امن، مساوات اور محبت کی وادی: سندھ کی تہذیب میں کوئی ہتھیار نہیں ملا


\"mohenjo-daro\"وادی سندھ میں ہڑپہ کی تہذیب سات سو سال تک بغیر کسی جنگ و جدل، ہتھیار، عدم مساوات یا بادشاہی نظام کے پنپتی رہی۔

اگرچہ بہت سے لوگ اس بات کو ماننے سے انکاری ہیں کہ ارضی جنت یا یوٹوپیائی معاشرہ کبھی قائم ہوسکتا ہے مگر زمین پر ایک ایسا انسانوں کا گروہ رہ چکا ہے جو کسی تصادم یا حکمرانوں کے بغیر ایسی زندگی کا خواب پورا کر چکا ہے۔

وادی سندھ کی تہذیب، جو اندازاً 2600 سے 1900 قبل مسیح کے دوران آباد رہی، کے آثار سے ہتھیاروں، جنگ و جدل اور عدم مساوات کے واضح ثبوت نہیں ملتے۔

نیو سائنٹسٹ میں چھپنے والے ایک تفصیلی مضمون \’The Indus: Lost civilisations\’ میں اینڈریو رابنسن کہتے ہیں کہ \”تمام آثار ایک پھلتے پھولتے اور جدید معاشرے کا پتہ دیتے ہیں – تاریخ کے عظیم ترین معاشروں میں سے ایک کا۔\”

سندھ کی تہذیب دریائے سندھ سے لے کر مشرق میں گنگا تک اور جنوب میں بحیرہ عرب تک کے قریب دس لاکھ مربع میل کے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی جہاں آج پاکستان اور ہندوستان کا شمال مغربی حصہ ہے۔

اپنے زمانے کی دوسری تہذیبوں کی طرح سندھ کی تہذیب کل زمین کی دس فیصد آبادی پر مشتمل تھی، دریاؤں کے پاس آباد تھی اور زرخیز زمینوں سے اپنے رزق کا حصول کرتی تھی۔

اب تک وادی سندھ کے ہزار کے قریب مقامات سے آثار قدیمہ دریافت کئے گئے ہیں۔

جہاں ان آثار قدیمہ سے زیورات اور عمارات سے متعلق دیگر اشیا دریافت ہوئی ہیں وہاں اب تک ایک بھی زرہ یا ہتھیار ان آثار سے دریافت نہیں ہوسکا۔

رابنسن کا کہنا ہے کہ سائنسدانوں نے اب تک لڑائی سے متعلق صرف ایک مورتی دریافت کی ہے اور اس میں بھی دیومالائی طور پر ایک دیوی کو بکرے کے سینگوں کی مدد سے ایک شیر سے مقابلہ کرتے دکھایا گیا ہے۔

ان آثار سے گھوڑوں کی موجودگی کا کوئی نشان یا ثبوت نہیں ملا جو بعد میں اس علاقے میں عام طور پر پائے جاتے تھے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دوسرے علاقوں پر حملے کے لئے ان کا استعمال نہیں ہوتا تھا۔

وادی سندھ کو دریافت ہوئے قریب سو برس ہوچکے ہیں (1920) مگر اب تک ایک بھی شاہی محل یا کوئی بڑا معبد دریافت نہیں ہوسکا۔

رابنسن سے گفتگو کرتے ہوئے برٹش عجائب گھر کے سابقہ ڈائریکٹر نیل مکگریجر کہتے ہیں کہ \’جو آثار ہمیں وادی سندھ کے عظیم شہروں کے ملتے ہیں انہیں دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ یہ تہذیب کسی طور پر بھی نہ جنگ و جدل میں مصروف رہی نہ ہی اسے کبھی کسی سے جنگ کا خطرہ رہا۔\’

\’کیا وادی سندھ کے ان شہروں کو کسی شہری یوٹوپیا کی طرح دیکھنے میں کسی مبالغے سے کام لیا جارہا ہے؟\’

اگرچہ نیل اس یوٹوپیائی نظریہ کو قابل اعتبار مانتے ہیں مگر کچھ ماہرین جنگ و جدل کی کلیتاً عدم موجودگی پر شبہ بھی ظاہر کرتے ہیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے عجیب گھر کی لیبارٹری کے ڈائریکٹر رچرڈ می ڈو کہتے ہیں کہ \’ایسی کوئی تہذیب نہیں رہی جہاں چھوٹے یا بڑے پیمانے میں جنگ کی موجودگی نہ رہی ہو۔\’

وہ کہتے ہیں کہ جب تک وادی سندھ کی تہذیب کا رسم الخط سمجھ نہیں لیا جاتا تب تک ہم یہ پورے طور پر نہیں جان سکتے کہ آیا وہ واقعی ایسے دلکش انداز میں رہتے تھے۔\’

اگرچہ بڑے معاشرے مرکزی سلطنت کی حکومت میں چلائے جاتے ہیں مگر آثار بتاتے ہیں کہ وادی سندھ میں ایسا نہ تھا۔

ابھی تک صرف ایک داڑھی والے شخص کی مورتی ملی ہے جسے \’مذہبی پیشوا-بادشاہ\’ کے نام سے جانا جاتا ہے کیوں کہ اس کی شکل ہندو سادھوؤں کی طرح دکھتی ہے۔

اگرچہ وادی سندھ کی تہذیب کسی یوٹوپیائی تصور کی طرح لگتی ہے مگر یہ تہذیب 1900 قبل مسیح کے قریب پر اسرار طور پر ختم ہوگئی۔

رابنسن کے مطابق اس تہذیب کو سمجھنے کے لئے اس کے رسم الخط کو سمجھنا پڑے گا۔

پچھلے سال نیچر میگزین میں شائع ایک مضمون میں اس نے لکھا تھا کہ \’1920 سے اب تک اس رسم الخط کو سمجھنے کی کوئی ایک صد کے قریب کوششیں کی جا چکی ہیں مگر فی الحال اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔\’

رابنسن کے مطابق \’اب زیادہ تعداد میں ماہرین آثار قدیمہ، ماہرین لسانیت اور ڈیجیٹل ہیومنٹیز کے ماہرین کے مابین بڑے پیمانے پر تعاون کی وجہ سے اس بات کا امکان پیدا ہوگیا ہے کہ اس رسم الخط کے کچھ راز معلوم کئے جاسکیں۔\’

گیلری کو دیکھنے کے لئے تصویر پر کلک کیجئے

______________

نیو سائنٹسٹ میں چھپنے والے ایک مضمون کا ملک عمید نے ترجمہ کیا ہے، اس کے لئے ڈیلی میل کے مضمون سے بھی مدد لی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments