کیا انسان ’ذہانت کی معراج‘ کو پہنچ چکا؟


قطر کا ایسپائر ٹاور

آپ نے شاید محسوس نہ کیا ہو، لیکن ہم عقل و شعور کے سنہری دور میں رہ رہے ہیں۔

سو سال پہلے جب سے ذہانت جانچنے کا پیمانہ آئی کیو ایجاد ہوا ہے ہمارا سکور بڑھتا ہی رہا ہے۔ آج ایک اوسط درجے کی ذہانت کے حامل شخص کو سنہ 1919 میں پیدا ہونے والے شخص کے مقابلے میں جینیس یعنی اعلی ذہانت رکھنے والا سمجھا جاتا۔ اس اصول کو فلِن اِیفیکٹ کہتے ہیں۔

ہماری اس ذہنی صلاحیت میں یہ اضافہ خوشی کی بات ہے، مگر کب تک؟ حالیہ شواہد سے پتا چلتا ہے کہ یہ صلاحیت ماند پڑ رہی ہے، بلکہ انحطاط پذیر ہے۔ یعنی ہم عقل و شعور کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ذہانت کی انتہا کو پہنچا بھی جا سکتا ہے؟ اور اگر ایسا ہے، تو پھر مستقبل کے انسان کے لیے عروج کے بعد زوال کا مطلب کیا ہوگا۔

ازمنۂ قدیم میں انسانی ذہانت کی ابتدا کیسی ہوئی؟ یعنی وہ وقت جب تیس لاکھ برس پہلے ہمارے اجداد نے دو ٹانگوں پر کھڑے ہو کر چلنا شروع کیا۔ متحجر یا پتھر بن جانے والی کھوپڑیوں کے سکین سے پتا چلاتا ہے کہ دو ٹانگوں پر چلنے والے بِن مانَس، آسٹرالوپیِتھیکس، کا دماغ 400 مکعب سینٹی میٹر بڑا تھا جو آج کے انسانی دماغ کے تیسرے حصے کے برابر ہے۔

ظاہر ہے کہ بڑے دماغ پر خرچ بھی زیادہ آتا ہے۔ جدید انسان کے دماغ کو کام کرنے کے لیے بیس فی صد زیادہ توانائی درکار ہو تی ہے۔ اس لیے بڑے دماغ کو اضافی توانائی فراہم کرنے کے لیے ہمیں بعض دوسرے فوائد کو چھوڑنا پڑا ہوگا۔

قدیم مصوری
غاروں میں پائے گئے قدیم انسان کے مصوری کے نمونے حیرت انگیز ذہانت کا پتا دیتے ہیں

دماغ کی اس نمو کے کئی محرکات ہو سکتے ہیں۔ مگر اس بارے میں ایک اہم نظریے کے مطابق ہماری ذہنی نشو و نما گروہی زندگی یا مل جل کر رہنے کے لیے درکار شعور کی مرہونِ منت ہے۔

آسٹرالوپیِتھیکس کے بعد سے انسان کے آباؤ اجداد نے بڑے سے بڑے گروہ تشکیل دینے شروع کیے۔ شاید اس کا سبب شکاری جانوروں سے خود کو محفوظ رکھنا رہا ہوگا کیونکہ انسان نے درختوں سے اتر کر زمین پر بود و باش اختیار کر لی تھی اور شکارخور انسانی بقا کے لیے سنگین خطرہ تھے۔ گروہی زندگی کا یہ فائدہ بھی تھا کہ اس طرح انسان مل کر وسائل اکھٹا کر سکتا تھا اور خود کو بدلتے ماحول میں ڈھال سکتا تھا، اور بچوں کی نگہداشت بھی مل جل کر کی جا سکتی تھی۔

لیکن جیسا کہ ہمیں ذاتی تجربے سے پتا چلتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ رہنا آسان کام نہیں کیونکہ آپ کو ہر شخص کی عادات و اطوار اور پسند ناپسند کا خیال رکھنا پڑتا ہے، اور یہ کہ آپ انھیں راز کی کوئی بات بتا سکتے ہیں۔ اور جب آپ کسی اجتماعی سرگرمی، مثلاّ جتھّے کی صورت میں شکار، میں مصروف ہوں تو آپ ہر رکن سے رابطے میں رہتے ہیں اور اپنی سرگرمیوں کو مربوط بنانا پڑتا ہے۔ آج کے انسان کے لیے بعض غلطیاں صرف شرمندگی کا باعث ہوتی ہیں مگر ہمارے اجداد کے لیے تو یہ زندگی اور موت کا سوال تھا۔

ان فوری مشکلات کے علاوہ بڑے سماجی گروہوں میں شامل افراد نے ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ بھی کیا ہوگا، ایک دوسرے کی ایجادات کو بہتر بنایا ہوگا جس سے نئی ٹیکنالوجی اور ثقافتی اختراعیں وقوع پذیر ہوئی ہوں گی، ایسے آلات وجود میں آئے ہوں گے جن سے شکار کرنے میں آسانی پیدا ہوئی ہوگی۔ ان سب کے لیے قوی مشاہدے اور دوسروں سے سیکھنے کی صلاحیت ضروری ہے اور اسی احتیاج نے دماغ کو ایک اور مہمیز دی ہوگی۔

چار لاکھ سال پہلے ‘ہومو ہائڈلبرجینسِس (قدیم انسان کی ایک معدم نوع) کے دماغ کا حجم 12 سو مکعب سینٹی میٹر ہو چکا تھا۔ یہ جدید انسان کے دماغ کے موجودہ حجم، 13 سو مکعب سینٹی میٹر، سے بس ذرا سا ہی کم ہے۔ تقریباً 70 ہزار سال پہلے جب ہمارے اجداد نے افریقہ سے کوچ کیا، تو وہ اتنے سمجھدار تھے کہ دنیا میں کہیں بھی بود و باش اختیار کر لیں۔ غاروں کے اندر پائی گئیں تصاویر شاہد ہیں کہ انھوں نے عظیم آفاقی سوالات پر، جن میں شاید انسان کی ابتدا سے متعلق سوالات بھی شامل تھے، غور شروع کر دیا تھا۔

1920 کمرۂ جماعت
آج کے مقابلے میں سنہ 1920 کے عشرے میں لوگوں کا آئی کیو سکور کم تھا

ایسے ماہرین کم ہی ہوں گے جو اصرار کریں کہ آئی کیو میں حالیہ اضافے کا سبب جینیاتی ارتقا ہے، کیونکہ جینیاتی تبدیلی کے لیے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔

یہ صرف 100 برس پہلے کی بات ہے جب سائنسدانوں نے ذہنی صلاحیت ناپنے کا پیمانہ آئی کیو یعنی ‘اِنٹیلیِجنس کووشنٹ’ متعارف کروایا۔ آئی کیو میں کامیابی کا انحصار مختلف ادراکی صلاحیتوں کے باہمی ربط پر ہے۔ یعنی آپ کی قوت استدلال اور اسے الفاظ کا جامہ پہنانے اور مختلف شکلوں میں شباہت تلاش کرنے کی صلاحیت کا تعلق آپ کی حساب دانی کی اہلیت سے ہے۔ اس لیے آئی کیو کو ‘عمومی ذہانت’ یا دماغ کی پوشیدہ صلاحتیوں کو سامنے لانے کا آلہ سمجھا جاتا ہے۔

اگرچہ آئی کیو کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، مگر تحقیق بتاتی ہے کہ اس کے سکور کئی امور میں کارکردگی جانچنے کے لیے کارآمد اشارے یا انڈیکیٹرز فراہم کرتے ہیں جو خاص طور پر حصول علم کی صلاحیت کا پتا لگانے میں انتہائی مفید ثابت ہوئے ہیں۔ (اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ ابتدائی طور پر ان کا استعمال سکولوں میں کیا گیا تھا)۔ اس کے علاوہ دوران ملازمت نئی مہارتیں سیکھنے کی صلاحیت کا اندازہ لگانے میں بھی یہ کارآمد ہیں۔ مگر یہ طریقہ نقائص سے پاک نہیں ہے اور کئی دوسرے عوامل بھی آپ کی کامیابی میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مگر عام طور پر یہ لوگوں میں سیکھنے اور پیچیدہ معلومات کو بروئے کار لانے کی استعداد کے فرق کو واضح کرنے میں مدد گار ہے۔

آئی کیو میں اضافہ بظاہر 20ویں صدی کے اوائل میں شروع ہوا، لیکن ماہرین نفسیات نے اس عمل پر حال ہی میں توجہ دینا شروع کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آئی کیو کے سکور کا معیار مقرر کر لیا گیا ہے۔ یعنی ٹیسٹ کے بعد لوگوں کے سکور پر ایک مقررہ کلیے کا اطلاق کیا جاتا ہے تاکہ آئی کیو کے دائمی سکور 100 کے مقابلے میں ان کی ذہانت جانچی جا سکے۔ اس طرح آئی کیو کے مختلف امتحانوں سے گزرنے والوں کی صلاحیت کا ایک ہی پیمانے پر مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ البتہ آپ جب تک معلومات کے ذخائر پر نظر نہیں ڈالتے آپ کو مخلتف پیڑیوں یا جنریشنز کے آئی کیو میں پائے جانے والے فرق کا اندازہ نہیں ہوتا۔

جب محقق جیمز فلِن نے گزشتہ صدی کے سکورز کا جائزہ لیا تو انھیں ان میں مستقل اضافے کا پتا چلا جو ہر پچھلی دہائی کے مقابلے میں تین پوائنٹ زیادہ تھا۔ بعض ملکوں میں اب یہ فرق تیس پوائنٹس تک پہنچ چکا ہے۔

اگرچہ فلِن اِیفیکٹ کا نظریہ فی الحال ماہرین کے زیرِ بحث ، مگر پچھلی نسل کے مقابلے میں نئی نسل میں آئی کیو میں اضافہ کا باعث گرد و پیش کے عوامل ہو سکتے ہیں نہ کہ جینیاتی تبدیلیاں۔

قد میں اضافہ

پچھلی صدی کے مقابلے میں ہمارا قد بڑا ہے، پر اس کا سب جینیاتی تبدیلیاں نہیں

غالباً بہترین موازنہ ہمارے قد میں تبدیلی ہے۔ مثلاً ہمارا قد 19ویں صدی کے مقابلے میں تقریباً 11 سینٹی میٹر یا پانچ انچ طویل ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارے جینز میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری مجموعی صحت میں بہتری آئی ہے۔

ممکن ہے کہ بعض محرکات دونوں تبدیلوں کے پیچھے کارفرما رہے ہوں۔ بہتر ادویا، بچپن کے امراض میں کمی اور اچھی خوراک نے یقیناً ہمیں جسمانی اور دماغی طور پر بہتر بننے میں مدد دی ہوگی۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ پیٹرول میں سیسے کی مقدار میں کمی کا بھی ہماری دماغی صلاحیت پر مثبت اثر پڑا ہے۔ ماضی میں ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر سیسے نے منفی اثرات مرتب کیے تھے۔ لہذا ایندھن جتنا صاف ہوگا ہم اتنے ہی ذہین ہوں گے۔

مگر یہ تصویر ادھوری ہے کیونکہ جدید معاشروں میں فکری ماحول بھی تبدیل ہوتا رہا ہے جس نے ممکنہ طور پر ہماری قوت متخیلہ و توجیح کی تربیت بچپن ہی میں کر دی ہو۔ مثلاً تعلیم کے شعبے میں بچوں میں سوچنے کی صلاحیت پیدا کی جاتی (جیسا کہ حیوانات دودھ پلانے والے ہوتے ہیں یا رینگنے والے)۔ اسی طرح جدید ٹیکنالوجی کو سمجھنے اور استعمال کرنے کے لیے ہمیں مجرد سوچ یا ایبسٹریکٹ تھنکِنگ پر تکیہ کرنا پڑتا ہے۔ ذرا سوچیے کہ کمپیوٹر پر معمولی سے کام کے لیے بھی ہمیں کتنی علامات کو سیکھنا اور استعمال کرنا پڑتا ہے۔ خیال و فکر کی ایسی مشق ہر شخص میں وہ مہارت پیدا کر دیتی ہے جس کی بنیاد پر وہ آئی کیو ٹیسٹ میں اچھا سکور حاصل کر سکتا ہے۔

فلِن ایفیکٹ کا سبب جو بھی ہو، ایسے شواہد موجود ہیں کہ ہم ذہانت کے اس عہد کے خاتمے کو پہنچ چکے ہیں، ہمارے آئی کیو میں اضافہ رک گیا ہے، بلکہ گر رہا ہے۔ مثلاً اگر آپ فِن لینڈ، ناروے اور ڈینمارک کو دیکھیں تو وہاں یہ انحطاط نوّے کی دہائی کے وسط میں شروع ہوگیا تھا جب اوسط آئی کیو میں سالانہ عشاریہ دو پوائنٹ کی کمی آنا شروع ہوئی۔ اور نسل در نسل کمی کا مجموعی فرق سات پوائنٹ بنتا ہے۔

یہ رجحانات قدرے نئے ہیں اس لیے فلِن ایفیکٹ کے مقابلے میں ان کی وضاحت ذرا زیادہ مشکل ہے۔ ایک امکان یہ ہے کہ اب تعلیم و تدریس ہماری قوتِ فکر کو جھنجھوڑنے والی نہیں رہی یا اس کا ہدف وہ مہارتیں نہیں رہیں۔ مثلاً یونیورسٹی آف اوسلو کے اولے روجبرگ نے مجھ بتایا کہ کچھ آئی کیو ٹیسٹ لوگوں کے زبانی حساب کتاب کی صلاحیت کو جانچنے کے لیے استعمال ہوتے تھے مگر اب طلبہ یہ کام کیلکولیٹر سے لینے لگے ہیں۔

فی الحال ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا رہن سہن پراسرار طور پر ہمارے ذہنوں کی تربیت کرتا ہے۔

ایسے میں جب سائنسداں ان رجحانات کی گتھی سلجھانے میں مصروف ہیں، یہ سوال بے محل نہیں کہ آئی کیو میں تبدیلی کا معاشرے پر کیا اثر پڑتا ہے۔ کیا فلِن ایفیکٹ کے تحت آئی کیو کو ملنے والی مہمیز سے ہمیں وہ فوائد ملے ہیں جن کی ہمیں امید تھی؟ اور اگر نہیں ہوئے، تو کیوں نہیں؟

جریدے جرنل آف اِنٹیلیِجنس نے اپنے ایک خصوصی شمارے میں حال ہی میں یہ سوال اٹھایا ہے، اور اداریے میں کورنیل یونیورسٹی میں ماہرِ نفسیات رابرٹ سٹرنبرگ نے لکھا:

‘لوگ غالباً پیچیدہ فون اور دیگر تیکنیکی ایجادات کو بیسویں صدی کے آغاز کے مقابلے میں بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ مگر بحیثیت معاشرہ جو کچھ 30 پوائنٹس کے اضافے سے حاصل ہوا کیا وہ متاثر کن ہے؟ 2016 کے صدارتی انتخابات حد درجہ بچگانہ تھے۔ پھر آئی کیو میں اضافہ بڑے بڑے عالمی یا ملکی مسائل کو حل کرنے میں بالکل کارگر ثابت نہیں ہوا۔ ان مسائل میں کم اور زیادہ آمدنی میں بڑھتا ہوا تفاوت، ہر سو پھیلی غربت، آب و ہوا میں تبدیلی، آلودگی، تشدد، منشیات کی وجہ سے اموات وغیرہ شامل ہیں۔’

مگر سٹرنبرگ اس معاملے میں کچھ زیادہ قنوطی لگتے ہیں۔ کیونکہ علاج معالجے میں زبردست پیشرفت ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر شیرخوار بچوں کی صحت کے مسائل میں کمی واقع ہوئی ہے، اگرچہ غربت کا خاتمہ نہیں ہو سکا مگر عالمی سطح پر اس میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اور پھر سائنسی اور تکنیکی پیشرفت سے حاصل ہونے والے بے شمار فوائد تو سب کے سامنے ہیں جن کا ایک ذہین افرادی قوت کے بغیر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

البتہ یہ پوچھتے ہوئے وہ تنہا نہیں کہ کیا فلِن ایفیکٹ سے ہماری قوتِ مُدرِکہ یعنی سمجھنے کی صلاحیت میں بہت زیادہ بہتری آئی ہے۔ جیمز فلِن خود بھی اس بات کے قائل ہیں کہ یہ اضافہ غالباً استدلال کی کچھ مخصوص مہارتوں تک محدود ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے مختلف کسرتیں مختلف پٹھوں کو تو مضبوط بناتی ہیں مگر مجموعی تندرستی میں بہتری نہیں لاتیں۔ ہم کچھ مخصوص اقسام کے تخیل کی مشق کرتے رہے ہیں اور ضروری نہیں کہ ان سے ہمارا عقل و شعور بھی مکمل طور پر بہتر ہوا ہو۔ شاید یہی وہ صلاحتیں ہیں جن پر کام کرکے اور بہتر بنا کر دنیا کا مستقبل سنوار سکیں۔

تخلیقی صلاحیت
قوتِ تخلیق مصورانہ اظہار سے کہیں وسیع ہو سکتی ہے

قوت تخلیق یا ‘کری ایٹیویٹی’ ہی کو لیجیے۔ سٹرنبرگ جیسے محقق جب تخلیقی صلاحیت کو زیربحث لاتے ہیں تو وہ صرف مصورانہ اظہار کی بات نہیں کرتے بلکہ اس سے زیادہ بنیادی مہارتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ مثلاً آپ کسی مشکل کا کوئی اچھوتا حل کتنی آسانی سے نکال سکتے ہیں؟ اور آپ ضدِ حقائق سوچ یا کاؤنٹر فیکچوئل تھِنکِنگ پر کتنی قدرت رکھتے ہیں، یعنی کوئی ایسی مشکل جو ابھی پیش ہی نہیں آئی کا حل محض اپنی قوت متخلیہ کے سہارے تلاش کرنے کی استعداد آپ میں کتنی ہے؟

ذہانت یقیناً ہمیں زیادہ تخلیقی بناتی ہے، مگر کسی خاص عرصے پر محیط آئی کیو میں اضافے کے ساتھ انفرادی تخلیقی سوچ میں اضافہ نہیں ہوتا۔ فلِن ایفیکٹ کا سبب جو بھی ہو، اس نے ہمیں نئی اور طبع زاد سوچ پیدا کرنے میں مدد نہیں دی۔

پھر معقولیت کا سوال بھی ہے، یعنی آپ حقائق کو غیرمتعلق معلومات سے الگ کرکے کتنے اچھے فیصلے کر سکتے ہیں۔

آپ اپنے بارے میں گمان کر سکتے ہیں کہ آپ جتنے ذہین ہیں اتنے ہی معقول بھی، مگر یہ اتنی سادہ بات نہیں ہے۔ اگرچہ زیادہ آئی کیو کا تعلق حساب دانی سے ہے، جو امکانات اور خطرات کو سمجھنے کے لیے لازمی ہے، لیکن معقول فیصلے پر پہنچنے کے دوسرے لوازمات بھی ہیں جن کو ذہانت میں کمی پر محمول نہیں کیا جا سکتا۔

ذرا وسیع پیمانے پر دستیاب ادب یا لِٹریچر میں موجود شعوی تعصبات پر غور کریں۔ مثلاً کسی چیز کا ’95 فی صد چکنائی سے پاک’ ہونا ‘5 فی صد چکنائی’ والی چیز سے زیادہ صحت بخش لگتا ہے۔ یہ فریمنگ بائس یا تعصبِ پیشکش کہلاتا ہے۔ اور اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ زیادہ آئی کیو اس کمی کو پورا نہیں کر سکتا، مطلب یہ کہ ذہین ترین افراد بھی ایسے گمراہ کن پیغامات سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

زیادہ آئی کیو کے حامل افراد میں بھی کنفرمیشن بائس یعنی وثوقی تعصب کے لیے اتنی ہی اثرپذیری ہوتی ہے۔ یہ ان معلومات کو قبول کرنے کا رجحان ہے جو ہماری پہلے سے قائم رائے کی توثیق کرتی ہیں۔ جبکہ ان حقائق کو نظرانداز کر دیتے ہیں جو ہمارے خیالات سے متصادم ہوں۔ یہ رویہ اس وقت بڑا مسئلہ پیدا کر دیتا ہے جب ہم سیاست جیسے گرما گرم موضوع پر گفتگو کرتے ہیں۔

آئی کیو چاہے جتنا بھی زیادہ ہو آپ کو سنک کاسٹ بائس یعنی ڈوبتی رقم کے تعصب سے نہیں بچا سکتا۔ اس میلان طبع کے تحت ہم ناکام منصوبوں میں مزید وسائل جھونک دیتے ہیں، حالانکہ ایسے میں نقصان کو کم کرنے کوشش کرنی چاہیے۔ کاروبار کی دنیا میں یہ بڑا سنگین مسئلہ ہے۔ (اس کی مشہور مثال کونکورڈ ہوائی جہاز میں برطانوی اور فرانسیسی حکومتوں کی مسلسل سرمایہ کاری ہے، حالانکہ یہ بات ظاہر ہو چکی تھی کہ اس منصوبے کا مقدر بربادی کے سوا کچھ نہیں۔)

‘ٹیمپورل ڈِسکاؤنٹنگ’ یا وقتی کے بجائے پائیدار فائدے’ کے ٹیسٹوں میں انتہائی ذہین افراد کی کارکردگی بھی زیادہ بہتر نہیں ہوتی، یعنی آپ مستقبل کے بڑے فائدے کی خاطر وقتی منافع کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔ حالانکہ پر سکون مستقبل کے لیے طویل مدتی فائدے کے بارے میں سوچنا ضروری ہے۔

اس طرح کے تعصبات کی مزاحمت کے علاوہ عمومی تنقیدی سوچ کی مہارت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ مثلاً مفروضوں پر سوال اٹھانے کی صلاحیت، نامعلوم کی نشاندی، نتیجہ اخذ کرنے سے پہلے واقعات کی متبادل توجیحات کی تلاش وغیرہ۔ یہ سب اچھے فکری عمل کے لیے ضروری ہیں، لیکن ان کا آئی کیو سے کوئی زیادہ مضبوط تعلق نہیں، اور نہ ہی یہ اعلیٰ تعلیم سے حاصل ہوتے ہیں۔ امریکا میں کی گئی ایک تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ کئی لوگوں کے ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بھی ان کی تنقیدی سوچ میں کوئی بہتری نہیں آئی۔

اس ڈھیلے ڈھالے باہمی ربط کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آئی کیو میں اضافے سے ہماری ہمہ گیر قوتِ فیصلہ میں کوئی حیرت انگیز بہتری کیوں نہیں آئی۔

عقلیت پسندی (ریشنیلیِٹی) اور تنقیدی سوچ (کرِیٹیِکل تھِنکنگ) میں کمی سے پتا چلتا ہے کہ مالی غبن کیوں عام ہے، اور لوگ عطائیوں کے جھانسے میں آکر اپنی دولت اور صحت کیوں برباد کرتے ہیں۔

یہ رویہ ہمارے سماج میں طبی غلطیوں اور نا انصافی کا باعث ہو سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ 2010 میں خلیجِ میکسیکو میں ڈیپ واٹر ہورائزن نامی تیل کے تباہ کن اخراج اور عالمگیر مالی بحرانوں کا سبب بھی ہو۔ جعلی خبروں کے پھیلنے اور آب و ہوا میں تبدیلی جیسے اہم مسئلے پر سیاسی گروہ بندی میں بھی اس کا کردار ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم اس کا کوئی متفقہ حل ڈھونڈنے میں ناکام ہیں۔

ڈیپ واٹر ہورائزن کا شاخسانہ
تنقیدی طرزِ فکر کو اپنائے بغیر ہم ڈیپ واٹر ہورائزن نامی تیل کے اخراج جیسی بڑی آفتوں سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

آج انسانی تارخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ ہمارے دماغ نے پیچدہ تر معاشروں میں کیسے رہنا سیکھا۔ اور اس جدید دور میں اگرچہ ہماری تجریدی سوچ وسیع ہو چکی ہے مگر اس نے ہمارے غیر معقول میلان کی اصلاح نہیں کی۔ ہم نے فرض کر لیا تھا کہ ذہین افراد میں عمر کے ساتھ قوتِ فیصلہ بھی بڑھتی ہے، مگر ایسا نہیں ہے۔

مستقبل کے پیشِ نظر معکوس یا ریوسرس فلِن ایفیکٹ اور آئی کیو میں مکمنہ کمی کو دیکھتے ہوئے ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم اپنے دماغ کس طرح استعمال کریں۔ اس انحطاط کو روکنا مستقبل کی خاطر ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔ دوسری جانب ہم اُن صلاحیتوں میں اضافے کی بھی مصمم کوشش کر سکتے ہیں جن کا بلند آئی کیو سے کوئی تعلق نہیں۔

سوچ کا یہ انداز سکھایا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے غورو خوض اور احتیاط سے مرتب کردہ ہدایات کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹروں کی قوتِ فیصلہ کے بارے میں تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ فکری غلطی سے بچا جا سکتا ہے بشرطیکہ ہمیں اپنے سوچنے کے انداز پر غور کرنا سکھایا جائے۔ اس سے بے شمار لوگوں کو فائدہ ہوگا۔

لیکن یہ مہارتیں ابتدائی تعلیم میں کیوں سکھائی جائیں؟ لیڈز یونیورسٹی بزنس سکول کے وانڈی برون ڈی بروئین اور ان کے رفقا نے یہ ثابت کیا ہے کہ فیصلہ کرنے میں غلطی کے بارے میں مباحث کو ہائی سکول کے نصاب میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف بعد میں ہونے والے عقلیت پسندی کے ٹیسٹ میں شرکا کی کارکردگی بہتر ہوئی، بلکہ تاریخی حقائق سے متعلق علم میں اضافہ بھی ہوا۔

دوسرے محققین نے سکولوں اور جامعات میں تنقیدی سوچ کے بارے میں درس و تدریس کو پھر سے جِلا بخشی۔ مثلاً ہر اہم واقعہ کے پیچھے کسی سازشی ہاتھ کے ہونے والی سوچ سے متعلق مباحثہ طلبہ کو ٹھوس استدلال کے اصول سکھا سکتا ہے، جیسا کہ منطقی مغالطوں کی پہچان اور شہادتوں کو سامنے رکھ کر ان کی جانچ کرنا۔ یہ مہارت حاصل کرنے کے بعد طلبہ گمراہ کن باتوں اور جھوٹی خبروں کے بارے میں زیادہ محتاط نظر آئے۔

اگر عقلیت پسندی اور تنقیدی سوچ کو اسی طرح پروان چڑھایا جائے جیسا کہ ہماری عقل و شعور کی دوسری صلاحیتوں کو اہمیت دی گئی ہے تو یہ کامیابیاں ہماری اگلی منزل کے لیے مشعل راہ ہیں۔

ممکن ہے کہ فلِن ایفیکٹ کے نتیجے میں عقلیت پسندی میں زبردست اضافہ ہو جائے، شاید ہم مزید فہم و تدبّر بھی پالیں۔ اگر ایسا ہوا تو آئی کیو میں یہ معمولی کمی عقل و شعور کے سنہری دور کے خاتمے کی گھنٹی نہیں بلکہ نئی شروعات کا نقارہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp