کیا پاکستان کی معیشت کبھی بہتر بھی رہی ہے؟


آج کل تو یہی شور ہے کہ پاکستان معاشی لحاظ سے ڈوب رہا ہے۔ قرض کے گرداب میں پھنس گیا ہے۔ غیر ملکی قرض کی واپسی نا ممکن ہو چکی ہے۔ ہر طرف خسارے منہ کھولے کھڑے ہیں۔ تجارتی خسارہ، بجٹ خسارہ، کرنٹ اکاؤ نٹ خسارہ، اور نہ جانے کس کس خسارے کی بات ہوتی رہتی ہے۔ قرض مانگنے میں بھی پاکستان دنیا بھر میں بدنام ہو گیا ہے۔ پہلے پہل ہم عالمی بنک اور آئی ایم ایف سے قرض لے کر گزارہ کرلیا کر تے تھے لیکن اب قریبی دوستوں کو ملنے کا مقصد صرف کشکول سامنے رکھنا ہوتا ہے اور ہم توقع رکھتے ہیں کہ ایک ہی دوست اس میں ڈھیروں ڈالر دے گا اور قرض کی مے پی کر ہمارے کچھ دن گزر جائیں گے۔ مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ اشیاء کی قیمتیں بلندی کی طرف اڑان بھرتی رہتی ہیں۔ مہنگی انرجی سے تیار ہونے والی ہر شے مزید مہنگی ہوتی جارہی ہے۔

سٹاک مارکیٹ میں مندی اب روزمرہ کا معمو ل ہے۔ پراپرٹی اور دیگر کاروباری لوگ، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ جس سے بھی پوچھو یہی کہتا ہے کہ کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے۔ ملک میں یہ پہلی دفعہ ہؤا ہے ملک کی معیشت کا مکمل کنٹرول آئی ایم ایف کے نمائندوں نے سنبھال لیا ہے۔ اصولی طور پر 6 ارب ڈالر کی منظوری دی جا چکی ہے۔ یہ رقم آئندہ 39 ماہ میں اقساط کی شکل میں وصول ہوگی۔ اسی میں کچھ رقم ایسی بھی ہوگی کہ وہ پاکستا ن آنے سے پہلے ہی سابقہ قرض کی ادائیگی کے لئے کاٹ لی جائے گی۔

یہ جمع تفریق آئی ایم ایف کے مرکزی دفتر واشنگٹن میں ہی ہو جائے گی۔ یہ وہ صورت حال ہے جسے ہمارے نوجوان سن کر مایوس ہو جاتے ہیں۔ اور لوگوں کی اکثریت ایسی ہے جو سمجھتی ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات شروع سے ایسے ہی ہوں گے۔ برصغیر کی تقسیم پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں۔ ابوالکلام آزاد کی 1946 میں کہی باتیں اب سچ معلوم محسوس ہوتی ہیں۔ آزاد نے پاکستان کا مستقبل اچھا نہیں بتایا تھا۔ لیکن جب ملک تقسیم ہؤا تو حالات کافی سال تک بہتر بھی رہے۔ معیشت بھی ترقی کرتی رہی۔ ابتدائی 3 سال ایسے تھے کہ پاکستان کا سالانہ قومی بجٹ فاضل تھا۔ آمدنی زیادہ اور اخراجات کم۔ سرکاری افسر دیانتداری اور جوش و جذبے سے کام کرتے تھے۔ ابتدا میں معیشت کو چلانے والے صرف 3۔ افراد تھے ڈاکٹر انور اقبال قریشی، چودھری محمد علی اور وزیر خزانہ ملک خلام محمد۔ یہ وہ دور تھا کہ اگر دفتر میں کاغذوں کو ٹانکنے کے لئے پن نہ ہوتے تو ببول کے کانٹے استعمال کر لئے جا تے تھے۔

تب کی بیورو کریسی ملک کو چیلنچ سمجھ کر چلایا کرتی تھی ملک کی معیشت اس وقت 53 فیصد زرعی تھی پھر صنعتوں کا جال پھیلانے کا پروگرام بنا یا گیا۔ p i d c جیسا قابل اعتماد ادارہ بنا یا گیا۔ پہلے کارخانہ پی آئی ڈی سی لگاتی جب جالو ہو جاتا تو پھر اسے پرائیویٹ شعبے کے حوالے کر دیا جا تا۔ تمام ضروری اشیا تیار کرنے کے کارخانے اسی اصول کے تحت لگ گئے تھے۔ صدر ایوب کے زمانے پرائیویٹ شعبہ بلا واسطہ بھی آکر سرمایہ کاری کرنے لگا تھا۔ 60 کی دہائی میں صنعت، زراعت، تجارت اور بنکاری جیسے شعبے تسلی بخش طریقے سے آگے بڑھتے رہے۔

مشرقی پاکستان سے پٹ سن اور چائے برآمد ہوتی تھی۔ مغربی پاکستان سے کورس کلاتھ اور دھاگہ برآمد کیا جانے لگا۔ 60 کی دھائی میں زرعی اشیاء بھی کم مقدار میں برآمدی لسٹ میں شامل ہوگئیں۔ یوں برآمدی شعبہ مستحکم ہو گیا۔ نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ دوسرا پنجسالہ منصوبہ توقع سے بڑھ کر کامیاب ہؤا تھا۔ جنوبی کوریا اور دیگر کئی ایشیائی ممالک ہماری طرف حسرت سے دیکھا کر تے تھے۔ 50 اور 60 کی دہائیوں میں اشیاء ضروریہ کے نرخ بالکل نارمل تھے۔ ایک دفعہ آٹے کے نرخوں معمولی اضافہ ہؤا تو حبیب جالب کی نظم زبان زد عام ہو گئی تھی

بیس روپیہ من آٹا

اس پر بھی ہے سناٹا

پھر جرنیلوں نے ایک بڑی غلطی کی۔ کشمیر فتح کرنے کے بہانے بھارت سے 1965 میں جنگ شروع کردی۔ نوجوانوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بھارت سے ہونے والی تمام جنگیں پاکستانی جرنیلوں نے شروع کی تھیں۔ 1965 کی جنگ کے بعد پاک بھارت تجارت مکمل طور بند ہوگئی۔ اس کا نقصان پاکستان اور بھارت دونوں کو ہؤا۔ اور پھر 1970 کا الیکشن، جیتنے والی پارٹی کو اقتدار منتقل نہیں کیا گیا۔ یہ جرنیلوں کی بڑی غلطی تھی۔ 1970 سے پہلے تک پاکستان کے معاشی حالات بہتر تھے۔ عوام خوشحال تھے۔ یہ ہمارے ملک کے ابتدائی 23 سال تھے اس کے بعد کازمانہ مسائلستان کا دور ہے۔ بھٹو نے آکر صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے لیا۔ اگر بھٹو یہ کام نہ کرتا تو پاکستانی معیشت 60 کی دھائی کی طرح ترقی کرتی رہتی۔

بھٹو نے اپنے دور میں کئی اجھے کام بھی کیے۔ ان کا ذکر پھر کبھی سہی۔ 80 کی دھائی امریکی امداد اور قرضوں کی کہانی ہے۔ غیر ملکی قرض اب 115 ارب ڈلر ہو گیا ہے۔ ریاست پاکستان پر اندرونی قرض اس سے بھی زیادہ ہوگیا ہے۔ یہ قرض واپس کرنا اب ناممکن ہو گیا ہے۔ شروعات تو ہماری اچھی تھیں۔ لیکن 72 سال بعد ہم مالیاتی گرداب میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).