فلمی ہیروئن سے دیہاتی رومانس


وہ میرے سامنے تھی اور مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ لوگ اسے جینا کے نام سے جانتے تھے۔ کیا یہ وہی ساحرہ ہے جس نے کروڑوں دلوں کو اپنے سحر میں جکڑا ہوا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں بھی اس کے چاہنے والوں میں سے تھا۔ کون ہے جس نے اس حسن بلاخیز کو دیکھا ہو اور اپنا دل اس کے قدموں میں نچھاور نہ کیا ہو، کس میں اتنی تاب ہے کہ اسے دیکھے اور اس کے عشق میں مبتلا نہ ہو۔ وہ دلوں کی ملکہ تھی، پنجاب کے اس دور افتادہ علاقے میں اس کی موجودگی کی خبریں گرم تھیں مگر وہ یوں اچانک سامنے آ جائے گی یہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔

جب کوئی نوجوان عہدِ شباب کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتا ہے تو ایکا ایکی دنیا اس کے لیے بدل جاتی ہے۔ اسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ایک ہی پل میں رنگ و نور کی ایک ایسی دنیا میں آ گیا ہے جہاں پھول کھلتے ہیں، جہاں خوشبوئیں اڑتی ہیں۔ آسمان پر دھنک کے رنگ بکھر جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ساری کائنات نئے سرے سے پیدا ہوئی ہو مگر اسی ہوشربا دور میں صبحیں امنگوں کو بیدار کرتی ہیں اور شامیں اداس کرتی ہیں۔ دل میں کسی ہم نشیں کی آرزو کسک بن کر چبھتی ہے۔ اس ہوشربا دور میں تو ہوا سے جھومتی ڈالیوں پر بھی مورنی کے رقص کا گمان ہوتا ہے اور مجھے تو پتہ نہیں وہ کیا دکھائی دی۔

وہی چمکتی آنکھیں، ریشم جیسے بال، صبحِ صادق کی روشنی جیسے عارض، سانچے میں ڈھلا جسم، مہین لان کا لباس زیبِ تن کیے ہوئے تھی۔ گرمیوں کی اس دوپہر میں آسمان پر کالے بادل چھائے ہوئے تھے مگر گرمی شدید تھی۔ اس کی پیشانی پیسینے سے تر تھی۔ تا حدِ نظر کپاس کے کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ قریباً بارہ بجے کا وقت ہو گا، ایسے میں وہاں کون نظر آتا مگر وہ وہاں تھی۔ اس نے مجھے دیکھا تو میرے پاس آ گئی۔

”ایکسکیوزمی! کیا یہاں پانی مل جائے گا؟“ وہ مجھ سے مخاطب تھی۔
”کیوں نہیں آپ کہیں تو سمندر خود چل کر آ جائے مگر اس سے آپ کی پیاس نہیں بجھے گی۔ ایک گلاس پانی کے لیے آپ کو رحمت چاچا کے ڈیرے تک جانا ہو گا“ ۔

میں نے مسرور لہجے میں کہا۔ ”اور یہ رحمت چاچا کا ڈیرہ کہاں ہے؟“ اس نے بھنویں اچکائیں۔
”قریب ہی ہے وہ سامنے جو درختوں کا جھنڈ ہے وہاں“ ۔

اس نے فوراً قدم بڑھا دیے۔ میں اس کے ساتھ چلنے لگا۔ ”مجھے جانتے ہو؟“ اس نے سرسری انداز میں کہا۔
”جینا کو کون نہیں جانتا“ میں بول اٹھا۔

”اوہ میں تو سمجھی تھی اس دور دراز علاقے میں کسی کو پتا نہیں ہو گا“ ۔
”گاؤں میں بات جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے، سب کو پتا ہے کہ فلم والے آئے ہوئے ہیں اور شوٹنگ چل رہی ہے۔ مجھے اس بات کی حیرت ہے کہ آپ اپنے یونٹ سے علیحدہ ہو کر کیا کر رہی ہیں“ ۔

اس نے مڑ کر گہری نظروں سے مجھے دیکھا۔ ”کتنا پڑھے ہو؟ کیا کرتے ہو؟“
”آپ نے سوچا ہو گا کہ جٹ بھینسیں چراتا ہے، گریجویٹ ہوں، ستر ایکڑ اپنی زمین ہے، پچیس ایکڑ ٹھیکے پر لی ہے۔ یہ کھیت ہمارے ہی ہیں۔“

”اچھا! اور فلمیں دیکھتے ہو، یہ نہیں بتاؤ گے“ وہ مسکرائی۔
”فلم تو کوئی نہیں چھوڑتا، آپ کی بھی پانچوں فلمیں دیکھی ہیں۔ ہاں چھٹی بھی جس میں آپ مہمان اداکارہ ہیں“

”گاؤں میں بھی سینما ہے؟“
”یہاں نہیں ہے پاس ہی جو شہر ہے اس میں ہے، لیجیے ڈیرہ آ گیا“

چاچا رحمت نے میرے ساتھ ایک لڑکی کو دیکھ کر پلکیں جھپکائیں۔
”چاچا جلدی سے ٹھنڈا پانی پلا دو“ میں نے سلام کرتے ہوئے کہا۔

”گھڑے میں ٹھنڈا پانی ہے پی لے، میری گائیں بھوکی ہیں مجھے ان کو چارہ ڈالنا ہے، اور یہ کڑی کون ہے تیرے ساتھ؟“
”چاچا تو پہچان کر بتا کون ہے؟“

”اپنے پنڈ کی تو نہیں ہے“ چاچا نے نفی میں سر ہلایا۔
میں نے ساتھ ساتھ گھڑے سے ایک گلاس پانی بھر کر جینا کو دیا۔

”رہنے دے چاچا، شمیم آرا ہوتی تو تُو فوراً پہچان لیتا، یہ سنہ 69 نہیں ہے سنہ 89 ہے، یہ آج کی ہیروئن ہے جینا“ ۔

چاچا بھی کسی زمانے میں فلموں کا رسیا رہا تھا لیکن وہ صرف شمیم آرا اور وحید مراد کی فملمیں شوق سے دیکھتا تھا سنہ 1983 میں وحید مراد کی اچانک موت کے بعد اس نے فلمیں دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔ جینا چارپائی پر بیٹھ گئی اور فلموں کی باتیں ہونے لگیں۔ میں نے ہر قابلِ ذکر فلم کئی کئی بار دیکھی ہوئی تھی۔ میں نے جب تنقیدی گفتگو کی تو جینا کافی متاثر نظر آنے لگی۔

”اب میری فلموں کے بارے میں بتاؤ؟“ اس نے کہا۔
”آپ کی فلمیں بے مثال ہیں اور آپ تو با کمال ہیں“

جینا ہنس پڑی۔ ”مجھے سامنے دیکھ کر میری تعریفیں کر رہے ہو“
”نہیں دل سے کہہ رہا ہوں“

”پتر یہ بھی گاؤں کے ڈراموں میں ایکٹنگ کرتا ہے“ چاچا نے خواہ مخواہ اطلاع دی۔
”اچھا تو یہ بات ہے، فلموں میں کام کرنے کا شوق ہے؟“ جینا مسکرائی۔

”نہیں جی! گاؤں کے ڈراموں تک ٹھیک ہے، فلموں میں کام کرنا بہت مشکل ہے“
”کیوں اس میں کیا مشکل ہے، دو تین جذباتی ڈائیلاگ بولنے ہوتے ہیں، دس بارہ بندوں سے فائٹ اور ہیروئن کے ساتھ تین چار گانے بس“

”ڈائیلاگ تو جتنے چاہو بلوا لو، دس بارہ بندے بھی پھڑکا دوں گا، بس یہ ہیروئن کے ساتھ گانے نہیں کر سکتا کیونکہ مجھے ڈانس نہیں آتا اور ڈانس کرنا اچھا بھی نہیں لگتا“
”تو پنجابی فلمیں کر لو سلطان راہی کی طرح گنڈاسa پکڑ کر کھڑے رہنا، ہیروئن خود ہی ڈانس کرتی رہے گی“

”آپ تو ایسے کہہ رہی ہیں جیسے ڈائریکٹر مجھے فلم دینے کے لیے مرے جا رہے ہیں۔ میں اپنے کھیت اور مال مویشی دیکھ لوں اتنا ہی بہت ہے ویسے آپ شوٹنگ سے نکل کر اکیلی ادھر آ گئیں بڑی بہادر ہیں“ میں نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3