برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی سابقہ اہلیہ کے پاکستانی آباؤ اجداد


مرینہ ویلر

برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن کی سابقہ اہلیہ مرینہ ویلر کے آباؤ اجداد کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا سے تھا (فائل فوٹو)

برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن کی سابقہ اہلیہ مرینہ ویلر کے آباؤ اجداد کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا سے تھا جو برصغیر کی تقسیم کے بعد اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر برطانیہ جا بسے تھے۔

مرینہ ویلر کی پیدائش برطانیہ ہی میں ہوئی مگر ان کی والدہ دیپ کور کی جائے پیدائش سرگودھا ہی ہے۔

مرینہ ویلر نے گذشتہ سال مارچ اور رواں برس فروی میں اپنی والدہ دیپ کور کی خواہش پر اپنے آباؤ اجداد کے حوالے سے یاداشتیں اور تاریخ مرتب کر کے کتاب لکھنے کے لیے سرگودھا کا دورہ بھی کیا تھا۔

اس سال فروری میں کیے جانے والے دورے میں مرینہ ویلر کے ہمراہ پاکستانی مصنف، تاریخ دان اور نیوز اینکر فرخ سہیل گوئندی بھی موجود تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے فرخ سہیل نے بتایا کہ گذشتہ سال مارچ میں ہمارے دوست نجم لطیف نے مجھے مطلع کیا ایک مہمان مرینہ ویلر اپنے آباؤ اجداد کی نشانیاں تلاش کرنے پاکستان آ رہی ہیں۔

سہیل گوئندی کے مطابق وہ اس وقت بیروت میں تھے جس وجہ سے وہ ان کی مدد نہیں کر سکے۔

رواں سال فروری میں نجم لطیف نے دوبارہ ان سے رابطہ کیا اور مجھے بتایا کہ وہ دوبارہ آرہی ہیں اور وہ ان کو سرگودھا لے کر جائیں گے۔ جس پر میں نے نہ صرف حامی بھر لی۔

مرینہ ویلر

مرینہ ویلر گذشتہ دو برسوں میں دو دفعہ پاکستان آ چکی ہیں

سہیل گوئندی نے بتایا کہ انھوں نے سرگودھا میں اپنے بچپن کے دوست غلام محمد ٹوانہ سے بھی مدد کی گزارش کی کیونکہ وہ سرگودھا کے بیشتر خاندانوں کو جدی پشتی جانتے ہیں۔

دیپ کور کی جائے پیدائش اور گھر

فرخ سہیل گوئندی کے مطابق سرگودھا ان کی والدہ کے آباؤ اجداد نے آباد کیا تھا۔

جب مرینہ ویلر نے اپنی والدہ سے سننے والی باتیں مجھے اور غلام محمد ٹوانہ کو بتائیں تو ہم نے کہانیوں کو آپس میں جوڑنا شروع کیا اور پھر ہم ان کو لے کر کچہری روڈ سول لائن کے علاقے میں پہنچ گئے۔

’وہ جگہ اب مکمل طور پر تبدیل ہوچکی تھی۔ مگر میرا بچپن اسی مقام پر ایک سکول میں پڑھتے گزرا تھا۔ جس طرح کی نشانیاں دیپ کور نے اپنی بیٹی کو بتائیں تھیں اس طرح کی عمارت میں نے اور غلام محمد ٹوانہ نے اپنے بچپن میں کئی مرتبہ دیکھی تھی اور ہماری یاداشتوں میں محفوظ تھی۔‘

فرخ سہیل گوئندی نے بتایا کہ امکان یہی ہے کہ ہم مرینہ ویلر کو اس مقام پر لے گئے جہاں پر کبھی اینٹوں کی بنی ہوئی بڑی حویلی موجود ہوا کرتی تھی۔ مگر اب وہاں پر کئی عمارتیں ہیں جن میں رہائش گاہیں اوردفاتر بھی موجود ہیں اور ان کے مالک بھی مختلف ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مرینہ ویلر اپنی والدہ کے گھر کے مقام کو دیکھ کر اپنی والدہ کی سنائی ہوئی کہانیوں میں کھو چکی تھیں۔ ایسے لگتا تھا جیسے ان کے ذہن میں کوئی کہانی چلنا شروع ہو گئی ہے۔

اس کے بعد ہم مرینہ کو لے کر ہنڈے والی کی جانب چل پڑے۔

ہنڈے والی مرینہ کے نانا ڈاکٹر ہربن سنگھ کا گاؤں تھا جہاں پر ان کی زمینیں تھیں۔

اب اس علاقے کا نام شاہین آباد ہے۔ ہنڈے والی، سکھاں والی اور سلانوالی یہ تینوں سکھوں کے گاؤں تھے۔ یہ کوئی35 کلو میٹر کا سفر تھا۔ غلام محمد ٹوانہ نے ہنڈے والی میں ایک شخص سے رابطہ کر رکھا تھا اور کچھ لوگ ان کے منتظر تھے۔

فرخ سہیل گوئندی کے مطابق وہاں پر انھوں نے لوگوں سے بات چیت کی اور مرینہ نے اپنے نانا ڈاکٹر ہربن سنکھ کی کہانیاں تلاش کرنا شروع کر دیں۔ مگر صورتحال یہ تھی کہ اس گاؤں میں بسنے والے تمام لوگ انڈیا سے ہجرت کر کے آئے تھے اور وہ ان شخصیات کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔

مگر انھیں یہ ضرور پتا تھا کہ یہ گاؤں اور زمنیں تقسیم سے قبل سکھوں کی ملکیت تھیں۔

مرینہ ویلر نے اپنے دورے کے موقع پر سرگودھا یونیورسٹی میں ہسٹری ڈیپارٹمنٹ میں ایک نشست بھی رکھی تھی جہاں پر انھوں نے اپنی کتاب کے حوالے سے بات کی۔

فرخ سہیل کہتے ہیں کہ مرینہ نے ایک بہت اہم بات بتائی کہ ان کی والدہ اکثر مس سالک کا ذکر کرتی ہیں۔

’میں چونک گیا کیونکہ مس سالک سرگودھا میں بننے والے پہلے پرائیوٹ کنڈر گارڈن سکول کی مالکہ اور پرنسپل تھیں۔ وہ کسی زمانے میں دیپ کور کی استانی رہی تھیں اور وہ میری بھی پہلی ٹیچر تھیں۔‘

سرگودھا میں سکھوں کی نشانیاں

فرخ سہیل گوئندی کے مطابق تقسیم سے پہلے سرگودھا کی آبادی 36 ہزار تھی جس میں صرف چھ ہزار مسلمان تھے۔

سرگودھا بلدیہ کے پہلے سربراہ دسوندھی گوئندی تھے جبکہ مرینہ ویلر کے نانا بھی تقسیم سے قبل سرگودھا بلدیہ کے سربراہ رہے تھے۔

ان کے نانا نے قیام پاکستان سے پہلے سرگودھا میں زچہ و بچہ کا ہسپتال قائم کیا تھا جس کی زمین انھوں نے عطیہ کی تھی جو کہ اب ہلال احمد ہسپتال کہلاتا ہے۔ مرینہ اپنے اس دورے کے دوران وہاں بھی گئیں۔

فرخ سہیل گوئندی کے مطابق مرینہ اس مقام پر بھی گئیں جہاں پر کبھی گوردوارہ تھا اور ان کی والدہ کبھی وہاں پر عبادت کرنے گئی ہوں گی۔ تقسیم برصغیر کے بعد اس گوردوارے کو امام بارگاہ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

محلہ 23 بلاک میں تقسیم پاکستان سے پہلے کا گھر

فرخ سہیل نے بتایا کہ مرینہ سرگودھا کے ایک دو محلوں میں صرف اس لیے بھی گئیں کہ وہاں پر سرگودھا کی تقسیم برصغیر سے پہلے کی جھلک موجود تھی۔

محلہ 23 بلاک تقسیم پاکستان سے پہلے کا ایک گھر ابھی بھی اچھی حالت موجود ہے۔ مرینہ ویلر اس گھر کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور وہاں پر تصاویر بھی بنوائیں۔

اب اس گھر کے مالک سرگودھا کے قانون دان محمد علی ہمدانی ہیں۔ محمد علی ہمدانی ایڈووکیٹ کے مطابق یہ گھر تقیسم کے بعد کسی فضل دین نامی شخص کو الاٹ ہوا تھا جس کو بعد میں ان کے والد نے خرید لیا تھا۔

اس گھر کا نقشہ کبھی بھی تبدیل نہیں کیا گیا۔ اس میں اب بھی ایسی نشانیاں موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ اس گھر میں کبھی سکھ رہا کرتے تھے کیونکہ وہاں ان کے نام بھی کندہ ہیں اوران کے مذہبی عقائد کی کچھ چیزیں بھی موجود ہیں۔

محمد علی ہمدانی نے بتایا کہ 30، 40 سال قبل ہر تھوڑے عرصے کے بعد برطانیہ سے ایک خاتون اپنے بچوں کے ساتھ یہاں آیا کرتی تھیں اور ہماری والدہ سے مل کر اور گھر کو دیکھ کر بہت خوش ہوتی تھیں۔

محمد علی ہمدانی ایڈووکیٹ کے مطابق انھیں اپنی والدہ سے پتا چلا تھا کہ ان خاتون کا نام دیپ کور ہے۔

اب میں یہ تصدیق نہیں کر سکتا کہ یہ دیپ کور مرینہ ویلر کی والدہ ہی ہیں کہ نہیں اور یہ گھر ان کے نانا کا ہے یا نہیں۔

تاہم فرخ سہیل گوئندی کے مطابق مذکورہ گھر جہاں پر تصاویر بنائی تھیں اس گھر پر کسی سردار جے سنگھ اور سردار تنیح سنگھ کے نام کندہ ہیں جس سے ممکنہ طور پر مرینہ ویلز کا کوئی تعلق نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp