بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے


مجھے یاد ہے پہلی بار جب وہ آیا تھا میرے پاس تو اس نے سائے میں رکھے واٹر کولر کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا کہ ”کیا میں پانی پی سکتا ہوں“ تو میں نے جواب کی منتظر ان آنکھوں والے پیارے سے بچے کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا تھا ضرور اور پھر میں پڑھانے میں لگ گیا۔ بچہ پانی پی کر اس دن وہاں سے گیا لیکن وقتاً فوقتاً وہ پانی پینے آتا جاتا رہا۔ کل جب وہ میرے پاس آیا تو میں نے اسے تھوڑا مختلف پایا۔ وہ معصومیت کا مجسمہ مجھے سراپا افسردگی لگا، وہ کھلکلاتے ہونٹ مجسم بے بسی تھے۔

جب وہ واٹر کولر کے پاس گیا تو میں نے دیکھا گلاس تھامے وہ بڑھوں کی طرح گم سم ہے۔ تب میں اسے دیکھتا ہی رہا۔ جب اس نے پانی پینا ختم کیا تو میں نے اسے بلایا اور پاس پڑی کرسی پہ بیٹھنے کا کہا۔ وہ بیٹا تو سر نیچے تھا۔ میں نے پوچھا کیا ہوا ہے آج آپ اداس لگ رہے ہیں اس نے جواب میں بات گول کرکے کہا ”سر عید کو کتنے دن رہ گئے ہیں“۔ میں نے کہا یہی پندرہ سولہ۔

اس نے کہا ”اگر میں کپڑے لاؤں تو آپ کسی درزی میں میرے کپڑے بنواسکتے ہیں؟ “ جب اس نے یہ کہا تو مجھے لگا میں بچپن میں چلا گیا ہوں اور کسی سے یہی سوال میں کررہا ہوں۔ میں نے کہا ہاں کدھر ہے آپ کے کپڑے تو اس نے ایک دکاندار کا نام دیا کہ اس نے کہا تھا روز میرے دکان کو جھاڑو لگاؤ اور پھلوں کی صفائی کرو تو میں لوں گا آپ کے کپڑے لیکن دو تین دن ہے وہ نہیں لے رہا۔

میں اس دکان دار کو جانتا تھا اور مجھے یہ بھی یقین ہے وہ بچے کو دو آموں کے دام کام کروا کے کپڑے دلوانے والا نہیں۔ تب مجھے سورہ بقرہ کے اس آیت کی پوری پوری سمجھ آنے لگی کہ ”وہ کسی سے سوال نہیں کرتے بلکہ آپ انھیں ان کے چہروں سے پہچان لوگے“

میں نے بچے سے پوچھا آپ کے والد کیا کرتے ہیں تو اس نے معصومیت سے کہا ”سمندر میں جاتے ہیں لیکن سمندر بند ہے، ابو کو میں نے کپڑے کا کہا تو اس نے کہا میں نہیں جانتا آپ کے پیٹ پالوں یا کپڑے دوں، اور ابو نے تو آج تک وردی نہیں دی ہے۔ عید کے بعد ہیڈ ماسٹر بھی مجھے سکول سے نکالے گی“

میں نے بچہ کو شام کو آنے کاکہا اور کسی دوست کے ساتھ معاملہ شئیر کیا اور اس نے وردی اور میں نے عید کے کپڑے لئے۔ تب سے اس مسکراہٹ سے میں زندہ ہوں لیکن سوال اب بھی وہی ہے کہ ؎

شرم آتی ہے کہ اس شہر میں ہم ہیں کہ جہاں
نہ ملے بھیک تو لاکھوں کا گزارا ہی نہ ہو

ہم معاشی طور پہ دیوالیہ ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقی طور پہ بھی دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ اس قریہ صغیر میں جہاں ہم ایک دوسرے کو جانتے بھی ہیں۔ وہاں پہ بھوک مٹانے کے لئے ماں کو بچوں کو جھوٹی دلاسے کے لئے ہنڈیا پہ پانی رکھ کے پرستان کی وادیوں کی سیر کروانا پڑتی ہے، ٹھٹھرتی رات کو گرمی کی خاطر اپنی ہی لعل کی تختی جلانا پڑتا ہے، بچوں کی فیس، ان کی کتابیں قلم دوات کو بار گراں سمجھ کے برداشت کرنا جبکہ دوسری طرف ہمارے محلات، ہماری شاہانہ شادیاں اور ہماری پرتعیش طرز زندگی، نام کی خاطر لاکھوں کی برسات۔

یہ بچہ، یا ان جیسے بچے کل ہم سے زیادہ بے رحم، غیر اسلامی و غیر انسانی معاشرہ ترتیب دیں گے کیوں کہ ہم نے نمائش کے بیج بوئے ہیں۔ بہتر مستقبل کے نہیں۔

ہمیں چاہیے ہم اس شہر میں ہر اس بچے کی مدد کریں جو مصیبت میں ہے، انھیں اپنے عمل سے یہ ترغیب دیں کہ کل آپ ہم سے بہتر مستقبل کی تعمیر کریں گے۔ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق معاشرے میں حصہ ڈالنا شروع کرے تو انشاءاللہ، اللہ بھی رحم کرے گا پھر نہ سمندر بند ہوگا اور نا کسی بچے کو عید کے کپڑوں کے لئے دھوکے بازوں کی نوکری کرنی پڑے گی۔

فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).