غلامانہ ذہنیت اور اس کے ثمرات


ہمارے ایک جذباتی دوست عمران خان اور تحریک انصاف کے خود ساختہ وکیل بھی ہیں، کو پچھلے تین چار سال سے تبدیلی کا بخار چڑھا ہوا ہے۔ الیکشن 2018 سے قبل ہی انھوں نے ہمیں قائل کرنے کی بھرپور کوشش کری اور اور اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگادیا کہ ہم کسی طرح ان کے بیانیے کو تسلیم کرتے ہوئے عمران خان کو ایک عوامی اور جمہوری لیڈر تسلیم کرلیں۔

تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد ان کو سوفیصد گمان تھا کہ پاکستان میں اب دودھ کی ندیاں بہنے لگیں گی۔ بیرون ملک مقیم تارکین وطن اپنی نوکریاں چھوڑ کر پاکستان واپس آجائیں گے۔ اور یہاں سرمایہ کاری کریں گے ہر طرف خوشحالی خوشحالی ہوگی۔ خان سائیکل پر دفتر جایا کرے گا۔ ایوان صدر اور پرائم منسٹر ہاؤس پر بلڈوزر چلے گا اور وہاں بچوں کے کھیلنے کے لئے پارک بنائے جائیں گے۔ غریبوں کے لئے پچاس لاکھ گھر بنائے جائیں گے، خان خود کشی کرلے گا مگر آئی ایم ایف نہیں جائے گا، نواز شریف و زرداری کی طرح دنیا سے بھیک نہیں مانگے گا وغیرہ وغیرہ۔

موصوف ٹیلی ویژن پر خان کی پر جوش تقریریں اور بھٹی صاحب اور صابر شاکر کو سن کر ہمیں تبدیلی کے خواب دکھایا کرتے تھے۔ انھوں نے ہمیں قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔

مگر ہمارے جیسا بائیں بازو کی سوچ اور ترقی پسند خیالات رکھنے والا شخص جو فیض حبیب جالب، منہاج برنا اور کامریڈ معراج محمد خان کو اپنا ہیرو اور روحانی استاد مانتا ہو وہ بھلا کہاں اس سونامی اور تبدیلی کے کھوکھلے نعروں زدہ آمریت کی چمک میں آسکتا ہے۔

مسئلہ صرف ان صاحب کا نہیں ہے ہمارے ملک میں ان جیسی سوچ رکھنے والے لوگ کثیر تعداد میں ہیں۔ جو شخصیت پسندی کا شکار ہوکر کبھی عمران خان، مشرف تو کبھی افتخار چوہدری اور ثاقب نثار جیسے شاہکاروں کو اپنا مسیحا تصور کرلیتے ہیں۔ اس میں قصور ان لوگوں کا بھی اتنا نہیں ہے یہ بیچارے وہ ہی دیکھتے اور سنتے ہیں جو ان مصنوعی کرداروں کی تشہیر کے لئے ہمیں دکھایا جاتا ہے۔ اور عقل و فہم فراست سے خالی لوگ آسانی سے اس جال میں پھنس جایا کرتے ہیں۔ بقول شاعر۔

تو کہ نا واقف آداب غلامی ہے ابھی

رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے

خلیل جبران نے کہا تھا تم ایسے غلام ہو کہ جب زمانہ تمہاری زنگ آلود بیڑیاں اُتار کرچمکدار بیڑیاں پہنا دیتا ہے توتم اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہو۔

دراصل دنیا میں جب بھی ایسے کرداروں کو متعارف کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے ان کے اذہان کو قابو کیا جاتا ہے۔ کیونکہ جب تک ان کا ذہن آزاد نہیں ہوگا وہ غلامی کو کسی قیمت پر قبول کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔ تو ایسے میں ایک پورا ماحول بنایا جاتا ہے۔ ان کی تشہیر کے لئے چند مخصوص ٹی وی اینکرز کو ٹاسک دیا جاتا ہے کہ عوام کو دن رات صرف ان کے قصیدے سنائے جائیں۔ ان کی سچی جھوٹی تعریفیں کرتے جائیں۔ اور عوام میں ان کا چہرہ دھوکر ایسے پیش کیا جائے کہ عوام ان کو ہی اپنا مسیحا اور نجات دہندہ تصور کرلیں۔ سابق چیف جیسٹس افتخار محمد چوہدری اور ثاقب نثار کی مثال آپ کے سامنے ہے۔

ہمارے کچھ میڈیا اینکرز نے ان کو قوم کا مسیحا بنادیا۔ اور آج ان صاحبان کے اس وقت کے کیے گئے فیصلوں کے محرکات قوم کے سامنے آرہے ہیں۔ اور اب ان پر لعن طعن کی جارہی ہے جبکہ اس وقت ان کے کیے گئے ان ہی فیصلوں پر خوشی کے شادیانے بجائے جاتے رہے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ذہنی غلامی و شخصیت پسند کا یہ عالم ہے کہ ہم نے عقل و فہم فراست سے خالی لوگوں سے یہ بھی کہتے سنا کہ اگر عمران دال کا ایک دانہ دو سو روپے کا اور پیٹرول ایک ہزار روپے لیٹر بھی کردے تو ہم اس کا ساتھ دیں گے۔ اس سے آپ ان کی غلامانہ سوچ کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔

شخصیت پرستی دراصل پستی وغلامی کا ایک شاخسانہ ہی ہے جس میں آدمی کی عقل وخرد اپنا کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ کیوں کہ کوئی بھی شخصیت خواہ وہ کتنی ہی عظیم ترین کیوں نہ ہو اگر ہم اسے انسان کہتے ہیں اور اس کے لیے کوئی ماورائی رہنمائی سے انکاری ہیں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ غلطیوں سے مبرا نہیں اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ وہ نسیان وخطا سے دامن نہیں بچا سکتا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس شخصیت کی ہر بات کو سند قبولیت دے دی جائے اور صرف یہی نہیں بلکہ جو اس کی مطلوبہ حیثیت تسلیم نہ کرے اس کے خلاف تیر وتفنگ لے کر حملہ کردیا جائے۔ اور یہ ہی پی ٹی آئی اور اس کے فتنہ پرداز سپورٹرز کی حکمت عملی ہے۔

جب تک ہماری قوم شخصیت پسندی سے نکل کر اپنی سوچ میں ذہنی فکری اور نظریاتی تبدیلی نہیں لائے گی اس وقت تک وہ غلامی کی زنجیروں میں ہی جکڑی رہے گی۔

غلای میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

کؤئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زورِ بازو کا

نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

جلالِ پادشایہ، علمِ اشیا کی جہانگیری

یہ سب کیا ہیں؟ فقط اِک نقطئہ ایماں کی تصویریں

براھیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم

جہادِ زندگانی میں یہ ییں مردوں کی شمشیریں

علامہ اقبال


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).