزرائے اعظم کے یادگاری میوزیم کا اعلان کیا ہے۔ باوقار قومیں اپنے رہنماؤں کا احترام کرنے سے آگے بڑھتی ہیں۔

عمران خان کو بدعنوانی کی داستانوں سے فرصت نہیں لیکن انہیں جاننا چاہیے کہ بدعنوانی کی بدترین شکل اداروں کے درمیان دستور کی طے کردہ لکیریں ملیامیٹ کرنا ہے۔ ماضی میں بدعنوانی کی ایسی ہی ایک مشق کے نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا تھا۔ عمران خان کی عمر تب 19 برس تھی۔ حیران کن طور پر فرماتے ہیں کہ اسامہ کے خلاف امریکی آپریشن میری زندگی کا سب سے توہین آمیز لمحہ تھا۔ تاریخی شعور اور واقعاتی محاکمے میں توازن چاہیے۔ ملک کا دو لخت ہونا زیادہ بڑی رسوائی تھی یا اس شخص کا اپنی زمیں پر مارے جانا جسے دنیا دس برس سے ڈھونڈ رہی تھی۔ یاد کیجئے کہ بن لادن یکم مئی کو مارا گیا لیکن عمران خان چھ مئی تک یکسر خاموش رہے۔ وزیر اعظم نے فرمایا کہ شکیل آفریدی کا درجہ جاسوس کا ہے۔ لگے ہاتھوں عافہ صدیقی کا مقام بھی متعین کر دیا ہوتا۔ میڈیا کی آزادی کے بارے میں کہا کہ 80 سے زائد چینلز میں سے صرف دو تین کو مسئلہ ہے۔ اے صاحب حکمت، اخبار میں ہر روز ہزاروں خبریں چھپتی ہیں۔ سنسر کا تعین اس ایک خبر سے ہوتا ہے جسے روکا جاتا ہے۔ فرمایا کہ ہم اسٹرٹیجک گہرائی سے آگے نکل آئے ہیں۔ بجا فرمایا۔ اب وقت گزر گیا تو از رہ کرم رہنمائی کریں کہ اسٹرٹیجک گہرائی تھی کیا اور کس کے ذہن رسا کی پیداوار تھی اور قوم کو اس کی کیا قیمت دینا پڑی؟ سوال کرنا چاہیے کہ افغانستان میں آپ کے دست اعجاز سے سب مہرے ٹھکانے پر بیٹھ گئے تو بھی افغانستان میں حکومت چلانے کے لئے درکار سالانہ دس ارب ڈالر کون دے گا؟ امریکا میں آپ کی تصویریں بہت اچھی اتریں لیکن پاکستان کی داخلی تصویر کے خدوخال بری طرح دھندلائے ہوئے ہیں۔ یہ کہاں کا سلیقہ ہے کہ دس برس تک سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی کا ڈھول بجایا جائے اور پھر سی پیک نامی گیم چینجر کی گیم ہی بدل دی جائے۔ ہمارے وزیر اعظم کی سوچ میں الجھاوے ہیں ادھر ڈونلڈ ٹرمپ کا ملک واحد عالمی سپر پاور ہے۔ اس کی زبان سے لغزش بھی ہوتی ہے تو بھارتی وزیر اعظم کو رو در رو تردید کا یارا نہیں ہوتا۔ ہم تو ایک غریب ملک ہیں جہاں 25 جولائی 2018 پر ایک برس بیت چکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).