ساس بہو تعلقات کا نیا موڑ


وزیراعظم عمران خان امریکہ کا تین روزہ سرکاری دورہ مکمل کر کے واپس پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ اس دورے کی حقیقی کامیابی یا ناکامی سے متعلق ابھی سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان غیر معمولی ملاقات سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے ان تعلقات کا ساس بہو کے جن دو الفاظ میں احاطہ کیا تھا اس کی رو سے دیکھنا ہوگا کہ اب ساس بہو سے کب تک اور کتنا خوش ہوتی ہے۔

دنیا میں خارجہ پالیسی کا مسلمہ اصول یہی ہے کہ سفارت کے میدان میں دوست اور دشمن مستقل نہیں ہوتے۔ وقت، حالات اور واقعات کی نوعیت کے مطابق ممالک کے درمیان دوستیاں اور دشمنیاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں جن میں ہر ملک اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر دوسرے ملک سے اپنے تعلق کی نوعیت کا تعین کرتا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات ملکی سیاست، ذرائع ابلاغ اور عوامی سطح پر سب سے زیادہ زیر بحث آنے والے موضوعات میں سے ایک ہیں، یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت علی الاعلان امریکہ کے ساتھ دوستی کی خواہش کا اظہار نہیں کرتی لیکن تخت پہ براجمان ہوتے ہی اسے اس اہمیت اور ضرورت کا ادراک ہو جاتا ہے کہ پاکستان

میں اقتدار کے استحکام اور دوام کا راستہ واشنگٹن سے ہو کر ہی گزرتا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کی امریکہ سے قربت کی اسی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی بنیاد وزیراعظم لیاقت علی خان نے دورئہ امریکہ کو روس پر ترجیح دے کر رکھ دی تھی، محل وقوع کی اہمیت پاکستان کے لئے کبھی خوشی اور کبھی غم کاباعث بنی رہی، سابق سوویت یونین کی سپر پاور کے طور پر موجودگی کے دنوں میں پاکستان امریکہ کی آنکھ کا تارا رہا اور ضرورت پوری ہونے تک امریکہ بہادر نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی طرف سے بھی آنکھیں بند کیے رکھیں لیکن مطلب پورا ہو جانے کے بعد اسی ایٹمی پروگرام کے باعث پاک امریکہ تعلقات میں سردمہری آتی گئی۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پاکستان میں مارشل لا یا نیم مارشل لا کے دنوں میں پاک امریکہ تعلقات کو فروغ ملا یقیناً اس کی بڑی وجہ امریکہ کا ”طاقت کے مراکز“ کے ساتھ براہ راست انگیج ہونا ہے، اپنے معاملات کی درستی تک امریکہ جمہوریت، آزادی اظہارِ رائے یا غیر جمہوری حکومتوں پہ کوئی اعتراض کرتا دکھائی نہیں دیتا، اس کی بلا سے پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق میسر ہیں یا نہیں، حالیہ دورے کو دیکھا جائے تو بھی امریکی رویہ اپنے مفادات کی واضح نگہبانی کرتا دکھائی دیتا ہے جبکہ نادان دوست اسے کپتان کی شخصیت کا کرشمہ سمجھ رہے ہیں۔

افغانستان سے امریکی افواج کا باوقار انخلا، ایران کے ساتھ امریکہ کے کشیدہ ہوتے تعلقات، پاکستان میں چین کا بڑھتا اثر و رسوخ اور خطے میں نئے سفارتی بلاکس کا احیا ایک بار پھر سے دونوں ممالک کو قریب لے آئے ہیں، ماضی کی طرح امریکہ براہِ راست ”طاقت کے مرکز“ سے معاملات طے کرنا چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے سیاسی اور عسکری قیادت یک جان دو قالب کا منظر پیش کرتی دکھائی دی ہے۔ اگرچہ پاکستانی عوام کو ایک خوش کن پیغام دینے کے لئے ٹرمپ نے کشمیر پہ ثالثی کی بات چھیڑ کر پاک بھارت تعلقات میں وہ ارتعاش پیدا کر دیا ہے جو جلد تھمتا دکھائی نہیں دیتا، ٹرمپ کے ثالثی کے بیان کو اگرچہ انڈین میڈیا اور حکومت نے یکسر مسترد کر دیا ہے لیکن وزیراعظم عمران خان کے دورے کے دوران جو گھاؤ بھارتی قیادت کو لگ چکا ہے اسے وہ تا دیر سہلاتے رہیں گے جسے یقیناً پاکستان کی سفارتی سطح پہ اہم کامیابی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

اب حکومت پاکستان پہ منحصر ہے کہ ٹرمپ نے جو ٹرمپ کارڈ عمران خان کے حوالے کیا ہے وہ اسے کس مہارت سے استعمال کرتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عمران خان کے لئے ٹرمپ کے تعریفی جملے کس حد تک بڑھتے داخلی دباؤ کو کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوں گے اور پاکستان کے اندر سے اٹھنے والی کسی بڑی تحریک سے اب عمران خان زیادہ پُر اعتماد ہو کر نمٹ سکیں گے۔ اسی دورے کے دوران عمران خان نے یہ عندیہ بھی دیا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بدلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی پہ بات ہو سکتی ہے۔

یہاں یہ یاد دلانا فضول ہو گا کہ عمران خان صاحب اپوزیشن میں رہتے ہوئے مسلسل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو قید رکھنے پہ حکومت پاکستان اور امریکہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے تھے چنانچہ اب اس رہائی کو ایک ڈیل میں تبدیل کرنے پر عوامی سطح خصوصاً اپوزیشن جماعتوں میں اسے سراہا نہیں جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ امریکی حکومت کی وش لسٹ کو فوری طور پہ قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس یا پارلیمان کا مشترکہ اجلاس اور اگر ان کیمرا اجلاس مناسب سمجھیں تو وہ طلب کر کے اس کے سامنے رکھیں تاکہ طالبان کو سیز فائر پہ مجبور کرنے سے لے کر افغانستان میں پاکستان کے کردار اور ساس بہو کے اس نئے رومان سے سی پیک کو محفوظ رکھنے سمیت پاکستانی مفادات کے حوالے سے بہتر، موثر اور مشترکہ حکمت عملی طے کی جا سکے۔ آخر میں یہی عرض کہ اگر عمران خان کیپٹل ایرینا والا خطاب وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے کرتے تو آج اپوزیشن بھی اس دورے کو پاکستان کی فتح سے تعبیر کرتے جشن منانے میں حکومت کے ساتھ ہوتی۔
بشکریہ جنگ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).