نواز شریف اور اداروں کے تصادم میں عرفان صدیقی کا کردار


رات آدھی سے زیادہ نکل چکی تھی۔ قریب ایک بجے کا عمل ہو گا۔ میسج آیا کہ معروف صحافی اور ادیب عرفان صدیقی کو اسلام آباد پولیس نے گھر سے اُٹھا لیا۔ حقائق کی کھوج کے لیے تھانہ رمنا گیا۔ اے ایس آئی کو عرضی پیش کی کہ عرفان صدیقی سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ کوشش بارآور نہیں ہوئی۔

پوچھا اُن کا جرم کیا ہے؟

بتایا گیا کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی۔

سر یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ رات کے اندھیرے میں بزرگ شہری کو گھر سے اُٹھا لیا جائے۔ یہاں کتنوں کو میں جانتا ہوں جو اس ایکٹ کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ کیا قانون اُن لوگوں کے لیے حرکت میں آتا ہے جو کسی نہ کسی شکل میں نواز شریف حکومت کے ساتھ وابستہ رہے۔

اے ایس آئی بولا، جی ہمیں اوپر سے حکم ملا اور ہم انھیں گرفتار کر کے لے آئے۔

عرفان صدیقی کی گرفتاری بظاہر کرایہ داری ایکٹ کے تحت سامنے آئی مگر اصل حقائق کچھ اور ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں، ڈان لیکس کے معاملے پر بڑی سرکار کی طرف سے ایک ٹویٹ آیا۔ میاں نواز شریف وزیراعظم تھے، عرفان صدیقی اُن کے سپیچ رائٹر تھے۔ میاں نواز شریف نے انھیں کہا کہ اس کے جواب میں انہی کے الفاظ میں ایک پریس ریلیز جاری کریں۔ وزیراعظم ہاؤس میں بیگم کلثوم نواز مرحومہ اور اُن کا بیٹا حسین نواز بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔

عرفان صدیقی بیگم کلثوم نواز سے مخاطب ہوتے ہیں کہ وزیراعظم صاحب کو آپ سمجھائیں اس طرح کی پریس ریلیز جاری کرنے سے اداروں میں ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہو گی۔ معاملات سلجھنے کی بجائے مزید اُلجھ جائیں گے۔

یہ باتیں ہو رہی تھی کہ میاں نوازشریف بھی آ جاتے ہیں۔ بیگم کلثوم نواز وزیراعظم کو سمجھاتی ہیں۔ میاں نوازشریف عرفان صدیقی سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ “اے نوکری دی گل ہوئی۔ اس طرح میں نہیں کر سکدا”

بہرحال وہ پریس ریلیز پھاڑ دی گئی۔ نئی پریس ریلیز بنائی گئی اور جاری کی گئی۔

بات یہاں ہی نہیں رُکی۔ میاں نواز شریف اور فوج کے درمیان معاملات انتہائی کشیدہ ہو جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف بطور وزیراعظم اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے جنرل باجوہ سے استعفیٰ لینے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ یہ عرفان صدیقی ہی تھے جنھوں نے یہاں بھی معاملات کو ہینڈل کیا اور بات ٹل گئی۔

پانامہ کیس میں میاں نواز شریف کو سزا دی گئی۔ اُنھیں وزارت اعظمی سے نااہل کیا گیا، عرفان صدیقی نے”ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ تخلیق کیا۔ جسے میاں نواز شریف نے خوبصورتی سے گھر گھر تک پہنچایا۔ ان کے پس زنداں ہونے سے اب یہ علم اُن کی بیٹی مریم نواز اُٹھا کر نگر نگر گلی گلی پہنچ رہی ہے۔

عرفان صدیقی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بطور استاد کیا۔ وہ سرسید کالج راولپنڈی میں بھی پڑھاتے رہے۔ ایک بار انھوں نے مجھے بتایا کہ جنرل باجوہ اُن کے شاگرد رہے ہیں۔ اسی لیے وہ اپنے شاگرد کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ جنرل باجوہ کی بطور آرمی چیف سلیکشن میں عرفان صدیقی کا بھی کلیدی کردار ہے۔

ان دنوں عرفان صدیقی اپنی یادداشتیں قلمبند کر رہے تھے گرفتاری سے دو روز قبل میری اُن سے بات ہوئی۔ کہہ رہے تھے کہ “طبعیت منتشر ہے۔ بلڈ پریشر کا عارضہ لاحق ہے”۔ یہ ٹھیک ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ قانون سے کوئی بالاتر نہیں، لیکن وزیراعظم صاحب جب اپنے دائیں بائیں علیم خان، عامر کیانی، پرویز خٹک اور اعظم سواتی کو کھڑا کر کے دھاڑ رہے ہوتے ہیں کہ چوروں اور ڈاکوں کو جیل میں ڈالوں گا تو اُس وقت پاکستانی شہری یہ ضرور سوچتا ہو گا کہ محترم کن کرداروں کے جلو میں کھڑے ہو کر بھاشن دے رہے ہیں۔

لوگوں کو کرایہ داری ایکٹ میں گرفتار کرنے سے قبل دائیں بائیں دیکھ لیں۔ آپ کو عرفان صدیقی سے بڑے جرائم پیشہ لوگ ملیں گے۔ آپ کے آزو بازو کھڑے ہونے والوں کے بھانجوں، بھتیجوں اور اُن کی اولاد کا چال چلن کیسا ہے؟ اس کا جائزہ اپ کو لینا ہو گا اور فیصلہ کرنا ہو گا۔ آپ احتساب کریں، ضرور کریں مگر احتساب سے انتقام کی بو نہیں آنی چاہیئے۔ ابھی تک آپ کے احتسابی ریڈار سے جو کچھ ہویدا ہوا، اس سے تو انتقام کی بو آ رہی ہے۔ تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی اور نہ وہ وعدہ معاف گواہ بنتی ہے۔

انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنا کر نادر شاہی کرنے والے آج نشان عبرت بنے ہوئے ہیں۔ فرعون کو بڑا غرور تھا کہ مصر کے انہار و اشجار کا مالک وہ ہے مگر خدائے قہار نے اس کا سارا اعتبار و وقار دریا برد کر دیا۔ یہی کہانی خسرو پرویز کی ہے، یہی داستان قیصر روم کی ہے۔ انتقام کی آگ سے باہر نکلیں اور احتساب کو انصاف کے دائرے میں رہنے دیں۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui