عرفان صدیقی کی گرفتاری: قصور وار کون ہے؟


کہنے کو بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ تاہم احساس زیاں ہو تو دکھ کے اظہار کا ایک لفظ بھی کافی ہوگا۔ لیکن خسارے کے سفر کا تہیہ کرلیا جائے تو دلائل کے انبار اور لکھے گئے دفتر بھی کسی سمت کی طرف رہنمائی کرنے سے قاصر ہوں گے۔ ایک استاد ، کالم نگار اور سب سے بڑھ کر ایک بزرگ شہری عرفان صدیقی گرفتار کرلئے گئے۔ کرایہ دار کے بارے میں قانون کے مطابق پولیس کو اطلاع نہ دینے پر قانون حرکت میں آیا۔ قانون کسی کا رتبہ ، عمر ، حیثیت یا پس منظر نہیں دیکھتا۔ وہ تو ناک کی سیدھ میں سفر کرتا ہے۔ حکومت کی ترجمان فردوس عاشق اعوان درست کہتی ہیں کہ حکومت نے اداروں کو اس قدر خود مختار کردیا ہے کہ وہ جو چاہے کرسکتے ہیں۔ وہ چاہیں تو حکومت کے منہ پر کالک پوتنے کا اہتمام کرسکتے ہیں اور بیچاری حکومت منہ تکتی رہے۔ وہ اس وقت یہی کام کر رہی ہے۔

عرفان صدیقی استاد اور کالم نگار کے طویل کیرئیر کے آخر میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے قریب ہوئے اور ان کے اسپیچ رائٹر رہنے کے علاوہ گزشتہ دور میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ملک بھر کے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی گرفتاری اسی پاداش میں عمل میں لائی گئی ہے۔ ان کے خلاف جب کسی دوسری بدعملی کا کوئی ثبوت نہیں ملا تو مکان کرایہ پر دینے کے لئے دفعہ 144 کی ذیلی شق کی خلاف ورزی پر انہیں دھر لیا گیا تاکہ دوست دشمن خبردار ہوں کہ موجودہ حکومت کام کرنا چاہتی ہے اور اپنے راستے میں آنے والی ہر دیوار کو گرانا جانتی ہے۔ لیکن عرفان صدیقی تو کوئی بڑی رکاوٹ بھی نہیں تھے۔

 بزرگ دانشور کی گرفتاری اور ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیشی اور پھر ’ذرا توقف‘ کے بعد مجسٹریٹ کا ایک ایسے جرم میں، جس کی کل سزا زیادہ سے زیادہ تین ماہ قید ہو سکتی ہے، 14 دن کا ریمانڈ دینا حکومت کے عزم اور قانون کی بالادستی کا واضح ثبوت ہو سکتا ہے۔ فردوس عاشق اعوان نے اسی طرف اشارہ کیا ہےکہ حکومت بے بس ہے اور ادارے آزاد ہیں۔ یہی وہ ادارے ہیں جن سے مخاطب ہو کر مریم نواز نے دو روز قبل کوئٹہ میں کہا تھا کہ وہ عمران خان کی حمایت میں عوام سے دشمنی مول نہ لیں۔’ ادارے سب صوبوں اور لوگوں کے نمائندے ہیں اور انہیں عزیز بھی ہیں۔ اس لئے اداروں کو ایک حکومت کی حمایت میں عوام کے سامنے نہیں آنا چاہئے‘۔

تحریک انصاف اور حکومت کے حامی بھی اس گرفتاری پر ششدر ہیں۔ عرفان صدیقی اپنے سیاسی خیالات اور نواز شریف سے قربت کی وجہ سے ضرور بہت سے لوگوں کو ناپسند ہوں گے لیکن ان کی شرافت اور دیانت داری پر کسی نے کبھی کوئی سوال نہیں اٹھایا۔ یوں بھی کرپشن کے خلاف ’مقد س جنگ‘ کی قیادت کرنے والی حکومت تو اب سابقہ حکمرانوں کے پر تعیش سفر اور کیمپ آفسز پر ہونے والے اخراجات وصول کرنے کے لئے بھی حرکت میں آچکی ہے۔ اب حکومت کسی سابق اہل کار، سیاست دان یا سیاسی عہدیدار ۔۔۔ تاآنکہ وہ تائب ہو کر تحریک انصاف کی پاک باز حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان نہ کردے ۔۔۔ کے کسی گناہ کو نظر انداز نہ کرنے کا عہد کئے ہوئے ہے۔ عرفان صدیقی گزشتہ دور میں کئی برس تک وفاقی وزیر کے برابر عہدے پر متمکن رہے تھے۔ ان کی حرکات و سکنات ، فیصلوں اور کارکردگی کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہوگا۔ اگر کسی دوسرے معاملہ میں گرفت ہو سکتی تو شاید پولیس کو دفعہ 144 کے تحت قومی ایکشن پلان کے نفاذ کے سلسلہ میں حاصل ہونے والے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے عرفان صدیقی کو گرفتار نہ کرنا پڑتا۔

حکومت کے کچھ حامیوں کا خیال ہے کہ ان کی قیادت اس قسم کا ’نیچ‘ کام نہیں کرسکتی ۔ ضرور اس میں بھی حکومت دشمنوں کی کوئی چال ہے۔ اہل پاکستان کو سوشل میڈیا کے بہت سے ایکٹوسٹ یہ باور کروانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ملکی بیورو کریسی میں اب بھی سابقہ حکومت کے ہمدردوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو حکومت کو ناکام بنانے اور بدنام کرنے کے لئے اس قسم کے اقدامات کرتے ہیں تاکہ عمران خان کی شفاف حکومت کی پاک دامنی پر شبہات کے دھبے نمایاں کئے جا سکیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کسی بھی معاملہ کی کوئی تفصیل آنے سے پہلے ہی یہ جیالے اس اقدام کی ایسی تاویلات سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں جن کا عقل و دلیل سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔

عرفان صدیقی کی گرفتاری کے حوالے سے بیوروکریسی میں سابقہ حکومت کے ’حامیوں‘ کا سراغ لگانے والے تحریک انصاف کے فدائی بھی اس دلیل کے ذریعے دراصل عرفان صدیقی کی گرفتاری کو غلط قرار دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کی حمایت میں دلائل تلاش کرنے کی دھن میں وہ یہ تسلیم کرنے کی غلطی بھی کر رہے ہیں کہ موجودہ قیادت کو امور مملکت پر کنٹرول نہیں ہے اور وہ اپنے اقدامات اور کارکردگی سے اپنی نااہلی کا ثبوت دے رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز عمران خان کو ’نالائق اعظم ‘ کہتے ہوئے دراصل حکومت کی ناقص کارکردگی کے اسی پہلو کی طرف اشارہ کر رہی ہوتی ہیں۔ جس حکومت کو اپنے انتظام میں کام کرنے والے افسروں اور اہلکاروں کی کارکردگی پر ہی کنٹرول نہ ہو، وہ امور مملکت کو کیسے کامیابی سے چلا سکتی ہے۔

حکومت کے زیر انتظا م کام کرنے والے ادارے اگر چالاکی سے سیاسی دشمن مسلم لیگ (ن) کے ’ایجنڈے‘ پر عمل کر رہے ہیں اور حکومت کو اس کی خبر بھی نہیں ہو پاتی تو اسے سیاسی دشمنوں کی مکاری سے زیادہ حکمرانوں کی نااہلی ہی مانا جائے گا۔ لیکن بیچاری حکومت میں اطلاعات کی مشیر کو فیصلہ کرنے والے ادارے کی ’خود مختاری‘ کا اعلان کرتے ہوئے یہ بتانا پڑتا ہے کہ حکومت ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ گویا حکومت کی ترجمان بھی اپنی ہی حکومت کے زیر انتظام چلنے والے اداروں میں سابقہ حکومت کے ’ایجنٹوں‘ کے عزائم کو درست اور جائز قرار دینے پر مجبور ہوچکی ہیں۔

عرفان صدیقی کو مکان میں کرایہ دار رکھنے اور اس کی اطلاع متعلقہ قواعد کے تحت پولیس کو نہ دینے پر حراست میں لے کر دو ہفتے کے ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیجا گیا ہے۔ مجسٹریٹ کے سامنے پیشی پر ان کے وکیل نے واضح کیا کہ یہ مکان عرفان صدیقی کی ملکیت میں نہیں ہے بلکہ ان کا بیٹا مکان کا مالک ہے جو دوبئی میں کام کرتا ہے۔ کرایہ نامہ پر بھی اسی کے دستخط ہیں۔ ایک بالغ اور اپنی آزادانہ آمدنی کے حامل شخص کے کسی فعل کا ذمہ دار کسی بھی قانون اور اخلاقیات کے تحت اس کے باپ کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن فاضل مجسٹریٹ کو اس معاملہ کی سماعت کے بعد فیصلہ کرنے کے لئے سوچنے کے وقفے کی ضرورت پڑی۔ وقفے کے بعد عرفان صدیقی کو دو ہفتے کے ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم صادر ہؤا۔ یہ جرم قابل ضمانت ہے لیکن مجسٹریت کا خیال ہے کہ اس پر سماعت دو روز بعد پیر کے روز کرنا مناسب ہو گا۔

سوچنے کی بات ہے کہ ملک کے خود مختار عدالتی نظام میں اہم اور حساس مقدمات کا فیصلہ کرنے والے زیریں عدالتوں کے ججوں کو مقدمہ کی سماعت کرنے کے بعد فیصلہ سنانے اور حکم صادر کرنے سے عین پہلے وقفہ لینے اور فیصلہ کا اعلان ’مؤخر‘ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔ احتساب عدالتوں میں تمام اہم مقدمات میں یہ طرز عمل دیکھنے میں آیا ہے۔ اب اسلام آباد کی مجسٹریٹ نے عرفان صدیقی پر عائد ہونے والے قابل ضمانت جرم کے معاملہ کی سماعت کے بعد فیصلہ سنانے میں اسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا اور فیصلہ دینے سے پہلے وقفہ کرنا ضروری سمجھا۔

ملک میں انصاف کی نگرانی کرنے والی اعلیٰ عدلیہ کو دیکھنا چاہئے کہ کیا عدالتوں میں تعینات ہونے والے جج و مجسٹریٹ ’نااہل‘ ہیں یا انہیں کسی دباؤ کا سامنا ہے۔ نواز شریف کو سات برس کے لئے جیل بھیجنے والے جج کے ویڈیو اسکینڈل کی یاد ابھی تازہ ہے اور سپریم کورٹ کے لئے یہ معاملہ لوہے کی چنے چبانے کے مترادف بنا ہؤا ہے۔ تاہم یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ارشد ملک جیسے جج خال خال ہی ہوتے ہیں یا ہر جج کسی نہ کسی کمزوری میں گرفتار وہی کرنے پر مجبور ہے جس کی ہدایت ’کہیں اوپر‘ سے موصول ہوتی ہیں۔ کیوں کہ نیا پاکستان بننے کے عمل میں بھی بالا ہی بالا فیصلے کرنے اور کروانے کی ذہنیت تبدیل نہیں ہوسکی ہے۔

وزیر اعظم سابقہ حکومتوں میں سرکاری وسائل لوٹنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ عرفان صدیقی کو بھی ایسے بد عنوان حکمرانوں کی ’حمایت‘ کرنے پر قصور وار سمجھا جاسکتا ہے۔ پھر حکومت کو اس فیصلہ کی ذمہ داری قبول کرنے کا حوصلہ کرنے کے علاوہ اپنے مشیروں کو ’انتقام ‘ لیتے ہوئے بہتر الزام لگانے اور دلیل استعمال کرنے کی ہدایت بھی دینی چاہئے۔ ورنہ وزیر اعظم عمران خان پر نامزد کے علاوہ نالائق کی پھبتی بھی کسی جاتی رہے گی۔ اسپیکر قومی اسمبلی اردو و انگریزی کے کون کون سے الفاظ کو ’غیر پارلیمانی‘ قرار دیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali