نواز شریف کے انسانی حقوق اور پروپیگنڈے کی طاقت؟


ہماری آج کی دنیا اتنی مصروف ہے کہ کسی کے پاس اپنی فیلڈ سے ہٹ کر سوچنے سمجھنے یا تحقیق کرنے کے لیے وقت ہی نہیں ہے اس کا نقصان یہ ہے کہ جس چیز کا جتنا زیادہ پروپیگنڈہ کر دیا جاتاہے لوگ بالعموم اُس کو اتنا ہی سچا یا درست مان لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس طاقت یا اتھارٹی ہوتی ہے ان کی عمومی خواہش یہ ہوتی ہے کہ تمام تر پروپیگنڈہ اُن کی حمایت اور مخالفین کی مخالفت میں ہونا چاہیے بلکہ مخالفین کی تو آواز ہی بالجبر دبا دی جانی چاہیے۔ بلاشبہ سماج میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو فطرتاً حقائق کی پرکھ میں گہرائی تک جاتے ہیں پروپیگنڈے کا اثر لیے بغیر ایسے لوگ سچائی کا ادراک رکھتے ہیں لیکن کم ازکم ہماری سوسائٹی میں ایسے لوگ آٹے میں نمک برابر ہیں۔

سمجھایہ جاتا ہے کہ پروپیگنڈے کا زیادہ شکار ان پڑھ یا سادہ لوح لوگ ہوتے ہیں جبکہ ہمارے محتاط انداز ے میں پڑھے لکھے پروفیشنل لوگوں پر بھی پروپیگنڈہ کی اثر افرینی کسی طرح بھی ان پڑھوں سے کم نہیں ہوتی بظاہر تو یہ لوگ اچھے خاصے سمجھ دار یا سیانے دکھتے ہیں مگر بالعموم اپنی فیلڈ سے باہر ان کا نالج نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے بظاہر دیکھنے یا Assess کرنے میں وہ ان پڑھوں سے مختلف بلکہ داناؤں جیسے دکھتے ہیں لیکن ان کی حقیقی دانائی یا سمجھ بوجھ اپنے پروفیشن تک محدود ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر اگر کوئی ڈاکٹر، انجنئیر، سائنسدان یا ماہر معاشیات ہے اپنے شعبہ میں بلاشبہ وہ قابلیت کے جھنڈے گاڑتا ہو گا مگر لازم نہیں ہے کہ وہ ملک کے سیاسی، مذہبی یا سماجی معاملات میں بھی باریک بینی سے اصل حقائق تک پہنچتا ہو یا اپنے شعبے اور ذاتی مصروفیات سے ہٹ کر اتنا وقت نکال پاتا ہو کہ دیگر قومی مسائل و امور میں اصلیت تک پہنچ سکے لہٰذا ایسے لوگ اپنی تمامتر ڈگریوں کے باوجود قومی سیاسی امور یا دیگر معاملاتِ زندگی میں پروپیگنڈے پر انحصار کرتے ہیں جبکہ ان کے زیر اثر ان پڑھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اتنے بڑے ڈاکٹر صاحب بھی جب یہ کہہ رہے ہیں تو یونہی نہیں کہہ رہے ضرور کوئی نقطہ ہو گا لہٰذا اصلیت یہی ہوگی۔ پروپیگنڈے کے زیرِ اثر چلنے والے ایسے تمام لوگ اُس وقت تک اپنا ذہن نہیں بدل پاتے جب تک کہ دوسری طرف سے خوب دھکے نہیں کھا لیتے اور اُن کا تصوراتی محل ٹوٹ نہیں جاتا کئی تو ٹوٹے محل کے ٹکڑوں میں بھی کسی کرشمے کی امید لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔

وطنِ عزیز کی قومی زندگی میں تین شخصیات کی عظمتوں کے بت ہم نے شدید ترین پروپیگنڈے کے میٹریل سے تیار ہوتے دیکھے ہیں وہ حصول اقتدار کے کس قدر حریص یا پجاری تھے، ملمع کاری میں وہ دیوتا کہلائے جبکہ انسانیت یا انسان نوازی شاید اُن کے قریب سے بھی نہیں گزری تھی مگر پروپیگنڈہ کا طلسم یا جادو ایسا شدید رہا کہ شاید کئی نسلوں تک نہ اتر سکے۔

ایسے لوگ اپنی سیاسی ہی نہیں ذاتی زندگی میں بھی ہٹلر مزاج ہوتے ہیں۔ ہٹلر کے سر پر ظلم و جبر کے سینگ تو نہیں تھے دیکھنے میں وہ عام انسانوں جیسا ہی ایک انسا ن تھا بلکہ اس کی باتیں سنیں تو بادی النظر میں وہ کوئی غیر معمولی انسان دکھتا تھا جرمنی میں اس کی اٹھان کو ملاحظہ فرما لیں اُس کی پرجوش تقاریر سن لی جائیں یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا یہ پر عزم شخص جرمن قوم کے لیے نجات دہندہ بن کر آیا ہے یہی وجہ ہے کہ عوامی سطح پر پروپیگنڈے اور جوشیلے نعروں کا طوفان امڈ آیا تھا۔

یہاں ہندوستان سے حضرت علامہ عنایت اللہ المشرقی جیسی شخصیات اپنی خاکسار تحریک کے ساتھ دیوانی ہوئی بیٹھی تھیں اُس کے ترانے گا رہی تھیں تاریخی طور پر مسلمانانِ جنوبی ایشیاء تو ویسے ہی جذبات سے لبریز دل پھینک لوگ رہے ہیں جوتحقیق و جستجو میں زیادہ مغز ماری نہیں کرتے تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد

علامہ مشرقی اور ہندی مسلمان کیا ان ڈکٹیٹروں کی حمایت میں ترک خلیفہ المسلمین بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے ہمارے اتنے بڑے مفکرِ اسلام علامہ محمد اقبال اپنے وقت کے بدترین ڈکٹیٹر مسولینی سے ملاقات کے لیے کتنے بے چین تھے کہ باضابطہ ملاقات کے لیے اٹلی پہنچے اور پھر انہوں نے اس ڈکٹیٹر کی شان میں جو گیت گائے کیا وہ فسطائیت کے جواز میں نہیں آتے مسلمہ جمہوری قیادتوں میں لاکھ خامیاں ہوں گی پھر بھی ظالم ڈکٹیٹروں سے ان کا تقابل بنتا نہیں ہے کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم؟ بے محل بگڑا ہے معصومانِ یورپ کا مزاج۔

آج ایک مدبر سیاستدان کی شہرت رکھنے والے احسن اقبال نے ہمارے وزیراعظم کے متعلق لب کشائی کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ یہ گوربا چوف ہمارے لیے ہٹلر بننا چاہتا ہے، یہ سن لے ہم اسے ہٹلر نہیں بننے دیں گے۔ احسن اقبال کو غور کرنا چاہیے کہ جس طرح ان کے آپ کو ارسطو کہنے سے آپ ارسطو نہیں بن گئے اسی طرح آپ کے ہٹلر کہنے سے وہ ہٹلر نہیں بن جائیں گے اگر کسی نے انہیں یہ مقام بلند تفویض فرمادیا ہے تو آپ کے جلنے بھننے سے یہ اختتام پذیر نہیں ہو جائے گا آپ مانیں نہ مانیں انہوں نے بالفعل یہ سب بن کر آپ کو دکھا دیا ہے۔

کروڑوں ووٹرز کی حمایت یافتہ مسلم لیگ غور کرے اُس نے آج آپ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ جس کے متعلق کبھی آپ کہتے تھے کہ وہ اپنا نام وزیراعظم رکھ لے ہم اُسے اس نام سے پکار لیا کریں گے اور آپ کے قائد فرما تے تھے کہ یہ منہ اور مسور کی دال میں بھلا اس کے کہنے پر استعفیٰ دے دوں گا۔

اب فرمائیے کیا یہ سب ہوا کہ نہیں ہوا؟ اُس نے آپ لوگوں کو تخت سے تختے تک پہنچایا یا نہیں پہنچایا؟ آپ لوگ لاکھ دلیلیں دیں کہ ہم نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی، کوئی ایک ثبوت آپ لوگوں کے خلاف کسی چھوٹی بڑی عدالت میں ثابت نہیں ہواکوئی دلیل نہیں مل سکی لیکن اُس نے جاندار پروپیگنڈے سے نہ صرف پوری دنیا میں آپ لوگوں کو چھنڈ پھنڈ دیا ہے بلکہ اپنے دونوں بڑے مخالفین نواز شریف اور زرداری کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے پھینکوا دیا ہے۔

بلاشبہ تین مرتبہ وزیراعظم منتخب ہونے والا اور قوم کو بد ترین بحرانوں سے نکالنے والا اگر ہیرو نہیں ہوتا تو پھر ہیرو کہلانے کا مستحق اور کون ہو سکتا ہے؟ یہ سوال بھی بنتا ہے کہ کیا مہذب اقوام اپنے ہیروز کے ساتھ یہ سلوک کرتی ہیں؟ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اُس کے لیے بی کلاس جیل بھی گوارا نہیں کی جا رہی، واشنگٹن کے بھرے جلسے میں اعلان کیا جا رہا ہے کہ میں واپس جا کر اُس کا اے سی اور ٹی وی اتروا دوں گا۔ پھر اُس نے جو کہا وہ کر دکھایا۔

آپ لاکھ کہیں کہ جیل مینوئل کے مطابق یہ بی کلاس قیدی کا استحقاق ہے اورنواز شریف کے بھی انسانی حقوق ہیں۔ شوگر بلڈ پریشر کے مریض دل اور گردوں کی تکلیف میں مبتلا قید ی کے لیے سرکاری ڈاکٹروں کے بورڈ نے ٹمپریچر بہتر رکھنے کے لیے اے سی کی ہدایت کر رکھی ہے لیکن آپ فریاد لے کر کہاں جا سکتے ہیں؟ بوٹ یا ترازو سب اُس کے کھیسے میں ہیں یا وہ ان کے کھیسے میں ہے اور اب وہ خود اُس مقام سے تھپکی لے کر آیا ہے جس کا نشہ برسوں نہیں اترتا شرع محمد ی کے مطابق جان بچانے کے لیے حرام بھی حلال ہو جاتاہے لہٰذا آپ خاکیوں تک کم از کم گھر کو سب جیل قرار دلوانے عربی یا ترکی اپیلیں پہنچا سکتے ہیں یا پھر مولانا فضل کی دکھائی ہوئی راہ پر آسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).