پیچھے نہیں، آگے دیکھو


طاقت ہو اور اختیار نہ ہو مگر طاقتوری کا تاثر موجود ہو تو ایسے میں خام خیالی جنم لیتی ہے۔ خیال پختہ ہوتا چلا جائے تو یقین محسوس ہونے لگتا ہے، ہیولے اشکال میں اور تصورات تصویر میں تبدیل ہونے لگتے ہیں۔ دراصل ایسا ہوتا نہیں مگر ہوتا ہے۔ اس ہونی اور انہونی میں کیے جانے والے فیصلے نہ پائیدار ہوتے ہیں اور نہ ہی نتیجہ خیز۔

حکومت اس وقت یقین اور بے یقینی کے درمیان ہے حالانکہ طاقت کا مرکز تصور ہو رہی ہے۔ یہ وہ واحد سیاسی حکومت ہے جس کے پیچھے تمام ادارے نہ صرف کھڑے ہیں بلکہ اس کی پائیداری کے لیے تگ و دو بھی کر رہے ہیں۔ سیاسی حکومت کے فیصلوں سے قبل ہی مہر اکتفا ثبت ہو جاتی ہے۔

انقلابِ زمانہ تو یہ ہے کہ حکومتی اراکین کے منہ سے ممکنہ گرفتاریوں کی فہرست پر من و عن عمل درآمد بھی ہو جاتا ہے۔ ماضی قریب کی ہی بات ہے کہ آصف زرداری کی گرفتاری کی خواہش ہو یا شاہد خاقان عباسی کی ‘خواہش پر گرفتاری’، رانا ثنا اللہ کو مونچھوں سمیت گرفتار کرنے کی فرمائش ہو یا عرفان صدیقی کی ‘تیکھی شرپسند ننھی’ کی ‘منی’ تقریروں کی ناپسندیدگی، ٹی وی سکرینوں سے ناپسندیدہ چہروں کو غائب کرنا ہو یا تنقید کی سیاہی کو مٹانا ہو محض اشارے کی دیر ہے اور ‘نکی جئی ہاں’ حکم میں بدل جاتی ہے۔

واشنگٹن کے کیپٹل ایرینا میں مولانا کی گرفتاری کا اشارہ بھی دے دیا گیا ہے، دیکھیے عمل درآمد کب ہو گا۔

طاقت کا مرکز اختیار کے چابک کو اس یقین کے ساتھ استعمال کر رہا ہے کہ وہی اس کا اصل مالک اور مختار ہے لیکن اس یقین کے شائبے میں چھپی حقیقت محض سراب ہے اور سراب حقیقت کی ضد، مگر ایسے میں ادھوری شکلیں کیا روپ اختیار کرتی ہیں اس کا اندازہ کسی کو نہیں۔

اصولِ قدرت ہے کہ ہر طاقت کے لیے ایک طاقت اور ہر اختیار سے اوپر ایک اختیار موجود ہوتا ہے۔ اقتدار کا ایک صفحہ تیار ہو بھی جائے تو اشتراک کے دو دستخط کنفیوژن بڑھا دیتے ہیں۔

کپتان کی حکومت ایک طاقتور حکومت ہے اس کی ایک مثال قانون کرایہ داری میں سابق معلم، کالم نویس اور مشیر میاں نواز شریف کی تاریک رات میں گرفتاری اور سچے اور سُچے دن میں چھٹی کے روز رہائی تھی۔

کوئی ایک طاقت تو یہ دیکھ رہی ہو گی کہ 78 سال کے بزرگ کو قانون کرایہ داری کے تحت اندر کر دینا، ایک مجسٹریٹ کا قابل ضمانت جرم میں جس کی زیادہ سے زیادہ سزا ایک مہینہ اور چھ سو روپے جرمانہ ہے۔

ایک بے گناہ کی گرفتاری سراسر زیادتی ہے۔ اس طاقت نے بھی جوش تو مارا ہو گا، زیادتی اور ظلم قرار دیا ہو گا اور پھر حکم دیا ہو گا کہ اتوار کو عدالت لگوائیں، قانون کو لائن حاضر کریں اور انصاف کو بازیاب کرائیں۔

اگر کسی دن 15 کلو ہیروئن، اربوں کے جعلی اکاؤنٹس، ٹی ٹیوں کی تفصیلات، پانامے، اقامے، کرایہ نامے اور کئی ایک دیگر مقدمات میں اسی طرح این آر او کے بغیر ہی کسی طاقت نے جوش مار دیا اور رات کے اندھیرے میں، صبح صادق یا اتوار کے دن بغیر عدالتوں کے انصاف دستیاب ہو گیا تو پھر کیا ہو گا۔

جناب! یہ قرون اولی کے ایام نہیں بلکہ 21ویں صدی ہے، صحافت اشتہاروں سے، صحافی دھونس سے اور انصاف چابک سے کیسے ہانکے جا سکتے ہیں؟ طرز حکمرانی بدلیے اور بانہیں کھول کر تنقید سننے کا حوصلہ رکھیے، پھر یہ ہی نہیں ہر دور آپ کا ہو گا۔

پیچھے نہیں آگے دیکھیے۔ پیچھے دیکھنے والے پتھر کے ہو جاتے ہیں، ماضی میں کھو کر مستقبل گنوا بیٹھتے ہیں۔ لہٰذا استدعا ہے کہ پیچھے نہیں۔۔۔آگے دیکھیے آگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).