عرفان صدیقی کیس: سیاسی منظر بدل رہا ہے


نواز دور کے کسی ادنٰی یا اعلٰی کارکن و اہلکار کے خلاف کسی امر میں معمولی سی بے ضابطگی کی بو سونگھنے والے صدق و امانت کے پُتلوں اور ان کے سر پرستوں کو جب قلم قبیلے کے سرخیل اور وزیر اعظم کے مشیر و تقریر نویس جناب عرفان صدیقی کے خلاف باوجود بسیار خجل خواری کے کچھ نہ ملا تو انہیں قانون کرایہ داری کی پاسداری نہ کرنے کے جرم کا مرتکب قرار دے کر رات گئے اپنے گھر سے اٹھا لیا گیا۔ اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہوا کہ اس خطرناک مجرم کو اگلے دن ہتھکڑیوں میں جکڑ کر عدالت میں پیش کیا گیا۔

اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہوا کہ اس مردِ درویش اور جہاں دیدہ و عمر رسیدہ آدمی کو جج صاحب نے بغیر کسی توقف کے چودہ دن کے جسمانی ریمانڈ پر سیدھا جیل بھیج دیا۔ زنجیروں میں جکڑے ان کے نحیف و نزار ہاتھوں کی انگلیوں میں ایک قلم جگمگا رہا تھا۔ یہ اندوہ ناک اور دلخراش تصویر دیکھ کر مشہور شاعر خالدعلیگ کا یہ شعر بار بار میری سماعتوں میں ہتھوڑا بن کر برستا رہا کہ۔

ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے

ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا

اور اس بھی بڑا عجوبہ یہ ہواکہ اگلے دن جج صاحب نے نادیدہ قوتوں کے اشارے اور دیدہ وجوہات کی بنا پر اتواری عدالت لگا کر درباری عدل و انصاف کا اعادہ کر کے انصاف کا بول بالا اور ظلم کا منہ کالا کیا۔ اس مضحکہ خیز اور بھونڈی کارروائی کے باوجود ہمیں حکم دیا جاتا ہے کہ عدالتوں اور اداروں کو آزاد اوران کے افسرا ن و اہلکاران کو صادق و امین خیال کریں۔

عرفان صدیقی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ موجودہ آرمی چیف کے استاد رہے ہیں مگر منفی پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اور پرویز رشید نے نواز شریف اور محترمہ مریم نواز کو فکری اور نظریاتی طور پر گمراہ کیا ہے۔ انہیں ن لیگ کے مشہور نعرے اور بیانیے ووٹ کو عزت دو کا خالق بتایا جاتا ہے۔ جب سے عمران خان کی آمرانہ حکومت قائم ہوئی ہے تب سے سیاست، عدالت اور صحافت کے کوچے سے اٹھنے والی ہر مخالفانہ آواز کو بزور دبانے کی بھونڈی اور تضحیک آمیز کوشش کی جا رہی ہے۔

اب تو یہ کھلا راز ہے کہ ان آمرانہ کاوشوں کا کھرا کہاں تک جا پہنچتا ہے۔ عرفان صدیقی صاحب جو جدید کالم نگاری میں بلا شبہ منفرد انداز و آہنگ، اسلوبِ نگارش اور شاعرانہ و رنگین نثر لکھنے میں امامت کے درجے پر فائز ہیں، وہ بھی عمرانی حکومت کی ہٹ لسٹ پر تھے۔ ان کے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو عوامی سطح پر اس قدر پذیرائی ملی کہ انہیں سبق سکھانے کا فیصلہ غالباً اعلٰی سطح پر ہوا۔

ہم عرفان صدیقی کو صرف اس لحاظ سے ہی خوش بخت نہیں سمجھتے کہ انہیں موجودہ آرمی چیف کا استاد ہونے کا اعزاز حاصل ہے بلکہ وہ اس حوالے سے بھی خوش نصیب ہیں کہ ان کے گھریا گاڑی سے کئی کلو چرس، افیون، ہیروئن یا دوسری طرح کی منشیات برآمد نہیں ہوئی۔ اسلام آباد کے پوش گھروں سے بھینس یا بکری کی برامدگی تو خیر پرلے درجے کی بد ذوقی اور نالائقی ہوتی تاہم چند انتہائی مطلوب دہشت گرد، بارود، خود کش جیکٹس اور بغیر لائسنس جدید ہتھیاروں کا اچھا خاصا ذخیرہ تو برآمد کیا جا سکتا تھا۔ گرفتار کرنے والوں کو اور نہ مجسٹریٹ صاحب کو شاید یہ علم تھا کہ صدیقی صاحب آرمی چیف کے استاد رہ چکے ہیں ورنہ نہ انہیں اس تضحیک انداز سے گرفتار کیا جاتا اور نہ اس بھونڈے طریقے سے عدالت لگا کر انہیں رہا کیا جاتا۔

آپ عرفان صدیقی جیسی علمی و ادبی شخص کی سیاسی وابستگی اور حکومتی عہدے کی قبولیت کے فیصلے سے لاکھ اختلاف کریں مگرجس طرح انہیں گرفتار اور پھر نادیدہ مداخلت پر رہا کیا گیا اس سے موجودہ حکومت خاص طور پر عمران خان کی منتقم مزاج طبیعت کا صاف پتہ چلتا ہے۔ دراصل یہ حکومت اپوزیشن کے ہر اس بڑے اور قابل ذکر لیڈر کو رسوا کرنا چاہتی ہے جو سر اٹھا کر چلنے پر مصر ہے، خواہ وہ سر بازار ہو یا پسِ دیوار۔

جناب ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کی بڑی بدنصیبی یہ رہی کہ انہیں دشمن بھی نہایت کم ظرف، بے حوصلہ اور چھوٹے ملے ہیں۔ ایک کہتا تھا کہ قبر ایک ہے اور لاشیں دو، آج دوسرا اپنے سیاسی حریف کو جیل کی کوٹھڑی میں زندہ درگور کرنا چاہتا ہے۔ دنیا کی سیاسی تاریخ میں شاید ہی کوئی اتنا سفاک اور شقی القلب حکمران گزرا ہو جس نے اپنے حریف سے ذاتی نفرت و انتقام سے مجبور ہو کر اس سے اتنا پست اور انسانیت سوز سلوک کیا ہو۔ کون شخص اسے زور آور پہلوان مانے گا جو اپنے امپائرز اور اپنے کچھ طاقتور ساتھیوں سے مل کر اپنے حریف کو زنجیروں میں جکڑ کر اس پر مسلسل مکے، گھونسے اور لاتیں برساتا رہے۔

بلا شبہ آج نواز شریف اور ان کے وفادار ساتھیوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے مگر گذشتہ چند روز میں وقوع پذیر ہونے والے چند بڑے واقعات ہوا کے رخ کی تبدیلی کا پتہ دیتے ہیں۔ ان واقعات میں آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی وزیر اعظم سے ہونے والی انتہائی اہم ملاقات ہے جس میں اطلاعات کے مطابق وزیراعظم کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپوزیشن کو چھوڑ کر اپنی توانائیاں ملک کی تباہ حال معیشت کی بحالی کی بہتری کے لیے وقف کریں۔ جناب عرفان صدیقی کی اور لاہور میں ن لیگ کے گرفتار ہونے والے کارکنان کی اچانک رہائی، اپوزیشن اور ففضل الرحمان کے میگا جلسے اور اسد عمر، فواد چودھری وغیرہ جیسے پی ٹی آئی کے مرکزی راہنماٶں کی اپنی ہی حکومت کے خلاف بیان بیازی ملک میں سیاسی ماحول کے بدلنے کا سراغ دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).