اس ملک میں اختیار کی سیاست کرپشن میں گندھی ہے


پاکستان کی سیاست میں کرپشن کو ہمیشہ استعمال کیا گیا ہے۔ اس ملک کے سیاستدان، حکمران اور عمال حکومت ہردور میں ہر قسم کی کرپشن کے مرتکب رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد مہاجروں کی آباد کاری اور الاٹمنٹ سے وسیع پیمانے پر شروع ہونے والی کرپشن سے لے کر آج تک کی تمام حکومتوں میں اس کی ہر قسم کی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ پاکستان کے تمام محکمہ جات اور حکومتوں کے ہاتھ اس میں رنگے ہوئے ہیں۔

سیاست دانوں کوہمیشہ کرپشن کا سب سے بڑا مجرم گردانا گیا ہے۔ غلام محمد پہلا حکمران تھا جس نے ناظم الدین حکومت کی بر طرفی کی ایک وجہ کرپشن کو قرار دیا۔ ایوب کان نے بھی کرپشن کا الزام عائد کیا اور سیاست دانوں کو احتساب کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ ”ایبڈو“ کا قانون اس سلسلے میں خصوصی طور پر سیاستدانوں کے لئے بنایا گیا۔

اس کے بعد سے لے کر آج تک کی تمام حکومتوں کو جس بھی بنیاد پر بر طرف کیا گیا ہو اس کی ایک بہت بڑی وجہ کرپشن بتائی گئی ہے۔ کرپشن کی یہ کہانیاں صرف پاکستان تک محدود نہیں، دنیا میں ہمیشہ سے حکومتی اہلکار اور عمال پر اس قسم کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ ان الزامات سے بادشاہ اور وزراء بھی مستثنیٰ نہیں رہے۔ لیکن دنیا کی بہترین حکومت وہ کہلاتی ہے جو اپنے ملک میں کرپشن کو کم سے کم کر لے۔ دور جدید میں اس کو روکنے کے لئے تمام ممالک میں قوانین موجود ہیں۔ اب دنیا کے کسی بھی اعلیٰ ترقی یافتہ ملک میں اعلیٰ عہدیدار احتساب سے بالا تر نہیں رہے۔

بر صغیر پاک و ہندمیں کرپشن کی کہا نیاں دنیا کے دوسرے ممالک سے بدرجہ اتم موجود رہی ہیں۔ تحائف، جاگیریں اور عہدے اس ملک میں رشوت کی جائز قسم رہے ہیں۔ رابرٹ کلائیو جس نے بنگال میں دوسری بہت سی فتوحات کے ساتھ، نواب سراج الدولہ کی حکومت کے خلاف وزراء کو رشوت اور لالچ کی بنیاد پر کامیاب بغاوت کروائی، خود بھی لوٹ مار اورتحفہ تحائف کی وصولیوں سے انتہائی امیر ہوگیا تھا۔ ان تحائف میں ایک جاگیر بھی شامل تھی۔ کلائیو اپنے اس طرز عمل کو ہندوستانی رسم و رواج کے مطابق جائز قرار دیتا تھا۔ اس طریقہ سے وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لئے بہت سی مراعات اور تجارتی مفادات بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ کلائیو ان ناجائز طریقوں کو برطانوی ایمپائر کی بنیاد اور استحکام کے حصول کے لئے چھوٹی سی قیمت گردانتا تھا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے قوانین کے مطابق اندرون ملک تجارت مقامی ملازمین اور تاجروں کی مدد سے کرتی تھی۔ ان پر برطانوی اصول و ضوابط لاگو نہیں ہوتے تھے۔ کمپنی ان کو بہت کم اجرت دیتی تھی اور یہی لوگ بر طانوی ملازمین کے لئے رشوت اور لوٹ مار کرتے تھے۔ اس وجہ سے برطانیہ میں امراء کا ایک خاص سیاسی اور سماجی طبقہ پیدا ہو گیا جو کہ نبوب (Nabobs) کہلاتا تھا۔ یہ اصطلاح ہندوستانی نواب کی ہی انگریزی ترمیم تھی۔ ان نبوبز کی آمدن کے ذرائع مشکوک تھے اوروہ اپنی ناجائز دولت کی بنیاد پر برطانیہ میں اعلیٰ عہدوں کو خریدنے میں کامیاب ہو گئے اور اس طرح معاشرہ میں مسائل اور بہت سی معاشی اور سماجی خرابیوں کا باعث بنے۔

مغل سلطنت کے ساتھ معاہدہ دیوانی (1765) کے بعد کمپنی کو بنگال، بہار اور متصل علاقوں میں ٹیکس اور مالیہ اکٹھا کرنے کا جب حق حاصل ہوا تو ان مالی معاملات میں کرپشن کی وجہ سے دنیا کا بہترین اور وافر اناج پیدا کرنے والا یہ علاقہ قحط کا شکار ہو گیا۔ قحط جو کہ قدرتی آفات کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ اناج اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم انسان کو بھوک اور موت کے منہ میں دھکیل دیتی ہے۔ اس تباہی کو سامنے رکھ کر ہی 1773 کا ریگو لیٹنگ ایکٹ منظور ہوا تھا اور انڈیا میں پہلا گورنر جنرل ”وارن ہاسٹنگ“ لگایا گیا۔

اسی وارن ہاسٹنگ کو غیر قانونی تحائف کی وصولی، جنگوں میں بے ضابطگیوں، اوودھ کی بیگمات کے ناجائز استحصال اور ساتھ والی ریاستوں سے غیر مناسب اور ناقابل عمل مطالبات کی وجہ سے مواخذہ کی تحریک کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے پہل تو ہاسٹنگ نے اس پر زیادہ توجہ نہ دی لیکن جب اس کو معاملہ کی سنگینی کا احساس ہوا تووہ برطانیہ روانہ ہوگیا۔ یہ کیس تقریباً آٹھ سال چلا اور اس کی وکالت میں اس کی ساری دولت ضائع ہو گئی۔ اگر چہ اس پر لگائے گئے الزامات ثابت نہ ہو سکے۔

مواخذہ کی تحاریک کا آغاز چودہویں صدی میں انگلینڈ سے ہی ہواتھا۔ ان تحاریک کا مقصد اختیارات کے ناجائز استعمال کرنے والے حکومتی عہدہ داران کو ان کے مناصب سے ہٹا نا ہوتا تھا۔ ان تحاریک کی وجہ سے بادشاہ، اس کے وزرا اور بیگمات بھی اپنے اعمال کے جوابدہ ہو گئے تھے۔ جارج چہارم کی ملکہ کیرولین کا ایوان عام میں مواخذہ ہوا۔ انگلینڈ کے بعد امریکہ کی ریاستوں نے بھی اس کا استعمال شروع کیا۔ مواخذہ اب دنیا کے بہت سے ممالک کے دساتیر کا اہم حصہ ہے۔

امریکی آئین کے مطابق غداری، رشوت یا دوسرے بڑے جرائم کے ارتکاب پر مواخذہ کی تحریک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آئین میں ایک اور لفظ Misdemeanors استعمال کیا گیا ہے۔ جس کے وسیع معنی ہیں۔ اس طرح بہت سی دوسری بد اعمالیاں، برے رویے، غلطیاں اور برائیاں بھی اس تحریک کا باعث بن سکتی ہیں۔ کسی بھی حکومتی عہدیدار یا سول افسر کی حکومتی عہدہ پر موجودگی یا اس عہدہ پر آنے سے پہلے ان غلطیوں کے ارتکاب پراس کا مواخذہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں بھی مواخذہ کی شق شامل ہے۔

پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کو قرار دیا جارہا ہے۔ یہ موجودہ حکمران پارٹی کا کلیدی نعرہ بھی ہے۔ کرپشن مختلف قسم کی ہوتی ہے۔ کرپشن انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی بدعنوانی، بد اخلاقی، رشوت ستانی، خرابی، اخلاقی بگاڑ، بد چلنی، بد عملی اوربد دیانتی کے ہیں۔ کرپشن ایک ایسا فعل ہے جس میں اچھائی، نیکی، خالص پن، سادگی، اخلاقیات اور صحیح حالت کو برائی، خرابی، بددیانتی یا بداخلاقی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کے حکمرانوں اور عمال میں ان تمام اقسام کی کرپشن کی مثالیں عام ہیں۔

ایوب خان کی حکومت کے بارے میں وکیل انجم اپنی کتاب ”سیاست کے فرعون“ میں لکھتے ہیں، ”ایوب خان اقتدار کے نشہ میں اتنے اندھے ہو گئے تو ان کی ذات بھی ان الزامات کی زد سے نہ بچ سکی جس میں ان کے وزراء اور بیوروکریسی ملوث ہو گئی تھی۔ “ اسی کتاب میں وہ نیو یارک ٹائمز کا حوالہ دیتے ہوے بتاتے ہیں کہ سی آئی اے نے ان کو نو لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر بطور سیاسی رشوت ادا کیے۔ اور ان کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ کے تحت یہ طے پایا کہ ان کو خدمات کے صلہ میں تا حیات ستر ہزار ڈالر سالانہ ملتے رہیں گے۔

یحیٰ خان نے جب اقتدار سنبھالا تو سول بیوروکریسی کو خطاب کرتے ہوے کہا، ”آپ لوگوں نے اس بڈھے (ایوب خان) کے گرد گھیرا ڈال دیا تھا۔ یہ خوشامدیوں، چاپلوسوں اور نکموں کا ایسا گروہ تھا جس نے اس شخص سے سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں چھین لی تھیں۔ “ اس کے جواب میں غالباً سول افسرایم ایم احمد نے کہا، ”اس میں کوئی شک نہیں سول انتظامیہ سخت کرپٹ اور نا اہل ثابت ہوئی ہے۔ ہم میں سے بہت سی بے ایمان ہیں، بہت سے نا اہل اور نکمے ہیں۔“

یہ وہی کہا نیاں ہیں جو ہم آج کل بھی سن رہے ہیں۔ اسی طرح کے الزامات بھٹو، ضیا الحق، نواز شریف، بینظیر بھٹو اور ان کے ادوار میں موجود وزراء بیوروکریسی اور دوسرے افسران پر لگتے رہے ہیں۔ پرویز مشرف نے بھی غیر ملکی ایجنسیوں کے ساتھ ہاتھ ملائے رکھے۔ ان کے دور میں بھی حاضر و سابق وزراء اور دوسرے افراد پر کرپشن کے الزامات لگتے رہے اور جب ان کو انہی افراد کی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کی حکومت نے این آر او کر کے سب ملزمان کو صاف قرار دے دیا۔

کرپشن جب ہو رہی ہوتی ہے توہمارے ملک میں کوئی اس کے خلاف بولنے کی جرات نہیں کرتا۔ یحیٰ خان ایوب کے دور میں اس کے خلاف کیوں نہیں بولے؟ کیا ہمارے اداروں میں کوئی بھی اتنے حوصلے والا نہیں ہوتا کہ اپنے موجودہ افسر کے خلاف شکائیت کر سکے۔ کیا کسی حکمران میں اتنی طاقت بھی نہیں ہوتی کہ اپنے زیر اثر وزیر یا افسر کے خلاف انکوائری کا حکم دے سکے؟ تمام باتیں اس کے جانے کے بعد ہی کیوں یاد آتی ہیں؟ جب انڈس واٹر کمشنر ”جماعت علی“ ملکی پانی کی چوری پر مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کر رہا تھا تو اس وقت انڈیا مخالف حب وطن کے دعویٰ دار کیا کر رہے تھے؟

جب افتخار چوہدری ریکوڈیک کیس کو خراب کر رہا تھا توکیا اس کو روکنے والا کوئی جج نہیں تھا؟ جب جسٹس ثاقب نثار اپنے کام چھوڑ کر ڈیم بنانے نکلا تھا تو اس وقت کسی نے کیوں نہیں کہا کہ ڈیم بنانا ہے تو عدالتی ناانصافیوں کے خلاف بناؤ؟ اپنی حدود سے تجاوز اور دوسروں کے کام میں مداخلت بھی کرپشن کی اقسام ہیں۔ جب نیب کے جج کئی سال پہلے اخلاقی کرپشن میں ملوث پائے گئے تھے تو اس وقت ملکی خفیہ ایجنسیاں کہاں تھیں؟ جب وہ مجرم کے گھر ملنے جا رہے تھے تو ان کے کسی ساتھی نے اعلیٰ حکام کو اس خبر کیوں نہیں دی؟ اب جب کہ ملک کے اعلیٰ آئینی ادارے کے سربراہ کی اخلاق سے گری ہوئی گفتگو ایک ملزم کی بیوی کے ساتھ ریکارڈ ہوئی ہے تو اس کا مواخذہ کیوں نہیں کیا جا رہا؟

کیوں ہمیشہ حکومت کے خاتمے یا افسر کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہی کرپشن کے الزامات پر مقدمات چلتے ہیں؟ جب اہلکار اور سیاستدان دوران حکومت کرپشن کر رہے ہوتے ہیں اس وقت حکومتی ادارے حرکت میں کیوں نہیں آتے؟ آج تک پاکستان میں کسی اعلیٰ عہدہ پر موجود شخص پر کرپشن کی بنیاد پر مواخذہ کی تحریک پیش کیوں نہیں کی گئی؟ اوراگر پرویز مشرف سمیت چند مثالیں موجود ہیں بھی تو ان پر سیاسی مخالفت کی بنیاد کا الزام کیوں لگتا ہے؟

کیا کرپشن پر صرف سیاست ہی کی جا رہی ہے؟ کیا اس کوصرف مخالفیں کو دبانے کے لئے ہی استعمال کیا جا سکتا ہے؟ جو بھی حکمرانوں کے سامنے جھک جاے، اس کے تمام گناہ معاف اور خدائی دعویٰ کے مطابق توبہ کے بعدان کا شمار نیکیوں میں۔ بھٹو کا قریبی ساتھی، کوثر نیازی اگر آمریت کی چھتری کے نیچے آ جاے وہ پاک۔ نا اہل شخص اگر حکومت سازی میں معاون ہے تو وہ دودھ سے دھلا ہوا اور کابینہ کے اجلاس میں اس کی شمولیت بھی جائز۔ نیب کے سربراہ کے بقول اگر ایسے کرپٹ لوگوں کو پکڑ لیا جاے تو حکومت گر جاے گی۔ یعنی کرپشن کی سیاست صرف حکومتیں بنانے اور گرانے کے لئے ہی استعمال ہو سکتی ہے۔ جب تک کرپٹ لوگوں کی ضرورت ہے ان کے تمام گناہ معاف اور جب وہ سر اٹھانے کی کوشش کریں تو کرپشن کے کلہاڑے سے ان کا سر قلم۔

کیا پاکستان میں کرپشن کی یہ سیاست ایسے ہی چلتی رہے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).