پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو اسامہ کی ایبٹ آباد میں موجودگی کا علم نہیں تھا: انصار عباسی


معروف صحافی انصار عباسی نے انگریزی اخبار دی نیوز میں ایک سینئر ریٹائرڈ عہدیدار کے حوالے سے لکھا ہے کہ کہ آئی ایس آئی کو اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کا علم نہیں تھا، اور جو کچھ بھی وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں واشنگٹن میں ٹی وی انٹرویو کے دوران کہا وہ بظاہر پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی کی فراہم کردہ وہ معلومات تھی جس سے سی آئی اے کو اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی تک پہنچنے میں مدد ملی تھی۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ریٹائرڈ عہدیدار نے کہا کہ پاکستان کا موقف اب بھی تبدیل نہیں ہوا کہ آئی ایس آئی کے پاس یہ معلومات نہیں تھی کہ اسامہ پاکستان میں تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ 2011ء میں القاعدہ چیف اسامہ بن لادن کا پتہ تلاش کر کے اور اسے مارنے کیلئے سی آئی اے کو ’’آئی ایس آئی نے سرا دیا تھا۔‘‘ عمران خان کے بیان کی وجہ سے تنازع پیدا ہوگیا تھا اور کئی سیاست دانوں نے یہاں عمران خان کے اس دعوے پر تنقید کی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا بیان کہ ‘’آئی ایس آئی نے سرا دیا تھا‘‘ممکنہ طور پر پہلے سے معلوم اس بات کا حوالہ ہے کہ پاکستان نے ایک موبائل فون کی تفصیلات شیئر کی تھیں، یہ فون اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی ابو احمد علی کویتی کے زیر استعمال تھا۔ حتیٰ کہ ایبٹ آباد کمیشن کی لیک ہونے والی رپورٹ کے کچھ حصوں میں انکشاف کیا گیا تھا کہ خالد بن اتاش (جو 9/11 سے پہلے ہونے والے دہشت گرد حملوں جیسا کہ یو ایس ایس کول اور افریقہ میں سفارت خانوں پر حملوں میں ملوث تھا) کی 2002ء میں کراچی سے گرفتاری کا حوالہ دیا گیا تھا، یہ بہت بڑا بریک تھرو تھا کیونکہ اسی نے ابو احمد علی کویتی کو شناخت کیا تھا۔

ابو احمد علی کویت میں پیدا ہونے والا پاکستانی باشندہ تھا جو اسامہ بن لادن کا دست راست تھا اور پیغام لانے لیجانے کا کام کرتا تھا اور یہی وہ آدمی تھا جس نے امریکیوں کو بن لادن تک پہنچایا۔ روزنامہ ڈان کے مطابق، رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ اس شخص (کویتی) کی تلاش کے دوران، سی آئی اے نے پاکستان کو 2009ء سے نومبر 2010ء کے درمیان چار فون نمبر دیے لیکن یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ کسے تلاش کر رہے تھے۔ خبر میں مزید بتایا گی تھا کہ یہ نمبر اکثر اوقات بند رہتے تھے لیکن جس وقت آئی ایس آئی نے سی آئی اے کے ساتھ مل کر کام کیا تو اس وقت وہ آئی ایس آئی کو بھی علم نہیں تھا کہ یہ فون نمبرز کس کے تھے۔

کمیشن رپورٹ اتاش کے انکشافات کی تصدیق کرتی ہے کہ کویتی اسامہ بن لادن کا دست راست تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سابق سی آئی اے ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریاس نے چند روز قبل کہا تھا کہ ان کو ’’یقین‘‘ ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو معلوم نہیں تھا کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں تھا۔ پیٹریاس نے کہا تھا کہ ’’ہمیں یقین ہے کہ آئی ایس آئی میں کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اسامہ پاکستان میں ہے۔ وہ اسے پناہ دیے ہوئے تھے اور نہ ہی اسے چھپا کر رکھا ہوا تھا یا ایسی کوئی بات تھی۔ ہماری اس پر بہت گہری نظر تھی۔ ہم شاید ان لوگوں سے اختلاف کرتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستانیوں نے اسے ایبٹ آباد کے مخصوص کمپائونڈ میں رہنے کی اجازت دی تھی۔‘‘

امریکا کی ایبٹ آباد میں کارروائی کے چند سال بعد لیکن اہم سیکورٹی عہدیدار کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ ’’امریکی انٹیلی جنس نے 2؍ مئی 2011ء کے ایبٹ آباد واقعے کے بعد اُس و قت کے آرمی چیف جنرل کیانی اور آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا کے درمیان ٹیلی فونک بات چیت ریکارڈ کی تھی جس سے امریکا کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی اس بات پر یقین آ گیا تھا کہ اسے اسامہ بن لادن کی وہاں موجودگی کا علم نہیں تھا۔‘‘ اس اہم عہدیدار نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر ایبٹ آباد واقعے کے بعد امریکیوں نے خود پاکستانی آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کے درمیان ہونے والی بات چیت نہ سنی ہوتی تو امریکا پاکستان پر اور اس کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی بات پر بالکل یقین نہ کرتا۔ اطلاعات کے مطابق جنرل کیانی اور جنرل پاشا نے اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی پر شدید حیرت کا اظہار کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).