کے ٹو کی تاریخ کا یادگار سال


یہ سال کوہ پیمائی کے حوالے سے کے ٹو کے لئے ایک یادگار سال ثابت ہوا۔

سال کے آغاز میں دنیا بھر کی نگاہیں کے ٹو پر موجود ان دو ٹیموں پر لگی ہوئی تھیں جو سردیوں میں پہلی بار کے ٹو کو سر کرنا چاہتی تھیں۔ کے ٹو آٹھ ہزار میٹر سے بلند دنیا کی چودہ چوٹیوں میں سے وہ واحد پہاڑ ہے جس کو ابھی تک سردیوں میں مسخر نہیں کیا جا سکا۔ یہ دونوں ٹیمیں معروف کوہ پیماؤں پر مشتمل تھیں۔ ایک ٹیم کا تعلق یورپ اور مغربی ممالک سے تھا جس کی قیادت اسپین کے معروف کوہ پیما الیکس نے کی۔ دوسری ٹیم کا تعلق روس سے تھا جس میں قازقستان اور کرغستان کے کوہ پیما شامل تھے۔ تمام تر کوشش کے باوجود یہ دونوں ٹیمیں کے ٹو کو سردیوں میں سر نہ کر سکیں اور یوں کوہ پیمائی کا ایک قابل رشک کارنامہ ادھورا رہ گیا

اس سال کے ٹو پر موسم گرما نہایت ڈرامائی ثابت ہوا جس کا آغاز پر امید، درمیان مایوس کن اور انجام نہایت خوش گوار تھا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے سو سے زیادہ کوہ پیماؤں کو کے ٹو کی مہم جوئی کے سرکاری اجازت نامے جاری کیے گئے۔ کے ٹو کا شمار تکنیکی لحاظ سے دنیا کے مشکل ترین پہاڑوں میں ہوتا ہے۔ مئی کے مہینے سے کوہ پیماؤں کی ٹیمیں پہنچنے کا آغاز ہو گیا جو پچھلے سالوں کی نسبت کافی حوصلہ افزا تھا۔ دو مہینے تک کے ٹو پر موجود یہ ٹیمیں مناسب وقت اور سازگار موسم کی تاک میں رہیں۔

کئی بار ان افواہوں نے سر اٹھایا کہ ایورسٹ کی طرح کے ٹو بھی اب کمرشلزم کا شکار ہونے کی جانب گامزن ہے اور اس سال سو کے لگ بھگ کوہ پیما کے ٹو سر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس بار خلاف توقع گرمیوں میں کے ٹو کا موسم صاف رہا اور جولائی کے دوسرے ہفتے میں اس بات کی قوی امید پیدا ہو گئی تھی کہ بڑی تعداد میں کوہ پیما کے ٹو سر کر لیں گے۔ تاھم اس بار بنیادی مسئلہ چوٹی پر موجود گہری برف تھی جس نے صاف موسم ہونے کے باوجود کوہ پیماؤں کے لئے شدید مشکلات پیدا کر دیں۔

جولائی کے تیسرے ہفتے میں معروف کوہ پیما مائک ہارن سمیت تمام ٹیمیں کے ٹو سر کرنے کا ارادہ ترک کر چکی تھیں اور بڑی تعداد میں کوہ پیما واپس جانا شروع ہو گئے۔ اس تمام صورتحال میں اس وقت ڈرامائی موڑ آیا جب برطانیہ سے تعلق رکھنے والے نیپالی نژاد نرمل پورجا گاشا بروم ایک اور دو یکے بعد دیگرے سر کرنے کے بعد کے ٹو بیس کیمپ پر آن پہنچے۔ نرمل پورجا جو دنیا کی چودہ بلند ترین چوٹیوں کو سات ماہ کے عرصے میں سر کرنے کی مہم پر نکلے ہوئے ہیں اس وقت نانگا پربت سمیت آٹھ ہزار میٹر سے بلند نو چوٹیاں تین ماہ سے کم عرصے میں سر کر چکے تھے۔

اپنی مہم کے دوسرے مرحلے میں اب ان کا سامنا کے ٹو سے تھا۔ نرمل نے ان حوصلہ شکن حالات میں بے پناہ ہمت دکھائی اور دنیا اس وقت حیران رہ گئی جب نرمل اور ان کے چار ساتھیوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود چوبیس جولائی کی صبح کے ٹو کو سر کر لیا۔ یوں اس سال موسم گرما کے لئے باقی کوہ پیماؤں کے لئے کے ٹو سر کرنے کا راستہ ہموار ہو گیا۔ اسی دن امریکا کے معروف کوہ پیما ایڈرین بللنگر، ایکواڈور سے تعلق رکھنے والی خاتون کوہ پیما کارلا پریز نے بغیر مصنوئی آکسیجن کے اپنے تین ساتھیوں سمیت کے ٹو کو سر کیا۔ ایران سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما حسین بہمنیار اس دن ۔ کے ٹو کی چوٹی پر پہنچے والے گیارویں کوہ پیما تھے

پچیس جولائی کا دن اور بھی دلچسپ ثابت ہوا۔ اس دن انیس کے قریب کوہ پیماؤں نے کے ٹو کو سر کیا جن میں تین پاکستانی کوہ پیما بھی شامل تھے۔ ان میں پاکستان کے معروف کوہ پیما محمّد علی سدپارہ کے انیس سالہ بیٹے ساجد علی سدپارہ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نیپال سے چھ، جرمنی اور برازیل سے دو دو اور ایک ایک کوہ پیما آسٹریا، پولینڈ، چیک ریپبلک، امریکہ، ارجنٹائن اور بلغاریہ سے شامل تھا۔ اس طرح قریب دو ماہ سے کے ٹو کو سر کرنے والے کوہ پیماؤں نے دو دنوں کے اندر اپنی منزل کو پا لیا۔

اس سال کے ٹو سر کرنے والوں میں کم از کم چار خواتین بھی شامل ہیں جن کا تعلق ایکواڈور، برازیل، جرمنی اور چیک ریپبلک سے ہے ان میں سے دو خواتین نے کے ٹو کو بغیر آکسیجن کے سر کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ یہ سال کے ٹو پر اس لحاظ سے بھی غیر معمولی تھا کہ کسی بھی کوہ پیما کی موت واقع نہیں ہوئی۔ کے ٹو جیسا خطرناک پہاڑ کا جہاں اوسط ہر چوتھا کوہ پیما اپنی جان گنوا بیٹھتا ہے اور آج تک اسی سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں، یہ دوستانہ رویہ قابل رشک تھا۔ کوہ پیمائی کی دنیا میں طفیلی کوہ پیماؤں کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔ اس سے مراد وہ کوہ پیما ہوتے ہیں جو روپ فکسنگ اور روٹ کے کلیر ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور پھر دوسروں کو فالو کرتے ہیں۔ اس سال کے کے ٹو سر کرنے والے تمام کوہ پیما نرمل پورجا اور ان کی با ہمت ٹیم کے طفیل ہی ۔ یہ کارنامہ سرانجام دے سکے

۔ ایک حوصلہ افزا بات یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی کوہ پیماؤں کے مطابق اس سال کے ٹو پر ہونے والے انتظامات پچھلے سالوں کی نسبت کافی بہتر تھے

ایک کوہ پیما جو جو نا گزیر وجوہات کی بنا پر کے ٹو سر نہ کر سکا دلچسپ انداز میں بیس کیمپ کی منظر کشی کرتا ہے۔ کہتا ہے بیس کیمپ پر آباد دنیا عجیب ڈھنگ کی تھی۔ کہیں شام کو لوگ دوسروں کے آرام کا خیال کیے بغیر اونچی آواز میں گانے لگا کر رقص و سرود کی محفل بپا کرتے اور کہیں ایک خاتون اس سرد جگہ کو ساحل سمندر بنانے پر تلی ہوئی تھی۔ ایک نوجوان۔ فوجی افسر وقت گزاری کے لئے دوسروں کو شاندار قسم کے سکچ بنا کر دیتا۔ تھا۔ یہ سب اور کے ٹو کی بیس پر آباد چند ہفتوں کی یہ دنیا میری زندگی کے یادگار ترین لمحات تھے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).