مطالعہ پاکستان کا جعلی سیکولر پرچہ اور اصلی مطالعہ پاکستان


\"muhammad-bilal\"کچھ دن پہلے \” ہم سب \” پر ابن حاشر صاحب نے مطالعہ پاکستان  کو  \” بیہودہ \” ثابت کرنے کے لئے انتہائی فضول سوالات کیے ہیں جن کا فہم و دانش سے کوئی تعلق نہیں بلکہ چونکہ چنانچہ اور اگر مگر جیسے فرضی سوالات ہیں جن کا زمینی حقائق سے دور کاتعلق نہیں ۔  اپنے نظریہ کی ترویج  کے لئے لکھنا اور دوسرے کی فکر کا رد کرنا اہل علم کا اسلوب ہے لیکن یہ کہاں کا انصاف ٹھہرا کہ دوسرے کے نظریے کو \” بیہودہ \” قرار دیا جائے ۔ تویہ  \”ہم سب \” کا نعرہ کیا ہے ۔ کیا ہم سب کا مطلب سوسائٹی کی کثیر تعداد کے نظریے کوجو ملکی آئینی اور ہر لحاظ سے ہر شہری کے لئے معتبر ہے اس کو یوں اپنی دانشوری کے زعم میں \” بیہودہ \” کہنا کیا بدتہذیبی نہیں ۔ لیکن کیا کہیں ہم تو سیکولرازم  و جمہوریت کی بنیادی اقدار آزادی اظہار رائے پر عمل پیرا ہیں اب اس میں تہذیب کا کیا لینا دینا ۔ موصوف نے بے سروپا باتوں پر مبنی سوالات کا ایک پلندہ تیار کیا اور اس کو اندرا گاندھی کے بعد خود کو  دوسرا شخص سمجھا جس نے  نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبونے کا سہرا اپنے سر لیا ، لیکن کوئی بتائے ان کو کہ  نظریات  کو ڈبویا  نہین جا سکتا  ۔خیر موصوف کے اس پروپیگنڈہ کے جواب میں عثمان فاروق  نے ایک اچھا الزامی جواب دیا  ۔ کافی  دنوں سے میں سوچ رہا تھا کہ اس کا جواب جو میرے ذہن میں آرہا ہے لکھا جائے ۔اور کوشش کی ہے کہ جوابات معتدل ہوں ہاں انسانی فطرت کی وجہ سے کہیں زیادتی بھی ہوسکتی ہے اس لئے معافی کی درخواست ہے ۔

سوال نمبر1 : اگر علامہ ڈاکٹر سر محمد علامہ اقبال نے واقعی خطبہ الہ آباد میں مسلمانان ہند کے لئے الگ آزاد مملکت کا مطالبہ پیش کیا تھا تو کس کی سازش کے تحت ان کے یہ الفاظ خطبے کے اصل متن سے غائب کئےگئے جبکہ مملکت خداداد کی تیسری جماعت سے لے کر ایم اے تک کے نصاب میں ان کا حوالہ موجود ہے؟

علامہ اقبال کی شاعری ان کے نظریات کی عکاسی کرتی ہے ۔ باقی آپ خطبے کامتن دیں تاکہ ہمیں بھی پتا چلے خالی سنی سنائی  ہے یا کہیں  کوئی حقیقت کا عنصر بھی ہے ۔ ایک اور بات یہاں کا نصاب آپ کو صحیح نہ لگے کیمبرج یونیورسٹی کی تجویز کنندہ کتاب \”نیگل کیلی \”کی مطالعہ پاکستان بھی اقبال کے اس بیان کی تائید کرتی ہے کہ اقبال سرحد ، پنجاب ، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ایک ریاست کے قیام کا مطالبہ اپنے  اسی خطبے میں ہی کر چکے تھے ۔ شاید آپ کو انگریز مصنفین کی دیانت داری پر اعتراض  نہ ہو۔

سوال نمبر 2: نظریہ پاکستان کب اور کس نے لکھا تھا؟ قائداعظم محمد علی جناح کی تمام تقاریر میں نظریہ پاکستان نامی کسی ترکیب کا ذکر کیوں نہیں ملتا؟ جنرل شیر علی خان پٹوڈی کون تھے اورکیا یہ ممکن ہے کہ ملک پہلے بن جائے اور نظریہ بعد میں جنم لے؟

دنیا میں کوئی بھی نظریہ کئی ارتقائی مراحل سے گزر کر اپنی منطقی شکل پاتا ہے ۔ یہی حال نظریہ پاکستان کا ہے ۔ شاہ ولی اللہ کی مساعی سے لیکر سرسید کی کوششوں تک ، مولانا عبدالحلیم شرر کے مسلمانوں کے علیحدہ ملک کے علاقوں کی حدود کا بیان  ۔شملہ دفد کی شکل منیں مسلمانوں کے حقوق کی بات اور ان کے لئے علیحدہ انتخابات کا مطالبہ ، مسلم لیگ کا قیام ، خلافت کی بقاء کے لئے مساعی  ، کانگریس سے ایک مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد ،  چودہ نکات ،اقبال کا علیحدہ ریاست کے لئے تجویز دینا،ہندو ذہنیت کی حقیقت  دیکھ کر چوہدری رحمت کے پاکستان کے مطالبے کو اپنانا ،قرارداد پاکستان ، پاکستان کے قیام پر اسلامی معاشی نظام اور اسلامی رواداری  کے نظام کو اپنانے کا قائد کا عزم یہ سب کچھ نظریہ پاکستان نہیں تو کیا ہے ۔ جناب نظریہ پاکستان کا مطلب صرف یہ تھا کہ مسلمان برطانیہ کی غلامی سے نکل کر ہندؤوں کی غلامی میں دوبارہ نہیں آنا چاہتے ان کا ایک علیحدہ نظام ہے جس کے قیام کی کوشش کا پہلا کام علیحدہ ریاست کا قیام ہی تھا  ۔جناب اس نظریہ کی عملی شکل مملکت  خداد ادپاکستان خود ہے ۔ اب لفظی جنگ ایسے ہی ہے جیسے آج کوئی کاکا یہ کہے کہ مارکسزم کی اصطلاح مارکس نے کیوں نہ استعمال کی ۔ عمارت کا نام اس کی بنیادوں میں نہیں عمارت بننے کے بعد ہی لکھا جاتا ہے اس لئے عمارت کا نام اس کی بنیادوں میں ڈھونڈنا آپ جیسے دانشوروں کی قسمت میں ہی آیا ہے ۔

سوال نمبر 3: اگر دو قومی نظریے کے تحت مسلمانان ہند اور ہندووں کا تشخص اتنا جداگانہ تھا تو ہزار سال یہ اکٹھے کیسے رہتے رہے؟ اور اگر یہ دو قومی نظریہ جمہوریت کے خطرے سے عبارت تھا تو اس پر عمل درآمد کے بعد یہ کیونکر ممکن تھا کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد پھر بھی ہندوستان ہی میں رہتی اور ایک الگ مملکت بننے سے جنم لینے والی نفرت کا کفارہ ہمیشہ کے لئے ادا کرتی؟ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو دو قومی نظریے کی رو سے فائدہ ہوا یا نقصان؟

اس سطحی سوال کا جواب اتنا ہے نظریہ پاکستان میں یہ کہیں نہیں تھا کہ آپس میں اکٹھے رہنا غلط ہے بلکہ یہ تھا کہ ہمارا تشخص برقرار نہیں رہ سکتا جب برطانیہ کی \” ہیجمنی \” کے بعد مہا بھارت  کا تسلط آئے گا کیونکہ ایک صدی پہلے بھی گائے کی قربانی پر قتل کیا جاتا تھا اور آج بھی مہابھارت میں یہ کام جاری و ساری ہے  ، اصل مسئلہ اپنے آئینی حق کا مطالبہ تھا جیسا کہ کچھ دانشوروں کو بلوچوں کا آئینی حق نظر آتا ہے لیکن ان کو برصغیر کے مسلمانوں کا آئینی حق اور ان کا نظریہ چبھتا ہے ۔باقی مسلمانوں کے یہاں رہنے کے حوالے سے البیرونی کی کتاب الہند میں ہندوں کی مسلمانوں سے نفرت کا واضح لکھا ہو اہے  کہ ان لو \”ملیچھ\” سمجھا جاتا تھا ۔ جمہوریت کے نظام کی حقیقت کے لئے صرف اتنا ہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں 25  کروڑ مسلمانوں کے شاید پچیس نمائندے بھی بھارتی پارلیمنٹ میں نہیں ہیں تو جمہوریت کے نظام کا یہی طرز عمل پاکستان کے لئے خطرہ تھا جس کے لئے پہلے جداگانہ انتخابات اور پھر علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا ۔جہاں تک ہندوستان کے مسلمانوں کے فائدہ یا نقصان کی بات ہے تو اس میں کئی عوامل تھے جنہوں نے مسلمانوں کی راہ میں رکاوٹ حائل کی ایک باونڈری کمیشن ، دوسرا کانگریسی سیاستدان  ان 25 کروڑ کا سوال آپ ان سے کریں جن کے کہنے پر وہ وہاں رہے ۔ باقی جہاں  یہی سوال ہمارا بھی جمہوریت کو پاکر وہاں کے 25 کروڑ کو کیا ملا ہے اس کا جو جواب آپ دیں گے وہی میرا جواب سمجھیے گا۔

سوال نمبر 4: کیا دو قومی نظریے کے تحت پاکستان آج تمام ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستانی شہریت دینے کا پابند ہے؟

کیا ایک ہندوستانی قوم کے نظریے کے تحت بھارت آج پاکستانیوں کو وہاں کی شہریت دینے کا پابند ہے ۔پاکستان نے تو اس وقت تنگ دستی کے باوجود آنے والوں کو خوش آمدید کہا جو وہاں مرضی سے رک  گئے آج وہ روتے ہیں کہیں گجرات میں ، کہیں مظفر نگر میں اور کہیں مہاراشٹر میں ۔ اس کے باوجود پاکستان نے 90 کی دہائی میں آنے والے کشمیری بھائیوں کو بھی ویلکم ہی کہا تھا ۔ جو اس وقت اپنے پیروں  میں بیڑیاں پہن کر بیٹھ گئے آج ان کا یہ مطالبہ ان کے لئے سوالیہ نشان ہوگا ؟ پابند تو پاکستان اس وقت تھا لیکن جنہوں نے اس وقت اگنور کیا آج روتے ہیں ۔

سوال نمبر 5: کیا بنگلہ دیش میں پناہ گزین  بہاری بنگالی کہلائیں گے یا پاکستانی؟ اور اگر انہیں پاکستان بلایا گیا تو کون سا صوبہ کون سے نظریے کے تحت ان کا استقبال کرے گا؟

اس کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے ۔

سوال نمبر 6: اگر دو قومی نظریہ ایک آفاقی سچائی ہے تو کیا پاکستان کو برطانیہ، فرانس اور چین میں مسلمان آبادی کے لئے الگ ملک بنانے کی قرارداد اقوام متحدہ میں پیش کرنی چاہئے؟

میں جناب کی دانشوری پر حیران ہوں کیونکہ یہ سوال اور ابہام صرف اس لئے ہیں کہ جناب کو نظریہ پاکستان کی بنیاد اسلام سے ہی چڑ ہے جس کی ایک شکل یہ ہے کہ نظریہ پاکستان کا نام لیکر مسلمانوں  کی اسلامی سوچ کا رد کیا جائے ۔ جناب  سنیں پاکستان کا آئین موجود ہے اس میں کیا یہ چیز لکھی ہے ۔ یہ آئین نظریہ پاکستان کی عملی شکل ہی ہے ۔ کیا مطالعہ پاکستان میں یہ بات کہیں ہے ۔ تو بات واضح ہوجاتی ہے  کہ تنقید کا اصل ہدف آفاقی نظریہ اسلام ہے ۔ تو سنیں آپ کو وہاں سے ہی جواب  دیتا ہوں ۔ جومسلمان کسی اور ملک میں رہتا ہے تو اسکو وہاں کی حکومت سے تعاون کرنا کوئی بری بات نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات ہیں ، مثال یہ ہے کہ جب  نجاشی مسلمان نہیں ہواتھا اس کے پاس مسلمان ہجرت کرکے گئے ، مسلمان وہاں رہے اور علیحدہ ریاست کا مطالبہ نہیں کیا ، جب مکہ میں تھا علیحدہ ریاست کا مطالبہ نہیں کیا ، جب مدینہ میں گئے اور کثرت ان کے پاس تھی تو اپنی حکومت قائم کی اور دوسروں کے  حقوق کا تحفظ کیا ۔ اب دنیا کے قانون بھی دیکھیں ذرا کوئی بھی قوم اگر اس حد تک  آبادی رکھتی ہے اور علاقہ بھی کہ اس کو ریاست تسلیم کیا جائے پھر چاہے وہ جمہوری طریقے سے یا عسکری طریقے سے اس علاقے پر قبضہ کرلیتی ہے تو وہ ایک بین الاقوامی فورم میں ایک ملک کی حیثیت سے آ سکتی ہے جس کی مثالیں  سنگاپور ، مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان  وغیرہ ہیں ۔  یہ بین الاقوامی طرز عمل موجود ہے جس کی مثالیں بھی آپ کو دی ہیں اب اگر جمہوریت ایک بہترین نظریہ ہے تو کیا برطانیہ، فرانس اور چین میں مسلمان آبادی کے لئے الگ ملک بنانے کی قرارداد اقوام متحدہ میں پیش کرنی چاہئے؟

سوال نمبر 7: دو قومی نظریے کی رو سے پاکستانیوں کو سعودی عرب، ایران ، ترکی یا متحدہ عرب امارات کی اعزازی شہریت کا حق حاصل کرنے کے لئے کیا اوآئ سی کے پلیٹ فارم پر آواز بلند کرنی چاہئے؟

دو قومی نظریہ  اور آو آئی سی کے مقصد کیا ہے کیا یہ ایک معاشی معاہدہ ہے ہرگز نہیں بلکہ اس کا مقصد ہے کہیں بھی مسلمانوں کے حقوق اور ان کی نسل کشی کی جارہی ہو تو آواز اٹھائے اور یہ اس وقت قائم ہوئی جب بیت المقدس میں آگ لگانے کی کوشش کی گئی اس سے دوقومی نظریہ ایک آفاقی نظریہ ثابت ہورہا ہے کہ نہیں اور اس کی سمت کا بھی صحیح تعین ہورہا ہے ،دو قومی نظریے کا مقصد ہے مسلمانوں کوکفار کے ظلم و جبر سے بچانا ۔ اس میں شہریت کا سوال ایک سطحی سوچ ہی ہے ۔

سوال نمبر 8: بنگلہ دیش کونسے نظریے کے تحت بنا؟ کیا ہمیں انہیں اب بھی مسلم برادر سمجھنا چاہئے؟

بنگلہ دیش جس نظریے کے تحت بنا اسکو قوم پرستی کہتے ہیں اور بنگلہ دیش کی حکومت اب کیا کررہی ہے اورکیسے بنی اور کس نے بنائی سب کے سامنے ہے ۔ شاید اندرا گاندھی کا جملہ آپ کے دل و دماغ پرچھایا ہے کہ آج دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ۔ یا پھر مودی جی کا اعتراف حق کہ بنگلہ دیش ہم نے بنایا۔ جناب کیا  کسی کی غداری اور کسی سازش سے نظریہ پر کوئی حرف آئے گا۔  کسی جمہوری حکومت کے سیاہ کرتوت کیا جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہیں تو جواب ہے ہر گز نہیں ۔ اسی طرح جو ہوگیا سو  ہوگیا  بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلق کی بحالی او آئی سی کے سر ہے 1974 میں لاہور کانفرنس میں مجیب کی شرکت اس کی دلیل ہے اور یہ آپ کی او آئی سی کی ذمہ داریوں کے بارے میں  غلط فہمی کا بھی جواب ہے ۔ باقی اگر پاکستان میں موجود جمہوریت کی ایک مکروہ شکل کو ہمارے جمہوریے یہ کہ کر دفاع کرتے ہیں کہ انکی خامیوںکا علاج مزید جمہوریت سے ہی ممکن ہے  کوئی یہ نہیں کہتا  کہ اس پر ڈکٹیٹر شب خون مارے کیونکہ یہ جمہوریت ہی ہے چاہے لولی لنگڑی ہی کیوں نہیں ۔ جناب بنگلہ دیش مسلم ملک ہے اور برادر بھی چاہے وہ نادان برادر ہی کیوں نہیں ۔

سوال نمبر 9: کیا مسلمانوں کی اکثریت پاکستان بننے کے لئے تحریک کے دوران قتل ہوئی یا پاکستان بننے کےاعلان کے بعد فسادات کے دوران؟ کیا ان کی قربانیوں کی وجہ سے ملک بنا یا ملک بننے کی وجہ سے وہ قربان ہوئے۔ یہی سوال لاکھوں عورتوں اور بچیوں کی عصمت دری کے حوالے سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ایک ملک بننے کی قیمت میں کتنی لاشوں اور عزتوں کا سودا منافع بخش کہلائے گا؟

تحریک پاکستان کیا پاکستان بننے کے اعلان تک ہی تھی بلکہ نہیں اس کی قیام کی شکل افراد سے ہی تھی اور افراد کا اپنے وطن میں آنا اسی تحریک کا حصۃ ہی تھا اور قتل عام تحریک کے بعد نہین بلکہ تحریک کے دوران ہی ہوا ۔سوال صرف اتنا ہے کہ امریکہ میں جمہوریت کے نفاذ اور اس دوران ہونے والی خانہ جنگی  پر آپ کیا کہیں گے ، روس کے انقلاب پرکیا کہیں گے ، آج کی طاقتوں کا عراق کی دکٹیٹر شپ کو ختم کرکے لاکھوں لوگوں کو مارنا اور وہاں جمہوریت کا نفاذ کرنا کیا کہلائے گا۔ پوری دنیا میں کمیونزم کے خلاف جمہوری ملکوں کا فساد تاکہ جمہوریت زندہ رہے کیا کہلائے گا ۔ جناب یہ تعین کرلیں ظالم کون  ہے ،ظالم تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ٹھہری اور مظلوم کو یہ کہا جارہا ہے بھائی کس نے کہا تھا جمہوریت کی خلاف دو قومی نظریہ کا راگ الاپو اب بھگتوجمہوری ظلم ۔ کیا یہ سب حوادث جمہوریت کے قیام کے لئے منافع بخش سودا کہلائیں گے ۔ ایک اور بات کشمیر میں دو لاکھ شہید ہوئے کیا وہ بھی اس نئے ملک میں آنے کے دوران ہوئے ۔ افسوس مظلوم کو کوسا جاتا ہے اورظالم کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے ۔

سوال نمبر 10: ” خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی” سے کون سی قوم مراد ہے؟ اور یہ کہاں قیام پذیر ہے؟

وہی قوم جس کی فکر سے سیکولرزم  کو خطرہ ہے ۔ اور وہ دن رات اسی تگ و دو میں ہیں کہ اس فکر کو فضول سوالات کرکے مشتبہ بنایا جائے ۔

سوال نمبر 11: قیام پاکستان کے وقت مسلم لیگ کی اعلی قیادت میں جاگیرداروں، نوابزادوں، وڈیروں اور اشرافیہ کا کیا تناسب تھا؟ کیا یہ سب واقعی عوام کے غم میں گھلنے کے سبب ایک الگ مملکت کے قیام کے حامی تھے؟

کسی کا جاگیردار یا ودیرہ ہونے سے اس کی کریڈیبیلیٹی پر کوئی حرف نہیں آتا ۔ آج کسی بھی ملک کا لیڈر آپ کو غریب طبقے سے نظر نہیں آئے گا اب کسی کے باپ کا غریب ہونا کوئی دلیل نہیں ۔ اس کی سوچ کیا ہے اصل بات یہ ہے ۔ اور یقینا یہاں موجود جاگیردار پاکستان کے بننے کے بعد ہی اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مصروف عمل رہے اور ان سب کی چھتری جمہوریت ہی تو تھی اب اصل جڑ تو یہی نظام ہے جس میں صرف وہی آسکتا ہے جس کی جیب میں کچھ ہے ۔ یہی دیکھ لیں جمہوریت کے جتنے نام لیواء آج آپ کو نظر آتے ہیں کیا یہ عوام کے غم میں  گھلے جارہے ہیں ۔ لیکن ایک بات طے ان کی بقاء بھی یہی تھی اس لئے وہ بھی ساتھ ہولئے ۔جیسا کہ آج پاکستان میں جمہوریت سے مخلص دو چار ہی ہوں شاید لیکن جمہوریت کے غم میں گھلنے کےلئے ہر لوٹا تیار بیٹھا ہے ۔

سوال نمبر 12: مسلم لیگ کے اولین اجلاس منعقدہ 1906 میں تاج برطانیہ سے وفاداری کے بارے میں موقف کیا تھا؟

اس کا جواب سوال نمبر 2 کے جواب میں موجود ہے اور بتایا گیا ہے کن کن ارتقائی مراحل سے گزر کر مسلم لیگ ایک منطقی حل \”قیام پاکستان \” تک پہنچی ۔ لیکن اس سب کے باوجود مسلم لیگ کے قیام سے لیکر قیام پاکستان تک جو سب سے بڑا مقصد نظر آیا وہ یہ تھا \”مسلم قوم \” کا تحفظ ۔ جو دو قومی نظریہ کی بنیاد ہی تھا۔

سوال نمبر 13: اگر جواہر لال نہرو عوام کی فلاح کے لئے لینڈ ریفارمز ایکٹ انڈیا میں نافذ کر سکتا تھا تو ہماری حکومت کے ہاتھ کس نے باندھے تھے بلکہ کس نے آج تک باندھے ہوئے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ انڈیا میں جاگیرداریاں ختم ہو گئیں لیکن ہم آج بھی ایک جاگیردارانہ معاشرہ ہیں؟ اس سوال کا جواب سوال نمبر 11 کے ساتھ ملا کر دیں

پاکستان میں یہ کام نہیں ہوسکا اس کا افسوس ہے جو یقینا ہونا چاہئے تھا ۔

سوال نمبر 14: اگر 1919 میں جلیانوالہ باغ میں 380 نہتوں کا قتل جنرل ڈائر، وائسرائے ہند اور ملکہ برطانیہ کے سر ہے تو اگست 1948 میں بابڑہ میں حکومتی گولیوں سے مرنے والے 1300 نہتوں اور پھر مرنے والوں کے خاندانوں سے گولیوں کی قیمت تک وصول کرنے کا الزام خان عبدالقیوم اور گورنر جنرل پر رکھنا جائز ہو گا؟ یاد رہے کہ اس سانحے سے  ایک ماہ قبل قائداعظم کی خواہش پر ڈاکٹر خان کی حکومت ختم کر کے خان عبدالقیوم کو اقتدار سونپا گیا تھا۔ کیا ایسے واقعات مثلا ڈھاکہ بنگلہ بھاشا فائرنگ 1952، لالو کھیت فائرنگ 1965، مشرقی پاکستان ملٹری ایکشن 1971، لیاقت باغ فائرنگ 1973، ٹیکسٹائل کالونی فائرنگ 1978، پکا قلعہ حیدر آباد فائرنگ 1989، 12 مئی کراچی فائرنگ 2007 وغیرہ کو مطالعہ پاکستان کی کتب میں  شامل کرنا چاہئے یا جلیانوالہ باغ ہر سینہ کوبی ہی کافی ہو گی؟

دنیا کی کوئی حکومت اپنے دفاع کے لئے کسی حد تک جاتی ہے اس میں  اکثر اوقات وہ انصاف کا دامن چھوڑ دیتی ہیں ۔ بغاوت کو کچلنا ہر حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن بغاوت کو کچلنے اور قتل و غارت میں فرق ہوتا ہے ۔ اب یہی دیکھ لیں  جالیانوالہ باغ حملے سے پہلے ایک ایکٹ متعارف کرایا گیا روولٹ ایکٹ جس کا مقصد یہی تھا  آزادی کی لہر کا انجام دکھایا جائے ،اور اصل مسئلہ ہے پری پلان قتل و غارت کی منصوبہ سازی ۔ یہی ڈائر نے کیا تھا ۔ چونکہ اس کو آئینی شکل دی گئی تھی اس لئے اس کی اتنی زیادہ مذمت کی گئی ورنہ اس سے پہلے برطانیہ نے لاکھوں مارے لیکن ایک آئینی شکل میں غنڈہ گردی کو متعارف کرانا\” جمہوریت کی بڑی اماں \” برطانیہ کے سر ہے ۔ باقی جتنے واقعات آپ نے نقل کیے ہیں ان میں سے ایک کا جواب کافی ہوگا ۔ 48 میں ایپی فقیر کو کس نے اکسایا کہ \” جہاد پاکستان \” برائے \” افغانستان و کانگریس \” کی بنیاد رکھے ۔ یاد رہے کہ موصوف طالبان کے ایک لیڈر کے دادا جی  تھے ۔ جب آپ کی حدود میں غیروں کے دئے ہوئے مال سے جہاد کا نام لے کر فساد پھیلایا جائے اور اس کی سرکوبی میں آپ لڑیں تو کیا یہ غلط ہوگا  ہرگز نہین ۔ آج کے طالبان سے پاکستان کی لڑائی دیکھ لیں کیا یہ صحیح ہے یا نہیں ۔ آپ جیسے دانشور یقینا تیس سال بعدیہی کہیں گے وہ لال مسجد میں ہزاروں لڑکیوں کو مارنے کے بعد اس ظالم حکومت نے وزیرستان میں لاکھوں لوگوں کو قتل کیا۔ اور اس واقعہ کی صحت بھی اتنی ہے دوسرے واقعات میں بھی جو عوامل ہیں وہ کچھ اور ہیں ۔ ان کو شامل کیا جانا اگر پاکستان کے بننے میں کوئی معانی رکھتا ہے تو جب اس ملک میں آپ سیکولرازم نافذ کرلیں تب سیکولر مطالعہ پاکستان لکھ کر ان واقعات پر ماتم کیجیے گا ۔لیکن فی زمانہ  جمہوریت کی اماں اور ابا کے دنیا پر ظلم و ستم ہی لکھ دیں ۔

سوال نمبر 15: 1947 سے کے کر اب تک فسادات، دنگوں اور بم دھماکوں میں انڈیا میں کتنے مسلمان مرے ہیں او پاکستان میں کتنے؟ آپ چاہیں تو 1971 کے مقتولوں کو جواب سے خارج کر سکتے ہیں؟ کیا یہ کہنا صحیح  ہو گا کہ اگر ایک ملک میں مرنے والے مسلمان دوسرے ملک میں مرنے والوں سے کئی گنا کم ہوں تو اس ملک کو مسلمانوں کے لئے زیادہ محفوظ سمجھا جائے؟

آپ انصاف چاہتے ہیں لیکن اپنے بنائے ہوئے خودساختہ قوانین کی روشنی میں جبکہ انصاف غیر جانبدارانہ ہی ہوتا ہے ۔ آپکا سوال یہ ہونا چاہئے تھا کہ جتنے  غیر حربی لوگ انڈیا میں مارے گئے ان کی تعداد اور پاکستان میں مارے جانے والوں کی تعداد کا موازنہ کیا جائے کیونکہ انسانی جان کسی کی بھی ہو وہ قیمتی ہے لیکن آپ نے صرف مسلمان کی قید لگائی جو آپ کے ذہن کی عکاسی کرتی ہے ۔ دوسری بات اگر مسلمان کی قید لگائی تو ٹھیک ہے پھر ہجرت کے دوران اور کشمیر میں مارے جانے والوں کو بھی شمار کریں پھر موازنہ کرلیں ۔ اصل سوال تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ انڈیا میں اقلیتی افراد کے قتل عام اور پاکستان میں ہونے والے قتل عام کا موازنہ کیا جائے ؟ جویقینا آپ نہیں کریں گے  کیونکہ یہاں ہمارے دانشوروں کی  حالت بالکل اس طرح ہے جس طرح ایک میراثی فوج میں نوکری لینے گیا تو وہاں یہ کہنے لگا دھوپ میں ڈیوٹی نہیں کروں گا ۔یعنی اپنے  جانبدارانہ اصولوں کے مطابق انصاف چاہئے جبکہ انصاف غیر جانبداری کا نام ہے ۔

سوال نمبر 16: اگر آپ کو پتہ ہو کہ آپ کی جیب میں کھوٹے سکے ہیں لیکن پھر بھی آپ خریداری کے لئے بازار جا پہنچیں اور خریداری کی کوشش بھی کریں تو کیا یہ طرز عمل دانش مندانہ کہلائے گا؟

اگر جمہوریت کی جیب میں موجود کھوٹے سکوں (زرداری  وغیر ہ سیاستدان) کے باوجود ہمارے احباب جمہوری اقدار کے نفاذ کی کوشش کر رہے  ہیں  اورپھر بھی جمہوریت کی خریداری کے لئے کوشاںہے توکیا اس کو دانش مندی کہا جائے گا ۔۔۔۔ جناب  کبھی بھی کسی کے پاس سارے سکے کھوٹے نہیں ہوتے جیسے جمہوریت کے حامیوں کے پاس وجاہت مسعود صاحب جیسے نظریاتی جمہوریت پسند موجود ہیں جو اپنے نظریہ سے مخلص ہیں اور وہ دن رات اس کی ترویج میں کوشاں ہیں ۔ اس کے لئے ان کو زرداری جیسے جمہورے بھی قبول ہیں کیا اس کو دانش مندی کہا جائے گا ؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments