بچوں کو متشدد مولوی سے بچائیں


بچپن میں دیگر کزنز کے ساتھ، جب ہمیں مسجد داخل کروایا گیا، تو مولوی صاحب اتنے متشدد نکلے، کہ بات بے بات نا صرف یہ کہ لڑکوں کو ڈنڈے سے پیٹتے تھے، بلکہ لڑکیوں کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ ڈنڈا بھی وہ، جس پہ وہ ہر وقت سرسوں کا تیل لگائے رکھتے تھے۔ ایک بار ایک بچی کی پیٹھ پر اِس بری طرح سے ڈںڈے برسائے، کہ اُس کے پیٹھ پر نکلا پھوڑا پھٹ پڑا اور اس کے زخم سے بہت سا خون بہا۔ مجھے آج بھی یاد ہے، اس ڈنڈے کی ضرب سے وہ بچی ایسے تڑپی تھی، جیسے بن جل کے مچھلی۔ اس واقعے کے بعد ننھے منے بچے اس قدر ڈر گئے، کہ کئیوں نے مسجد جانا چھوڑ دیا۔

پھر ہم بچیوں کو قران پڑھنے کے لیے ایک گھر میں بھیجا جانے لگا۔ قران پڑھانے والی اماں مارتی تو نہ تھیں، لیکن کسی دن پڑھائی سے ناغہ کر لیتے، تو بہت بے عزتی کیا کرتیں۔ میں اور کزنز عموماََ اُن کے زبان سے اپنی بے عزتی سہتے تھے۔ ہماری آئے دن چھٹی کی بڑی وجہ یہ تھی، کہ اُن اماں جی کا جوان سال بیٹا، ہمیں ہراساں کیا کرتا تھا۔ کبھی کسی لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر زور سے دباتا، کبھی کسی کی چٹکی نوچ لی۔ ہم اس حد تک زچ آئے تھے، کہ ہم میں سے کوئی بھی لڑکی، اکیلی ان کے گھر نہیں جاتی تھی۔ کسی ایک کو کوئی کام پڑ گیا، تو باقی بھی ناغہ کر لیتیں۔ ایسے ہی سہمے ڈرتے، ہراساں، پریشاں، ہم نے قرآن ناظرہ مکمل کیا۔

قران مجید ہماری مذہبی کتاب ہے۔ اس کو سمجھ کے پڑھنا، ہر مسلمان پر فرض ہے، تو پھر ہمارے یہاں کیوں اس کی تعلیم کو اتنا عمومی لیا جاتا ہے! ہم اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم تو اعلی سے اعلی اسکول میں دلوانا چاہتے ہیں، لیکن دینی تعلیم کسی بھی فرسٹرٰیڈ ٹیوٹر سے لینے بھیج دیتے ہیں، جو اپنی تمام تر محرومیوں کا بدلا معصوم بچوں پر جنسی و جسمانی تشدد کر کے لیتا ہے۔ ہم اپنے ملک کو ایک اسلامی مملکت کہلاتے ہیں، تو پھر ایسا کیوں نہیں ہوتا، کہ دنیاوی تعلیم کی طرح قران فرقان الحمید کو بھی دیگر مضامین کی طرح، ایک سبجیکٹ کی طور پہ اسکول ہی میں پڑھایا جائے؟ جو بچے حفظ کرنا چاہیں، وہ اپنی مرضی سے ناظرہ کے بعد حفظ کرنا چاہیں، تو حفظ کر سکیں؟

ہمارا المیہ یہ ہے کہ عربی ہماری تیسری چوتھی زبان بھی نہیں، تو اسے سیکھنے سمجھنے میں، اس کی قرات، عربی الفاظ کی ادائی میں، بچوں کو خاصی دشواری ہوتی ہے۔ تجویز یہ ہے کہ ابتدا میں، بچوں کو ایک ایک لفظ پڑھایا جائے، تا کہ انہیں یاد کرنے میں آسانی رہے۔ یہ والدین کی ذمہ داری ہے، کہ وہ بچوں کو قران خود پڑھائیں، یا پھر جس اسکول میں بچوں کا داخل کروا آتے ہیں، ان سے یہ مطالبہ کریں، کہ وہ اُن کے بچوں کو دوسرے مضامین کے ساتھ ساتھ قران پاک بھی پڑھائیں۔ خدارا اپنے بچوں کو ساری عمر کے لیے نفسیاتی مریض بننے سے بچائیں، کیونکہ بچپن میں ہوا تشدد، خواہ جسمانی ہو یا جنسی، بچے کو ساری زندگی کے لیے ذہنی اپاہج بنا دیتا ہے۔

میں مولوی صاحبان کے خلاف نہیں ہوں، وحشیانہ رویے کے خلاف ہوں۔ تشدد اسکول میں ہو، یا مدرسے میں، اس کی مخالفت کرتی ہوں۔ اسکول میں یہ ہوتا ہے، کہ ایک استاد پہ پرنسپل اور انتظامیہ کی نظر ہوتی ہے، استاد تشدد کرے تو ان کے خلاف ایکشن لیے جانے کا امکان رہتا ہے، جب کہ مدرسے میں نفسیاتی مریض کو بچوں پر ظلم کرنے سے روکنے والا کون ہے۔

بچے پھول کے مانند ہوتے ہیں، زرا سی گرم ہوا، انہیں کمھلا کے رکھ دیتی ہے۔ والدین سے گزارش ہے کہ اگر اُن کے بچے، مسجد یا مدرسے میں پڑھتے ہیں تو بچوں سے وقتاً فوقتاً مولوی صاحب کے رویے کے بارے میں پوچھتے رہیں۔ اگر بچے کوئی معمولی سے بھی شکایت لائیں، تو اسے معمولی مت سمجھیں، فورا اس بات کی چھان بین کریں۔ مولوی صاحب سے کڑے الفاظ میں بات کریں، کوئی رو رعایت مت برتیں۔ انہیں باور کرائیں کہ انہوں نے بچوں کے ساتھ کسی  قسم کا متشددانہ رویہ روا رکھا، تو وہ اُن کے قانونی چارہ جوئی کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔

زرا سوچیے، جس دین کی تعلیم ہے، کہ دین میں سختی نہیں، اُس دین کے اسباق دینے میں سختی برتنے والا، کیسے دین کی خدمت کر سکتا ہے! کیا ایسے متشدد استاد ہی بچوں کو دین سے متنفر کرنے کا سبب نہیں بنتے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).