خان صاحب کو ابھی بہت پاپڑ بیلنے ہیں


وزیراعظم عمران خان کامیاب واشنگٹن یاترا کے بعد وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔ اسلام آباد لینڈ کرنے پر ان کے حواریوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا اور پھولوں کے ہار پہنائے۔ خان صاحب خود بھی دورے سے مطمئن اور خوش وخرم نظر آ رہے تھے اور انھیں ہونا بھی چاہیے کیونکہ ایک سال تک امریکی صدر ٹرمپ کی پاکستان کے بارے میں جلی کٹی باتیں سننے کے بعد ان کا وائٹ ہاؤس میں گرم جوشی سے خیرمقدم کیا گیا۔ خان صاحب نے اسلام آباد پہنچ کر کہا لگتا ہے ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔

جوش، ولولہ، امیدیں اور خوشگوار توقعات اپنی جگہ لیکن جیسا کہ وزیراعظم نے خود کہا ہے کہ ابھی ادارے ٹھیک کرنے ہیں۔ اگر کرکٹ کے حوالے سے ہی دیکھا جائے تو خان صاحب ٹورنامنٹ کی ایک اننگز کھیل کر آئے ہیں لیکن کپ جیتنے کے لیے ابھی بہت پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ جہاں تک خارجہ حکمت عملی اور علاقائی معاملات کا تعلق ہے، یہ انتہائی گنجلک معاملات ہیں۔ افغانستان کو ہی لے لیں، وزیراعظم نے درست کہا کہ کام مشکل ہے، طالبان کو راضی کرنا آسان نہیں لیکن ہم پوری کوشش کریں گے۔

افغان طالبان کا وزیراعظم سے ملاقات پر آمادگی کا اظہار کرنا انتہائی مثبت پیشرفت ہے۔ افغانستان کے حوالے سے امریکہ کی تین خواہشات ہیں۔ سب سے پہلے تو افغان طالبان کو سیز فائر پر آمادہ کیا جا ئے، عمران خان جس روز اسلام آباد واپس پہنچے اسی روزہی کابل میں تین دھماکے ہوگئے۔ امریکہ یہ بھی چا ہتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو اشرف غنی حکومت کے سا تھ مذاکرات کر نے پر آمادہ کر ے، تاحال صورتحال یہ ہے کہ طالبان موجودہ افغان حکومت کو کٹھ پتلی حکومت ہی سمجھتے ہیں اور اس سے مذاکرات کے لیے ہرگز تیار نہیں۔

اگر یہ معاملات طے ہو جائیں تو یقیناً امریکہ کی خواہش ہو گی کہ وہاں ایک ایسی مخلوط حکومت تشکیل دی جائے جو تمام افغانوں کی نمائندگی کرتی ہو۔ دوسری طرف افغان طالبان چاہتے ہیں کہ امریکہ اپنی فوجوں کے انخلا کا ٹائم ٹیبل دے، اسی صورت میں سیز فائر پر بات ہو سکتی ہے۔ افغانستان کے لیے امر یکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد قطر میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اگلا دور شروع کرنے والے ہیں۔ یقیناً اس وقت افغان مسئلے کے سیاسی حل کے لیے جتنے حالات سازگار ہیں اس سے پہلے شاید کبھی نہ تھے۔

طالبان کا رویہ بھی بدلہ ہواہے۔ اگرچہ افغانستان کے نصف علاقے پر ان کا قبضہ ہے لیکن وہ بھی اتنی طویل جنگ سے کچھ اکتا سے گئے ہیں۔ تاہم ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ میدان جنگ میں بیش بہا قربانیاں دے کر ہونے والی فتوحات کو امر یکہ کی خاطر مذاکرات کی میز پر تج کر دیں گے تو یہ بہت بڑی خام خیالی ہوگی۔ امریکہ افغانستان کو یہ غچہ بھی دے رہا ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیرنو اور ترقی کے لیے نئی حکومت کو اربوں ڈالر کا مارشل پلان دینے کو تیار ہے۔

افغان مسئلے کے حل کے لیے سب سے موافق بات یہ ہے کہ اس ضمن میں فوجی قیادت، آئی ایس آ ئی اور سیاسی حکومت ایک ہی صفحے پر ہیں اور ان سب سٹیک ہولڈرز کا واشنگٹن جانا بھی اسی امر کی غمازی کرتا ہے۔ ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ اگرما ضی میں افغان طالبان کو پاکستان کی براہ راست یا بلاواسطہ مدد واعانت حاصل تھی تو موجودہ فوجی قیادت کے دور میں یقیناً ایسا نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر افغان مسئلے کا کوئی حل نہ نکلا اور دہشت گردی کی کارروائیاں بھی جاری رہیں تو ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ پاکستان پر لعن طعن کی ڈفلی بجانا شروع کر دیں گے۔

ٹرمپ تو صرف یہی چاہتے ہیں کہ اگلے برس ہونے والے صدارتی انتخابات سے پہلے وہ یہ کہہ سکیں کہ دیکھا میں نے 2001 ء سے جا ری افغان جنگ جس میں ہزاروں امریکیوں کی جانیں تلف ہوئیں اور کئی ٹریلین ڈالر خرچ ہو چکے ہیں سے بالآخر امریکہ کو نکال لیا ہے۔ ملکوں کے درمیان رشتے بھی انسانی فطرت کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔ ٹرمپ نے حالیہ دور ے کے دوران عمران خان کی خوب تعریف کی اور خان صاحب نے ٹرمپ کی۔ حالانکہ ماضی قریب میں دونوں ایک دوسرے کو کوستے تھے، اس کی ایک وجہ واضح طور پر یہ ہے کہ امریکہ سے تاریخی طور پر ہمارا تعلق کچھ لو اور کچھ دوکا ہی ہے۔

یہاں پاک چین دوستی جیسا اخلاص نہیں پایا جاتا۔ جوش وخروش کے اس ماحول میں یہ بات بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ بھارت چین کے خلاف امریکہ کا سٹریٹجک پارٹنر ہے، امریکہ اور بھارت کا گہرا تجارتی و اقتصادی تعلق ہے اور یہ سٹریٹجک تعلق محض پاکستانی وزیر اعظم کے ایک دورے سے نہیں ٹوٹ سکتا۔ امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے حوالے سے ایسی بات کر دی جوشا ید وزیر اعظم کے بھی وہم گمان میں نہ تھی۔ ٹرمپ کاکہنا ہے کہ نریندر مودی نے حالیہ جی 20 سر براہی اجلاس میں ان سے خود درخواست کی تھی کہ کشمیر پر ثالثی کریں۔

ٹرمپ کے اس بیان پر بھارتی حکومت، جسد سیاست اور میڈیا میں ہاہا کار مچ گئی۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایسی کوئی درخواست نہیں کی کیونکہ وہ شملہ معاہد ہ اور اعلان لاہو ر کے تحت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا قائل ہے وہ بھی اس صورت میں جب بقول بھارت پاکستان دہشت گردی سے توبہ کر لے۔ گویا کہ بھارت کے مطابق صدر ٹرمپ نے سفید جھوٹ بولاہے لیکن ٹرمپ کے معاشی امور کے مشیر لیری کڈلونے ایک صحافی کے سوال پر انتہا ئی ناگواری کا اظہار کیا اور کہا امریکی صدر جھوٹ نہیں بولتے اور انھوں نے یہ خود نہیں گھڑی، ٹرمپ نے جو کہنا تھا کہہ دیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ازخود اس کی اب تک تردید نہیں کی لیکن امریکہ کے رویئے میں مثبت تبدیلی کے باوجود کشمیر پر اتنی جلدی کوئی بڑا بریک تھرو ہوتا نظر نہیں آتا۔ تاہم اس بات کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ امریکہ سفارتی ذرائع سے بھارت کو ان معاملات پر آمادہ کر لے۔ امریکہ میں خان صاحب سے پاکستان میں میڈ یا پر پابند یوں کے حوالے سے سوالات کی بوچھاڑ ہوئی۔ وائٹ ہاؤس میں جب صدر ٹرمپ کی موجودگی میں وزیر اعظم سے اس بارے میں سوال کیا گیا توانھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں میڈیا پر پا بندی کی بات تو ایک مذاق کے مترادف ہے، وہاں تو میڈیا مکمل آزاد ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی آزاد ہے۔

بعدازاں ایک تھنک ٹینک میں اس سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے چند میڈیا چینلز سے اپنی شکایات کا ذکر کیا اور اس بات پر بھی بجا طور پرافسوس کا اظہا ر کیا کہ چینلز نے یہاں تک کہہ دیا کہ وزیراعظم کل اپنی بیوی کو طلا ق دے دیں گے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ میڈیا پر پابند ی نہیں لگائی جارہی، اسے ریگولیٹ کیا جائے گا ساتھ ہی انھو ں نے یہ ڈینگ مار دی کہ پاکستانی میڈیا برطانیہ کے میڈیا سے زیادہ آزاد ہے۔ لیکن جس روز انھوں نے وطن واپس پہنچنا تھا ان کی معاون خصوصی برائے اطلا عات فردوس عاشق اعوان نے یہ کہہ کر کہ میڈیا کورٹس بنائی جائیں گی ایک بم شیل پھینک دیا۔

ایڈیٹروں کی تنظیم سی پی این ای اور بعدازاں اے پی این ایس نے میڈیا کورٹس کی تجویز کو رد کردیا اور اب صحافیوں کی تنظیم پی ایف یو جے نے بھی اسے رد کردیا۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ پاکستانی میڈیا کا ہمیشہ سے استدلال رہا ہے کہ میڈیا کے لیے کوئی خصوصی قانون نہیں ہونا چاہیے اور ماضی میں بھی پاکستان کی میڈیا تنظیموں جن میں سی پی این ای، اے پی این ایس اور پی ایف یو جے شامل تھیں نے بدنام زمانہ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس کی ہمیشہ مخالفت کی اور بالآخر ایسی پابندیوں سے چھٹکارا حاصل کر لیا۔

اب محترمہ فردوس عاشق اعوان میڈیا پر دوبارہ کاٹھی ڈالنے کے لیے بے تاب ہیں اور اس ضمن میں انھوں نے انتہائی چالاکی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ یہ خصوصی عدالتیں میڈیا ورکرز کے تحفظ کے لیے بنائی جا رہی ہیں۔ ا سے سوائے میڈیا کے سٹیک ہولڈرز میں پھوٹ ڈالنے کی بھونڈی کوشش کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ حکومت کے لیے بہتر ہے کہ اس قسم کے ہتھ چھٹ اقدامات سے اجتناب کرے۔ اس سے پہلے سے بڑھتی ہوئی محاذ آرائی میں مزید اضافہ ہو گا۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).