اسلام آباد میں کھوکھوں کی مسماری: ’میٹرو بس ماسٹر پلان کا حصہ لیکن کھوکھے نہیں‘


ارشد کا کھوکھا

                              اسلام آباد کے سیکٹر آئی 10 میں ارشد ملک کے ڈھابے کا ملبہ،ارشد کے پاس موجود لائسنس کے مطابق یہ کھوکا ایک قرعہ اندازی کے ذریعے سنہ 1992 میں ان کے نام ہوا تھا

‘ہائی کورٹ نے تین جولائی کے فیصلے میں انھیں 30 دن کا نوٹس دینے کو کہا تھا لیکن یہ تین جولائی کی رات 2 بجے ہی آ گئے اور کہنے لگے کہ کل ہم یہ توڑ دیں گے۔ ہم کیا کر سکتے ہیں حکومت ہے، جو بھی ہے، بدمعاشی تو نہیں کر سکتے ان کے ساتھ۔’

یہ سیکٹر آئی 10/2 اور آئی 10/3 کے درمیان گرین بیلٹ پر موجود کھوکھا نمبر 211 کی کہانی ہے۔ اس کھوکھے کے مالک محمد ارشد پچھلے 25 سال سے یہاں کھانے پینے کی اشیا بیچ رہے ہیں۔

ارشد کے پاس موجود لائسنس کے مطابق یہ کھوکھا ایک قرعہ اندازی کے ذریعے سنہ 1992 میں ان کے نام ہوا تھا۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ چھ بھائی ہیں جن میں سے چار شادی شدہ جبکہ دو زیرِ تعلیم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ہمارا یہ ایک ہی کاروبار تھا جس پر چار گھر چلتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا کوئی آسرا نہیں ہے۔’

آئی نائن
 سیکٹر آئی نائن میں توڑے گئے کھوکھے کا منظر۔ اسلام آباد کھوکھا ایسوسی ایشن کے صدر کا دعویٰ ہے کہ485 میں سے تقریباً 350 کھوکھے گرا دیے گئے ہیں۔

ارشد کے مطابق عید الفطر پر جب وہ اپنے گاؤں نوشہرہ میں تھے تو انھیں خبر ملی کہ سپریم کورٹ کے حکم پر اسلام آباد کی گرین بیلٹ پر موجود غیر قانونی تجاوزات کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے۔

اُس وقت تو عدالت سے کھوکھا ایسوسی ایشن کو حکمِ امتناعی مل گیا لیکن تین جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک درخواست کی سماعت کے بعد لائسنس شدہ کھوکھوں کو بھی توڑنے کا حکم دے دیا۔

جج محسن اختر کیانی نے فیصلے میں لکھا تھا کہ کھوکھا مالکان کو اپنا سامان اٹھانے کے لیے کم از کم 30 دنوں کا وقت دیا جائے۔

لیکن جب بی بی سی نے سیکٹر آئی-9، آئی-10 اور جی-11 میں مسمار کیے جانے والے کھوکھوں کے مالکان سے بات کی تو ان سب کا یہ دعویٰ تھا کہ عدالتی فیصلے کے چند دنوں کے اندر ہی ان کے کھوکھوں کو گرا دیا گیا۔

ارشد کے کھوکھے کے سامنے صنعتی علاقہ ہے اور ان کے گاہکوں میں ایک بڑی تعداد مزدوروں اور ٹیکسی ڈرائیوروں کی ہے۔ ان کھوکھوں کی خاص بات یہاں کا سستا کھانا اور مفت پانی ہوتا ہے۔

آئی 9 کھوکھا
آئی نائن کے اس کھوکھے کے مالک کا کہنا ہے کہ اس کے کھوکھے کو ہائی کورٹ کے فیصلے کے چند دنوں بعد گرا دیا گیا

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے پاس قریبی فلور ملز سے اور دیگر فیکٹریوں سے مزدور آتے تھے۔ ان کو یہاں 60 روپے میں اچھا کھانا کھلاتے تھے اب یہی لوگ مرکز جا کر کم از کم 200 روپے میں کھانا کھاتے ہیں۔‘

‘ہمارا تو روزگار تھا لیکن دوسروں کے لیے آسانی بھی تھی۔ پتا نہیں ان لوگوں نے یہ (کھوکھے) کیوں گرا دیے۔’

سنہ 1986 میں سی ڈی اے کے پلاننگ ونگ کی جانب سے جاری کی گئی پالیسی ان کھوکھوں کی قانونی حیثیت کے بارے میں وضاحت کرتی ہے۔

اس پالیسی کا مقصد ان کھوکھوں اور ٹی سٹالز کے محل و وقوع کے حوالے سے ایک جامع پلان مرتب کرنا تھا۔ بی بی سی کے پاس موجود اس پالیسی کی نقل کے مطابق یہ کھوکھے تین مقامات پر بنائے جا سکتے تھے۔

  1. ایسے سیکٹر جہاں تعمیری کام جاری ہے
  2. سیکٹر کے کونوں پر موجود سڑکوں اور شاہراہوں کے گرد
  3. پارک اور دیگر تفریحی مقامات پر

پالیسی کے مطابق ایسے سیکٹرز جہاں تعمیری کام جاری ہے وہاں مارکیٹوں کے قیام کے بعد ان کھوکھوں کو ہٹا دیا جانا تھا۔ البتہ سیکٹرز کے کونوں میں سڑکوں، شاہراہوں اور پارکس میں ان کھوکھوں کو باقاعدہ لائسنس دیے جانے تھے۔

سی ڈی اے نے اب تک 485 کھوکھوں کو لائسنس جاری کیے ہیں۔ البتہ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس بات پر زور دیا ہے کہ سی ڈی اے کی سنہ 1986 کی پالیسی اس کے اپنے ہی قانون اور ماسٹر پلان کے خلاف تھی۔

آئی 10 کھوکھا

                                               آئی 10 سیکٹر میں اس کھوکھے کے مالک نے ٹوٹے ہوئے ڈھابے پر عارضی خیمے لگا دیے ہیں۔ اس کھوکھے سے فیکٹری مزدور مستفید ہوتے تھے

فیصلے میں لکھا ہے کہ چونکہ ان کھوکھوں کی قانونی حیثیت میں سقم ہے اس لیے ان کے لائسنس کسی بھی وقت منسوخ کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن وکیل عمر گیلانی کہتے ہیں کہ اس حوالے سے قانون میں ایک اصول ہے جسے ‘جائز توقعات’ کہتے ہیں یعنی ‘اگر کسی شہری کے ساتھ ریاست کوئی معاملہ طے کرتی ہے اور وہ معاملہ کئی دہائیوں تک چلتا رہا ہو اور اس حوالے سے کئی دستاویزات بھی موجود ہوں تو جائز توقعات تو قائم ہو چکی ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ ‘اگر اس پالیسی میں کوئی سقم رہ بھی گیا ہے تو پھر بھی ان مالکان کو اپنا کاروبار کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔’

‘یہ غیر قانونی تجاوزات کیسے ہو سکتے ہیں؟

کھوکھا اسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری سرفراز عباسی کا کہنا ہے کہ یہ تنازع رواں سال دیے جانے والے سپریم کورٹ کے ایک حکم کی وجہ سے شروع ہوا جس میں سی ڈی اے کو اسلام آباد کی گرین بیلٹس پر موجود غیر قانونی تجاوزات ہٹانے کا کہا گیا تھا۔

سرفراز عباسی کہتے ہیں کہ ‘اس حکم میں کہیں ہمارے کھوکھوں کا ذکر نہیں ہے۔ یہ غیر قانونی تجاوزات کیسے ہو سکتے ہیں جب ہم ہر ماہ لائسنس کی فیس بھرتے ہیں؟’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کھوکھوں کی مسماری سے صرف مالکان ہی نہیں بلکہ یہاں کام کرنے والے لوگ بھی متاثر ہوئے ہیں۔

وکیل عمر گیلانی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اس وقت جو ملک میں غیر قانونی تجاوزات کا مسئلہ ہے وہ الگ ہے۔ ‘ان لائسنس شدہ کھوکھوں کی مسماری ایک الگ مسئلہ ہے، ان دونوں کو آپس میں جوڑنا نہیں چاہیے۔’

آئی 9 کھوکھا

                                   آئی 9 سیکٹر کا ایک کھوکھا جسے اس کے مالک نے دوبارہ بحال کیا۔ یہاں پر قریبی علاقے کے مزدور اور طالب علم آ کر سستا کھانا کھاتے ہیں

ڈائریکٹوریٹ آف میونسپل ایڈمنسٹریشن (ڈی ایم اے) کے ڈائریکٹر شفیع مروت کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک اسلام آباد میں ان کھوکھوں کی ضرورت موجود ہے اگر ان کے لیے سروے کیے جائیں اور انھیں مخصوص نقشے کے مطابق بنایا جائے۔

انھوں نے کہا ’ہر سیکٹر میں ان کھوکھوں کے لیے علاقے مختص کیے جانے چاہیں تاکہ غُربا اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔‘

البتہ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ’یہ کھوکھے امرا کو الاٹ کیے گئے تھے جس کے باعث غریب دونوں صورتوں میں پس رہے ہیں۔‘

سی ڈی اے کے شعبہ ماحولیات کے ڈائریکٹر محمد ارشاد کے مطابق وہ تو صرف عدالتی حکم کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ سی ڈی اے نے ان کھو کھوں کو ایک مہینے کا نوٹس ختم ہونے سے پہلے کیوں گرایا تو ان کا کہنا تھا کہ ہر بندہ اپنی اپنی باتیں کرے گا اور اس حوالے سے وہ مزید تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔

‘کھوکھے کے باعث ہم محفوظ محسوس کرتے ہیں’

اسلام آباد کے سیکٹر آئی-8 کے مرکزی پارک میں موجود کھوکھے کی دلچسپ بات اس کے گاہک ہیں۔ یہ دوسرے کھوکھوں سے مختلف اس لیے ہیں کیونکہ یہاں خواتین اور اپنے پیشوں سے ریٹائرڈ افراد کثیر تعداد میں آتے ہیں۔

سنہ 2015 میں تین دوستوں نے مشترکہ طور پر اس کے انتظام کی ذمہ داری اٹھائی اور ‘ٹرک ہوٹل نما ڈھابے’ کو یکسر تبدیل کر دیا۔ اس کھوکھے کے تین مشترکہ مالکان میں سے ایک قاضی وھاج ہیں جنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کھوکھے پر قیمتیں زیادہ رکھنے کا مقصد ایک مختلف طبقے کو ٹارگٹ کرنا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’جب ہمارا کھوکھا بند ہوتا ہے تو اس پارک میں خواتین چہل قدمی کرنے سے گھبراتی ہیں کیونکہ انھیں اس کی وجہ سے اپنے بچوں کے ساتھ پارک میں گھومنا محفوظ محسوس ہوتا ہے۔’

اس پہلو کی تائید اربن ڈیزائنر رانا عاطف رحمان نے بھی کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کھوکھوں کی ایک اہم ضرورت ان کے محل و وقوع کے باعث ہوتی ہے جس کے باعث یہ سہولت کے ساتھ تحفظ فراہم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر یہ کھوکھے منصوبہ بندی کے تحت تعمیر یا الاٹ نہ کیے جائیں تو ان کے گرد ٹریفک کا رش پڑ جاتا ہے جو کسی بھی شہر کے لیے سہی نہیں ہے۔‘

عاطف کے مطابق ہمیں سی ڈی اے کی جانب سے اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ یہ کھوکھے اسلام آباد کے ماسٹر پلان کا حصہ نہیں ہیں۔ البتہ ’اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں پچھلے 50 برسوں میں بیش بہا تبدیلیاں کی گئی ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’سیونتھ ایوینیو اور میٹرو بس جیسے پروجیکٹ کو ضرورت محسوس ہونے پر ماسٹر پلان کا حصہ بنایا گیا تھا تو کھوکھوں کو اس میں کیوں شامل نہیں کیا جا سکتا؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp