امریکا کا کامیاب دورہ اور اپوزیشن کا احتجاج


وزیراعظم عمران خان کے دورے امریکہ کے فوراً بعد ہی امریکی وزارت خارجہ نے اعلان کر دیا ہے کہ امریکہ پاکستان کو ایف 16 طیاروں کے حوالے سے لاجسٹک سپورٹ فراہم کرے گا۔ طویل عرصے سے امریکہ اور پاکستان میں ایف 16 طیاروں لاجسٹک سپورٹ کے حوالے سے مذاکرات کامیاب نہیں ہو پا رہے تھے مگر وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ امریکہ کے فوراً بعد ہی امریکہ اس کام پر راضی ہو گیا ہے۔ اس تناظر میں ہمیں وزیراعظم کے دورے کی بڑی کامیابی نظر آتی ہے۔

اس دورے کی خاص بات وزیراعظم کے ہمراہ سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ بھی ساتھ گئے جو کہ شاید پہلی بار عسکری اور سیاسی قیادت ایک نکتے پر یکسو نظر آئی ہے۔ وطن عزیز کی سیاسی تاریخ اس معاملے پر خاصی مایوس کن ہے۔ ہمیشہ سیاسی اور عسکری قیادتوں کے درمیان رابطوں کا فقدان رہا۔ یہ نکتہ خاصا بحث طلب ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت میں جب اختلافات بڑھ جاتے ہیں تو غلطی کسی کی ہوتی ہے دونوں اطراف کے وکیلوں کے پاس دلیلوں کے انبار ہوں گے جو اپنے دفاع میں پیش کیے جا سکتے ہیں مگر اس سارے تضاد کا ملک کو بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔

پچھلے دو سیاسی ادوار اگر دیکھیں 2008 ء سے 2013 تک پیپلزپارٹی میمو گیٹ سکینڈل عسکری اور سیاسی قیادت میں شدید اختلافات دیکھنے میں آئے اور آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کا معاملہ جب یہ اختلافات ہوئے تھے تو اس وقت کی حزب اختلاف مسلم لیگ (ن) نے سیاسی حکومت کا ساتھ نہیں دیا قائدجمہوریت نواز شریف کالاکوٹ پہن کر سیاسی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ میں گئے۔ میموگیٹ پر وہی موقف اختیار کیا جو عسکری قیادت کا تھا۔

پھر 2013 ء سے 2018 ء تک مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی۔ ڈان لیکس پر سیاسی اور فوجی قیادت میں اختلافات نمایاں ہوئے۔ تب پیپلزپارٹی نے سیاسی حکومت کا ساتھ نہیں دیا۔ 2018 ء کے الیکشن میں تحریک انصاف نے میدان مارا اور اب ایک سال سے حکومت میں ہے۔ ابھی تک سیاسی اور عسکری قیادت میں کوئی اختلاف دیکھنے میں نہیں آیا۔ ملک کی دگرگوں معیشت کو سنبھالنے میں سیاسی اور عسکری قیادت یکسو نظر آ رہی ہے۔ اسی ساری صورت حال کا تجزیہ کیا جائے تو حرف آخر بات ایک ہی نکلتی ہے کہ اگر سیاسی اور عسکری قیادت میں اختلافات ہوں تو نقصان ملک کا ہوتا ہے۔ ملک کے وسیع تر مفادات میں سیاسی اور عسکری قیادت کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ اور اپنے ذاتی مفادات اور انا کو پس پشت میں ڈال کر سب سے پہلے پاکستان کا سوچنا چاہیے۔

وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دوسرے امریکہ شروع ہونے سے پہلے بہت سے ابہام پائے جا رہے تھے۔ امریکی دورہ وائٹ ہاؤس کی دعوت پر ہوا۔ دورے سے چند روز قبل امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے لاعلمی کا اعلان کیا گیا تو وزیراعظم عمران خان کے سیاسی اور صحافتی مخالفین نے خوب واویلا کیا اور پاکستان کی بہت بڑی ناکامی قرار دیا مگر جب فوراً ہی وائٹ ہاؤس کی طرف سے دورے کی تصدیق کر دی گئی تو سب خاموش ہو گئے۔ وزیراعظم عمران خان نے مہنگے ہوٹل میں قیام کی بجائے پاکستانی سفارت خانے میں قیام کو ترجیح دی جو ان کی کفایت شعاری کی پالیسی کا تسلسل ہے اور صرف 56 ہزار ڈالر کے اخراجات آئے۔

وزیراعظم نے کمرشل فلائٹ سے سفر کیا۔ اس کے برعکس ماضی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں میں آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی، نواز شریف، شاہدخاقان عباسی جب امریکی دورے پر جاتے تھے تو مہنگے ہوٹلوں میں قیام کرتے اور مع اہل و عیاں جاتے ان کے پورے پورے خاندان کی امریکی صدر اور ان کی شریک حیات کے ساتھ تصویریں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ وزیراعظم اپنے خاندان کے کسی فرد تو دور کی بات ہے وہ اپنی شریک حیات خاتون اول بشری کو بھی نہیں لے کر گئے اور سادہ سی شلوار قمیض واسکٹ نیچے پشاوری چپل میں جس اعتماد اور سکون سے صدر ٹرمپ سے گفتگو کی، فوکس نیوز کو انٹرویو دیا، سب کمال ہے۔

اس بار پاکستان کا حکمران ہاتھ میں پرچی پکڑ کر نہیں خوداعتمادی اور ایک وقار کے ساتھ بیٹھا تھا۔ بطور پاکستانی یہ سب دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ پھر شاید ملکی تاریخ کا پہلا وزیراعظم جس نے امریکہ میں ایک بڑے جلسہ عام سے بھی خطاب کیا۔ اس سے پہلے جس قدر بھی حکمران جاتے تھے وہ ایک چھوٹے سے ہال میں دو درجن کے قریب پاکستانیوں کو مدعو کرکے خطاب فرما کر چلے جاتے ہیں۔ بہرحال سیاسی اور صحافی مخالفین جو بھی سوچیں وزیراعظم عمران خان امریکہ سے کامران لوٹے ہیں۔

25 جولائی کو متحدہ حزب اختلاف جس میں مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام (ف) اور بلوچستان کی علاقائی جماعتیں محمود خان اچکزئی اور ڈاکٹر عبدالمالک نے مل کر چاروں صوبائی دارالحکومتوں لاہور، کراچی، پشاور او رکوئٹہ میں احتجاجی جلسے کرنے کا اعلان کیا۔ صرف گلگت اور مظفرآباد میں جلسے نہیں ہوئے اس احتجاج کو روکنے کی جس قدر بھی حکومت کوشش ہوئی وہ قابل مذمت ہے۔ عمران خان صاحب آپ تو 22 سال احتجاج کرتے رہے ہیں چاہے وہ پرویز مشرف کے خلاف ہو، آصف علی زرداری کے خلاف ہو، نواز شریف کے خلاف اور ابھی 126 روزہ دھرنا ملکی تاریخ کا طویل ترین سیاسی احتجاج آپ نے کیا اگر آپ کی حکومت میں کوئی سیاسی جماعت یا پھر متحدہ حزب اختلاف احتجاج کرنا چاہ رہی تھی تو آپ کی حکومت کو روکنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

کراچی میں جس جلسے سے بلاول نے خطاب کیا وہ خالص شو تھا اور تمام شہروں کے احتجاجی جلسوں میں سب سے بڑا تھا۔ پشاور میں فضل الرحمن اور اسفند یار ولی خان دو سیاسی اور نظریاتی مخالف اکٹھے ہو کر بھی بہت بڑا جلسہ نہ کر سکے۔ کوئٹہ میں ڈاکٹر مالک اور اچکزئی کا شو مناسب تھا جس میں مریم نواز شریف نے بھی خطاب کیا۔ لاہور میں شہبازشریف میدان میں تھے ان کو مینار پاکستان میں جلسہ کرنا چاہیے تھا۔ لاہور نون لیگ کا گڑھ ہے۔

یہاں 11 اراکین قومی اسمبلی اور 21 صوبائی اسمبلی کے اراکین میں جگہ کا انتخاب کیا چیئرنگ کراس، صرف دو سڑکیں اتنی بڑی جماعت نے ایک غیر متاثر کن سیاسی پاورشو کیا۔ ایک تو وہ جگہ جہاں لاہور ہائی کورٹ نے احتجاج پر پابندی لگا رکھی ہے آپ نے کھلی جگہ مینار پاکستان کا انتخاب کیوں نہیں کیا۔ کیا آپ کوشبہ ہے کہ آپ وہاں ہاؤس فل نہیں کر سکتے۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں نون لیگ کا لاہور میں تیسرا پاور شو ہے۔ پہلا نواز شریف کی وطن واپسی دوسرا ان کی جیل یاترا اور تیسرا یہ۔ یہ بات ثابت کرتا ہے نون لیگ کا ووٹر ووٹ تو دے سکتا ہے مگر احتجاج نہیں کر سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).