بیمار بچہ اور دوا


کنجری کی بچی حرام خور اتنی دیر۔ جنید نے چنگارتے ہوئے کہا۔ شازیہ کانپتی ہوئی برف کی ڈھلیاں لائی اور اس کے شراب سے بھرے گلاس میں ڈال دی۔ گزشتہ چھ برس سے وہ یہ اذیت ناک زندگی گزار رہی تھی۔ سانولا رنگ، تیکھے نین نقش اور خوبصورت ٓانکھوں والی اس لڑکی کو نجانے کن گناہوں کی سزا مل رہی تھی جو اس جانور کے ساتھ باندھ دیا گیا تھا۔ جنید رشتے میں اس کا چچازاد تھا۔ شازیہ کے والدین نے بھتیجے کی مالی حیثیت دیکھتے ہوئے اس سے بیاہ دیا تھا۔ نجانے کیوں ہمارے ہاں رشتے ذہنی ہم ٓاہنگی کے بجائے پیسے اور جسم دیکھ کر کیے جاتے ہیں۔

جنید کے رویے کی وجہ اوپر تلے تین بیٹیوں کی پیدائش بھی تھی۔ جنید ٓاپنے علاقے میں دودھ کی سپلائی کا کام کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ کیمیکل اور ٓامیزش شدہ دودھ کی کمائی سے اس نے ڈلیوری کے لئے ایک لڑکا اور گاڑی رکھ لی تھی۔ البتہ حیرانگی کی بات یہ تھی کہ بھینسوں کی تعداد آج بھی اتنی ہی تھی جتنی دس سال پہلے تھی جب وہ چیدہ چیدہ گھروں میں سپلائی دیتا تھا۔ جیند نہ صرف دودھ میں ملاوٹ کرتا تھا بلکہ دودھ کی تیاری ہی کیمیکل سے کی جا تی تھی۔ ہما رے معاشرے میں کینسر اور دوسری کئی جان لیوا بیماریاں ان چیزوں سے ہی پیدا ہو ر ہی ہے۔ والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اپنی اولاد کو یہ نعمت دیتے ہیں نا جانتے ہوئے کہ وہ خود اپنی کل کائنات کو موت کے منہ میں ڈال رہے ہیں۔ ناجانے یہ کیمیکل والا دودھ کتنے گھروں کے باغیچے ویرا ن کر چکا ہو گا۔

میں پیٹ سے ہوں۔ شازیہ کے یہ الفاظ اس کے کانوں پر بہت گراں گزرے۔ شازیہ گزشتہ کئی دنوں سے تھکا تھکا محسوس کر رہی تھی۔ ساتھ جی بھی متلا رہا تھا۔ اب پھر سے وہی خدشات کہ اگر بیٹی ہوئی تو کیا ہو گا۔ پھر سے وہی کرب والے نو ماہ۔ اس رات جب جنید ڈیرے سے آیا تو شازیہ نے ڈرتے ہوئے اسے پاوٰں بھاری ہونے کا بتایا۔ اس بار بھی اگر تو نے بیٹی جنی تو ان کو اٹھا کر اپنی ماں کی طرف چلی جانا۔ جنید نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ وقت گزرتا گیا، جنید نے وہی برتاؤ رکھا۔ البتہ اب گالم گلوچ کے ساتھ ہونے والی مارکٹائی تھوڑا کم ہو گئی تھی۔ کوئی بھی درگاہ ایسی نہ تھی جو شازیہ نے چھوڑی ہو۔ ہر جگہ نازونیاز چڑھائی گئی۔ تینوں بچیاں بھی بھائی کی دعا مانگتی رہتی تھیں۔

زچگی کا درد اٹھا۔ دائی کو بلایا گیا۔ چار گھنٹے زندگی اور موت کی کشمکش کے بعد آخر زندگی کی جیت ہوئی اور ایک چاند جیسا بیٹا ہوا۔ شادی کی مٹھائی کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب جنید کے گھر سے مٹھائی تقسیم ہو ئی ہو۔ بیٹیوں کی پیدائش پر تو مبارک کا لفظ بھی اس پر ناگوار گزرتا تھا۔ جنید اب ڈیرے سے بھی جلد آ جاتا۔ شراب بھی اب کم ہوگئی تھی۔ وقت گزرتا گیا۔ جنید کی مال و دولت کی ہوس اور بڑھ چکی تھی۔ کیمیکل والا دودھ اب قریبی شہر بھی جانے لگا تھا۔ سپلائی کے لئے پوری ایک ٹیم تھی۔

احمر اب سکول جانے لگا تھا۔ سکول لانے اور لے جانے کی ذمہ داری خود باپ پوری کرتا تھا۔ ک ایک دن سکول سے اطلاع ملی کہ احمر سکول میں بے ہوش ہو گیا ہے۔ اسے جنید نے شہر کے ایک بڑے ڈاکٹر کو دکھایا۔ ڈاکٹر سے ملنا ویسے تو بہت مشکل تھا لیکن ڈاکٹر صاحب کے گھر دودھ جنید ہی دیتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اسی بنا پر اس کی سلام دعا تھی۔ احمر کو شدید بخار تھا۔ تین دن کی دوا لکھ دی تھی۔ دوا قریبی میڈیکل سٹور سے لینے کے بعد وہ گاؤں روانہ ہوگے۔

جنید اب ڈیرے پر بھی نہیں جاتا۔ وہ احمر کو اس حالت سے کافی پریشان تھا۔ دوا کوئی خاص کام نہیں دکھا رہی تھی۔ احمر کو اب بخار کے ساتھ الٹیاں اور دست بھی آنے لگے تھے۔ نا دوا کام کر رہی تھی اور نا ہی دعا۔ تیسرے دن حالت زیادہ خراب ہونے پر رات گئے کلینک لے جایا گیا۔ احمر کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔ اس رات کلینک کے دروازے پر احمر نے اپنے باپ کی گود میں آخری سانسیں لیں۔

ڈاکٹر صاحب اس کیس پر کافی حیران تھے کہ کیسے صرف معمولی سے بخار نے ماں باپ سے ایک پھول چھین لیا۔ جنید کو تسلی دیتے ہوئے جب ڈاکٹر صاحب کی نظر دوا پر پڑی تو اپنا سر پکڑ کے بیٹھ گئے۔ یہ وہی جعلی دوا تھی جو اجکل مارکیٹ میں بہتات کے ساتھ موجود تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے جب بوکھلائے ہوئے جنید کہ بتایا تو وہ صرف اتنا ہی بولا ”کیسے کوئی جعلی دوا بنا سکتا ہے یہ تو لوگوں کو بھلا چنگا کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ “

ارسلان اکرم
Latest posts by ارسلان اکرم (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).