عرفان صدیقی کی گرفتاری ”ورنہ تھانے چلو“


بہت دنوں سے یہ خواہش دل میں مچل رہی تھی کہ روسی ڈرامہ نگار چیخوف کے وہ شاہکار ڈرامے طالب علم کی لگن اور جستجو کے ساتھ دل لگاکر ایک بار پھر پڑھے جائیں جو اس نے اپنی عمر کے آخری حصے میں لکھے تھے۔  جمعہ کے روز اس خواہش کی تکمیل کا گویا وقت آگیا۔

دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ ہو گیا تو کتاب اٹھانے سے قبل اپنے فون پر بنائے واٹس ایپ، فیس بک اور ٹویٹر اکاؤنٹس کو Deactivateکر دیا۔ گھنٹی کی آواز بند کر دی۔ چیخوف کو دوبارہ پڑھتے ہوئے اس بے پناہ تخلیقی مصنف کے ہنر کی نئی جہتیں سامنے آنا شروع ہو گئیں۔  نئی جہتوں کی دریافت سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اس دُکھ میں مبتلا ہو گیا کہ زندگی فروعات میں ضائع کر دی۔ ایک سطر بھی ایسی نہ لکھ پایا جو میرے مرنے کے بعد کسی کو یاد رہے۔

ساتھ ہی جی کو تسلی دینے کے لئے یہ خیال بھی آیا کہ گیا وقت واپس نہیں آتا۔ جو ہونا تھا ہو گیا۔ ویسے بھی ضروری نہیں کہ دُنیا کا ہر شخص لکھاری ہو۔ لکھنے والوں سے پڑھنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی ہے۔  خود کو محض ایک عام قاری تصور کرتے ہوئے حقائق کے سامنے سر جھکایا جائے۔  شاید خود کو روزمرہّ زندگی میں واپس لانے کے لئے ہفتے کی سہ پہر سمارٹ فون بھی اٹھا لیا۔ ٹویٹر پر عرفان صدیقی صاحب کی ایک تصویر وائرل ہو چکی تھی۔

وہ ہتھکڑی لگے ہاتھ میں قلم اٹھائے مسکرا رہے تھے۔  پریشانی میں تفصیلات کو جاننا چاہا تو علم ہوا کہ جمعہ کی رات تقریباً گیارہ بجے اپنے گھر سے اٹھا لئے گئے تھے۔  ان کا مبینہ طورپر ایک گھر تھا۔ اس گھر کو انہوں نے کرایہ پر اٹھایا تو کرایہ دار کی تفصیلات سے مقامی انتظامیہ کو آگاہ نہیں کیا۔ دفعہ 144 کے تحت متعلقہ تھانے کو یہ تفصیلات فراہم کرنا ضروری تھا۔ گرفتار ہونے کے بعد ہفتے کے روز مجسٹریٹ کی عدالت میں لائے گئے۔  انہیں چودہ روز ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔ تاہم گزشتہ روز اتوار کو ان کو رہائی مل گئی۔

پرانی وضع کا آدمی ہوں۔  عرفان صاحب کو ہتھکڑی میں دیکھ کر افسوس ہوا۔ ٹویٹر پر ان کے خیر خواہوں کا مگراصرارتھا کہ ان کی طرف سے مبینہ طورپر سرزد ہوئی خطا نظر بظاہر اتنا سنگین جرم نہ تھی کہ انہیں اس کی پاداش میں رات تھانے میں گزارنے کے بعد ہتھکڑی سمیت مجسٹریٹ کے روبرو پیش ہونا پڑے۔  78 سالہ شخص جس نے ساری عمر تعلیم وتدریس میں گزاردی۔  کالم لکھے۔  ایسے سلوک کا مستحق نہیں تھا۔ موصوف کو گرفتار کرنے کے بعد مگر ”عبرت کا نشان“ بنایا جارہا تھا۔ ان کو لگی ہتھکڑی ”پیغام“ ہے۔  ”لاڑکانہ چلو ورنہ تھانے چلو“ مارکہ۔ عمران حکومت کی تنقید کے دیگر عادیوں کو اب اپنی باری کا انتظار کرنا چاہیے۔  عرفان صاحب کی گرفتاری نے منیرؔ نیازی کے ایک مصرعہ کے مطابق ”لوگوں کو ان کے گھر میں“ ڈرا دیا ہے۔  کئی لوگ اب اس خوف میں مبتلا ہوں گے کہ ”کس کے گھر جائے گا سیلاب بلامیرے بعد“۔

  ٹویٹر پر پارسائی کے زعم میں چھائے تحریک انصاف کے حامیوں کا مگر اصرار تھا کہ اس ملک میں بالآخر وقت آگیا ہے کہ قانون سب کے لئے برابر ہو۔ بات اصولی طورپر درست ہے مگر قانون کی بالادستی کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں یہ بھی یاد دلایا گیا کہ عرفان صاحب ملاعمر کے قصیدے لکھتے رہے ہیں۔  نواز شریف کے مشیر رہے۔  ان کے لئے تقاریر تیار کرتے رہے۔  ان دنوں محترمہ مریم نواز کے لئے بھی وہی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ عرفان صاحب کی گرفتاری کا مذکورہ دلائل کے ساتھ دفاع کرتے ہوئے ان لوگوں کو یاد ہی نہ رہا کہ اپنے ٹویٹس کے ذریعے وہ خوفزدہ ہوئے افراد کی اس سوچ کو تقویت فراہم کررہے ہیں کہ موصوف کی ”اصل خطا“ وہ نہیں تھی جس کے تحت ”معمول“ کے مطابق وہ گرفتار ہوئے۔

ان کو ہتھکڑی کسی اور گناہ کی باداش میں لگائی گئی ہے۔  صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے بھی قانون کا سب شہریوں پر مساوی اطلاق کا ورد کیا۔ ساتھ ہی مگریہ اعتراف کیا کہ شاید عرفان صاحب کو ہتھکڑی لگاکر عدالت میں پیش نہیں کرنا چاہیے تھا۔ عرفان صاحب کی ہتھکڑی والی تصویر نے جو فضا بنائی اسے ذہن میں رکھتے ہوئے وزیر داخلہ اعجاز شاہ صاحب نے بالآخر اس شبے کا اظہار کیا کہ انہیں ”مسلم لیگ والوں“ نے گرفتار کروایا ہے۔

  گھر کے بھیدی کی مخبری وغیرہ یا وہ جلن جو سیاسی جماعتوں میں قیادت کے بہت قریب تصور ہوئے افراد کے بارے میں جمع ہوتی رہتی ہے۔  ”واقعہ“ مگر ہو چکا ہے۔  غالبؔ نے ”واقعہ“ کو ”سخت“ کہتے ہوئے اپنی جان کے عزیز ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ جان مجھے بھی عزیز ہے۔  اندھی نفرت و عقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں اپنی بات کہنے کا ڈھنگ عمر کے اس حصے میں دریافت کرنے سے قاصر ہوں۔

1857 کے پُر آشوپ زمانے کو غالبؔ نے دہلی کی گلی قاسم جان کے ایک گھر میں محصور ہوئے بھگتا تھا۔ وہ محلہ مہاراجہ پٹیالہ کی ملکیت تھا۔ مہاراجہ انگریزوں کا وفادار تھا۔ اس محلے کی حفاظت پر اس کے سپاہی مامور تھے۔  ”تلنگوں“ کی غارت گری سے لہٰذا وہ محفوظ رہا۔ انگریزی کی عمل داری بہت شدت کے ساتھ لوٹی تو یہ محلہ اور اس کے مکین اس توڑ پھوڑ سے محفوظ رہے جو سڑکوں کو چوڑا کرنے کے نام پر ”باغیوں“ کی حویلیاں اور گھر گراتے ہوئے دہلی پر نازل ہوئی تھی۔

 غالبؔ کا اصرار تھا کہ بڑھاپے نے اس سے ”غیب“ سے آنے والے مضامین اور انہیں اشعار میں بیان کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔  سارا دن بستر پر لیٹا دوستوں کو خطوط لکھتا رہتا۔ ہائے دلی، وائے دلی کے نوحے کے ساتھ ”بھاڑمیں گئی دلی“ بھی پکار اُٹھتا۔ چیخوف کو گلی قاسم جان کے کسی گھر میں محصور ہونا نہیں پڑا تھا۔ ٹی بی ان دنوں ناقابل علاج تصور ہوتی تھی۔ اسے لاحق ہوئی تو زندگی کو طوالت دینے کی خواہش میں کریمیا جزیرے میں چلا گیا۔

 وہاں بیٹھ کر اس نے جو ڈرامے لکھے وہ درحقیقت اعترافی بیانات ہیں۔  اس نے دریافت کر لیا تھا کہ زمانہ بدل گیا ہے۔  ”نئے زمانے“ میں ”نودولتیوں“ نے زندگی بسر کرنے کے جو ڈھب متعارف کروائے ہیں وہ ان سے نبھاہ کرنے کے قابل نہیں۔  جن ”اقدار“ کو اس نے بہت محترم اور تقریباً غیر فانی سمجھا تھا معدوم ہو گئیں۔  مٹتی ہوئی قدروں کا دُکھ سہتے ہوئے چیخوف نے مگر ملال کا روگ نہیں پالا۔ حیران کن شگفتگی کے ساتھ ”نئے“ کو سمجھ کر بیان کرنا شروع ہو گیا۔

 ”قانون سب کے لئے یکساں“ اور اس کا پاکستان کے ساتھ شہریوں پر بھرپور اطلاق ”نیا پاکستان“ کی حقیقت ہے۔  اس حقیقت کے دفاع کے لئے جو دلائل ٹویٹر کے ذریعے ہمارے سامنے آتے ہیں ان کا مدلل جواب ممکن نہیں۔  خوف لاحق رہتا ہے کہ جمہوریت، آزادی رائے اور شہریوں کے احترام کی تلقین کرتے ہوئے آپ ”چوروں اور لٹیروں کا دفاع“ کرنے کے مجرم نہ گردانے جائیں۔  مصیبت یہ ہے کہ میں گلی قاسم جان میں محصور ہوا دوستوں کو خط لکھتے ہوئے موت کا انتظار نہیں کر سکتا۔

غالبؔ کو گزارے کے لئے تھوڑی پنشن اور رام پور کے نواب سے وظیفہ مل جاتا تھا۔ مجھے یہ کالم لکھ کر رزق کمانا ہے اور قارئین مجھ جیسے ڈنگ ٹپاؤ کالم نگاروں سے سیاسی واقعات پر تبصرہ آرائی کے خواہاں ہیں۔  جوانی میں ڈرامے لکھے تھے۔  انہیں لکھنے کا ہنر صحافت کی نذر ہو گیا۔ یہ کالم دفتر بھیجنے کے بعد بہت غور سے چیک کرنا ہو گا کہ اپنے معمولاتِ زندگی میں مجھ سے کہیں نادانستگی میں کسی قانون کی خلاف ورزی تو نہیں ہو گئی۔

پس نوشت: یہ کالم لکھ چکا تو سوشل میڈیا کے ذریعے خبر ملی کہ عرفان صدیقی صاحب کو رہا کر دیا گیا۔ مناسب فیصلہ جس کی تحسین ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).