آمرانہ طرز حکومت ملکی مسائل کا حل نہیں


ملک میں ایک غدر مچاہے، سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں سے احتجاج تک، ملک کی ساری اپوزیشن چور، دیانت کے پیکرسارے حکومتی صفوں میں ہیں، چوہدری برادران کل تک وزیر اعظم عمران خان کی نظر میں پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو تھے، ایم کیو ایم کراچی میں تمام برائیوں کی جڑ اور شیخ رشید کی سیاست گالی، لیکن اب سب اچھا ہے۔ نتیجے میں اگر ملک کا بھلا ہوتا ہے تو اعتراض نہیں، لیکن حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی نیت پر شک اب بھی نہیں لیکن استعداد کارکی قلعی کب کی کھل چکی۔

غریب کی بات پرانی ہوئی متوسط طبقے کو بھی دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ ے ہیں۔ تنخواہ دار طبقے کی جیب مہینے کے پچیس دن خالی رہتی ہے، مانگ تانگ کر زندگی کی گاڑی کھسیٹے کھاتے ہوئے یکم تاریخ تک پہنچتی ہے۔ روٹی 15 اور نان 20 کا ہوچکا، پنجاب کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں فری ٹیسٹ کی سہولت بھی ختم کر دی گئی، سابق گورنر اسٹیٹ بینک اور وزیر اعظم کی معاون خصوصی شمشاد اختر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی موجوہ 11 فیصد کی شرح 18 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔

اس وقت ملک میں ہر طرح کا کاروبار عملاً جمود کا شکار ہے، معیشت کی گاڑی تیزی سے پیچھے کی جانب دوڑ رہی ہے، اگر کچھ چل رہا ہے تو وہ بس وزراء کی بے لگام زبا نیں ہیں۔ سوال اپنی وزارت کی کارکردگی کریں تو جواب ملتاہے، گزشتہ دس سال اقتدار میں رہنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے، اس سے پیچھے جانے کی بات بھولے سے بھی زبان پر نہیں آتی کیوں کہ وہ سب ا تحادی بن چکے اور انہی کے سہارے حکومت کھڑی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن کو موثر اقدامات کے ذ ریعے کم ضرور کیا جا سکتا ہے مگر مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہوتا، اگر ایسا ہوتا تو چین میں مالی کرپشن کی سزا، موت ہے لیکن اس کے باجود آئے روز بیوروکریٹس سے لے کر کنٹریکٹرز تک کرپشن کے جرم میں موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں۔

کوئی شک نہیں کہ ملک کے معاشی مسائل گمبھیر ہیں، بے رحم احتساب ناگزیز ہے لیکن عقل و دانش کو بالائے طاق رکھ کر یہ ممکن نہیں۔ کینٹینرز کی تقاریر کا عملیت اور حققیت پسندی سے دور کا بھی واسطہ نہیں، وزیر ا عظم عمران خان ایک سال بعد بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں، بضد ہیں کہ ڈنڈے کے زور پر ہی ملکی مسائل حل ہوں گے۔ مثالیں ملائیشیاء کی دی جاتی ہیں مگر تدبیر کے لیے انا کے پہاڑ سے نیچے اترنے کے لیے تیار نہیں۔ مہاتیر محمد نے ملائیشیاء کو کھڑا کرنے کے لیے پچیس سال لگائے، جیل بھرو پالیسی کے بجائے بتدریج اصلاحات کا ایجنڈا اپنایا، کاروباے طبقے کے ہاتھ مضبوط کیے اورعام آدمی کی زندگی میں آسانیوں کی بنیاد رکھی۔ کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی ہوئی لیکن انتقام نہیں۔ ہر طبقے کو دیوار سے لگا کر ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کی مہم جوئی ملک کو کہاں پہنچا سکتی ہے، یہ مہاتیر محمد جانتے تھے مگر وزیر ا عظم عمران خان نتائج سے نا بلد ہیں۔

جوزف گوئبلز کے دو بنیادی نظریات پر حکومت وقت دل و جان سے عمل پیرا ہے، مخالفین کو ایسے دیوار کے ساتھ لگاؤ کہ ان کی تمام تر توانائیاں اپنے بچاؤ میں ہی صرف ہوں اور تنقید کا خیال بھی دماغ میں نہ آ سکے۔ دوسرا جھوٹ اس تواتر کے ساتھ بولا جائے کہ عوام اسے ہی سچ مان لے، لیکن گزشتہ ایک سال کے دوران ان ہتھکنڈوں سے حکومتی کارکردگی میں کیا بہتری آ ئی؟ اس سوال کا جواب کوئی حکومتی شخصیت دینے کو تیار نہیں۔ وزیر ا عظم اور وزراء ایک ہی راگ آلاپ رہے ہیں کہ 22 کروڑ عوام میں سے صرف چند لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں، یہ اعداد و شمار سراسر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہیں۔

ٹیکس نہ دینا اور ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروا نا (یعنی نان فائلر ہونا) دو الگ چیزیں ہیں۔ پاکستان کے 22 کروڑ عوام صبح آنکھ کھلنے سے رات سونے تک اپنے زیر استعمال اشیاء پر جی ایس ٹی کے ساتھ کئی دہرے ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ ملک کے سات لاکھ ملازمین سے ٹیکس ریاست براہ راست وصول کرتی جبکہ پورے ملک کے نجی اداروں میں کام کرنے والوں کو بھی تنخواہ ٹیکس کاٹنے کے بعد ہی ملتی ہے۔ یوں پورا ملک کسی نہ کسی صورت میں ٹیکس ضرور دیتا ہے لیکن حقیقت ہے کہ رجسٹرڈ ٹیکس فائلرز کی تعداد 20 لاکھ سے زیادہ نہیں۔

عوام کے خود کو ٹیکس نیٹ سے باہر رکھنے کی بڑی وجہ ایف بی آر کا لوگوں کے ساتھ رویہ ہے، جو شکنجے میں آگیا اسی کی کھال اتاری جائے گی جبکہ بڑی مچھلیاں ہمیشہ جال توڑ دیتی ہیں جس کی وجہ سے ملک میں بے نامی جائیدا دوں کا کلچر عام ہے۔ کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا ٹیکس نیٹ ایشیاء میں بھی سب سے کم ہے اور اسے بڑھائے بغیر پائیدار ترقی ممکن نہیں، کوئی شک نہیں کہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کی 30 سے 40 فیصد کمائی ٹیکسوں میں چلی جاتی ہے مگر دنیانے یہ کام ایک سال میں نہیں کیا جیسا کہ حکومت کرنا چاہا رہی ہے۔

الٹا نتیجہ نا امیدی، مایوسی اور مزاحمت کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ کرپشن کے خلاف چھری صرف اپوزیشن کے گلے پر چل رہی ہے، مالم جبہ کیس میں کروڑوں کی مبینہ کرپشن کرنے والے سابق وزیر ا علیٰ خیبر پختونخواہ اور موجودہ وزیر دفاع پرویز خٹک پر نیب مہربان ہے باجود چیئرمین نیب کے اس اعتراف کہ ان کا بچنا ناممکن ہے۔ وفاقی وزیر غلام سرور خان نے گیس بلوں میں پریشر فیکڑ کے نام پر دن دیہاڑے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ مارا اور 25 ارب روپے اضافی وصول کرلیے، وزیر اعظم عمران خان نے رقم عوام کو فوری واپس کرنے کا اعلان تو کیالیکن کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی ان کے ہاتھ خالی ہیں۔

انعام کے طور پر غلام سرور کو سول ایوی ایشن کی وزارت دے دی گئی کہ آپ اب یہاں گل کھلائیں۔ سابق وزیر صحت عامر کیانی نے مبینہ طور پر جعلی ڈگری پر من پسند چیئرمین ڈریپ تعینات کیا اور پھر ادویات ساز کمپنیوں کے ساتھ مل کر ادویات کی قیمتوں 400 فیصد سے زائد کا ا ضافہ کرکے مبینہ طور پر کروڑوں روپے بٹور لیے۔ دیانتدار وزیر اعظم نے نوٹس لیا اور بس وزارت لے کر انہیں کھایا پیا معاف کر دیاگیا، نیب یہاں بھی سویا ہے۔ فرزند راولپنڈی جگت بازی میں مصروف ہیں اور پاکستان ریلوے ایک بار پھر پٹڑی سے اتر چکی ہے، ایک سال میں ریل کے ریکارڈ حادثات ہو چکے ہیں، مگر کمال ڈھٹائی سے دفاع کرتے ہیں۔

ا س سا رے ماحول میں ملک ترقی کے راستے پر چل پڑے تویہ معجزہ ہوگا۔ دہشتگردی کے خاتمے بعد اب وقت تھا کہ ملک میں سیاسی استحکام کے ذریعے معاشی ترقی کا سفر تیزی سے طے کیا جائے لیکن وزیر ا عظم ملک میں سیاسی ہیجان برپا کر کے ٹیکنوکریٹس کے سہارے ملک کو معاشی طاقت بنانے نکلے ہیں۔ ڈالر ایک روپیہ بڑے تو قرض کتنا بڑھ جاتا ہے وزیر اعظم کو اپنے پاکستانیوں کو اب ایک با رپھر یہ ضرور بتانا چاہیے، دھرنے اور سول نافرمانی سے معیشت پر کیسے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس پر بھی روشنی ڈالنی چاہیے۔

بڑے دعووں کے باجود گزشتہ مالی سال کے دوران نون لیگی حکومت کے مقابلے میں ٹیکس وصولیوں میں چار سو ارب روپے کی ریکارڈ کمی ہوئی ہے جبکہ اس بار حکومت نے 5550 ارب روپے کا پہاڑ جیسا ہدف مقرر کیا ہے جسے پورا کرنے کے لیے ٹیکنوکریٹس وزراء ٹیکس وصولیوں کے نام پر ہر عام و خاص کو بلا تخصیص ذبح کرنے پر تلے ہیں۔ ٹیکس کلچر ضرور تبدیل کریں لیکن اس کے بدلے عوام سے جینے کا حق نہ چھینیں۔ آئی ایم ایف کے 6 ارب ڈالر قرض میں سے ابھی 2 ارب ڈالر کی پہلی قسط ہی ملی ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی مہربانی سے ریکو ڈک کیس میں عالمی بینک کے ثالثی ٹربیونل نے ٹیتھیان کمپنی کے کے ساتھ معاہدہ کالعدم قرار دینے کی پاداش میں حکومت پاکستان پر 5 ارب 97 کروڑ 60 لاکھ ڈالر جرمانہ عائد کر دیا ہے۔

اسلام آباد میں باخبر ذرائع کہتے ہیں، ملک کا سیاسی بھونچال مزید تین سے چار ماہ یعنی نومبر کے آخر تک چلے گا، اور اس وقت تک نواز شریف ہوں، مریم نواز، آصف زرداری یا پھر شاہد خاقان عباسی، اپوزیشن رہنماؤں کے مقدمات ا س نہج پر پہنچ جائیں گے جہاں کال کوٹھری سے باہر آنے کی صرف ایک ہی صورت باقی رہے گی اور وہ ہوگی، پلی بارگین ”لیکن یہ سوال اپنی جگہ بدستورجواب طلب رہے گاکہ سلیکٹڈ احتساب کے ذریعے اربوں روپے حاصل کر بھی لیے جائیں تو کیا پاکستان کی معیشت اپنے پاوں پر کھڑی ہو سکے گی یا یہ رقم بھی حکومتی نا اہلی کی وجہ سے ہر روز ہونے والے اربوں روپے کے نقصانات کے سامنے اونٹ کے منہ میں زیرہ ثابت ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).