موجودہ دور میں تیزی سے بڑھتا ہوا غصہ، وبال جان


آج کے اس تیزی سے بدلتے ہوئے دور میں جہاں ہر شخص دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں سرگرداں ہے وہیں عدم برداشت اور غصہ وباء کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ آئے دن ہمیں ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ ”ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو معمولی اختلاف کی بنیاد پر جان سے مار دیا۔ “ کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ غصہ کی حقیقت کیا ہے؟ کیوں آدمی غصے میں اپنے آپ سے بے خبر ہو جاتا ہے؟ بات نہایت ہی سہل اور آسانی سے سمجھ آنے والی ہے۔

دراصل غصہ کوئی ایسی غیر مرئی طاقت نہیں جو آدمی پر باہر سے اثر انداز ہوتا ہے، یہ تو محبت، نفرت، غم، خوشی اور دیگر جذبات کی طرح ہمارے اندر ہی ہے۔ اللہ تعا لی‌‌ نے تمام مخلوقات میں سے صرف آدم ہی کو یہ صلاحیت ودیعت کی ہے کہ وہ اپنے اختیار سے کسی بھی چیز کو اپنا یا ترک کر سکتا ہے۔ لیکن آج ہم اپنی اس صلاحیت سے بالکل اسی طرح سے ناواقف ہیں جیسے پنگوڑے میں پڑا بچہ دنیا سے لاعلم ہوتا ہے۔

بھئی! غصے کے بارے میں اب کیا کہا جائے، اب تو ہمارے بچے بھی اس جذبے سے مکمل طور پر واقف نظر آتے ہیں۔ لیکن سمجھنے کی بات تو یہ ہے کہ غم و غصہ ہماری فطرت نہیں ہے۔ اگر غصہ ہماری فطرت کا حصہ ہوتا تو ہم اپنے ارادے سے جب اور جہاں چاہتے غصہ کرتے لیکن عام مشاہدہ ہے کہ غصہ اچانک آتا ہے۔ اگر آپ خوش ہیں تو آپ کو غصہ نہیں آئے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعا لی نے مخلوق کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے وہ محبت اور ایثار ہے۔ غصہ اور نفرت نہیں۔ تو ایسی شے جو ہماری ہے ہی نہیں، ہم اسے اجازت کیوں دیتے ہیں کہ وہ ہمیں پریشان کرے؟

اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ:

”جو لوگ غصہ پر قابو حاصل کر لیتے ہیں، اللہ ایسے احسان کرنے والے بندوں سے محبت کرتا ہے۔ “

قرآن کی یہ آیت بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ آدمی کے پاس غصہ پر قابو پانے کا اختیار موجود ہے۔

اللہ کی ایک تخلیق آگ ہے، اس کا وصف پکانا اور جلانا ہے۔ نیت میں اگر خیر ہو تو آگ سے فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے اور اگر شر ہو توآگ سے نقصان کے علاوہ اور کچھ کام نہیں لیا جاتا۔ غصہ بھی آگ ہی کی طرح ہے۔ آگ کو پانی بجھاتا ہے وہ اس لئے کہ آگ پانی کو اورپانی آگ کو قبول کرتا ہے۔

شکر ہے جامہ سے باہر وہ ہوا غصہ میں

جو کہ پردے میں بھی عریاں نہ ہوا تھا سو ہوا

منیرؔ شکوہ آبادی

”غصہ شیطان سے پیدا ہوتا ہے اور شیطان آگ سے پیدا ہوا ہے۔ آگ پانی سے بجھائی

جاتی ہے۔ اگر کسی کو غصہ آئے تو اسے وضو کر لینا چاہیے۔ ”

آگ کا استعمال مثبت اور منفی دونوں ہے۔ غصہ آگ کا منفی رخ ہے۔ آگ میں ہاتھ ڈالا جائے تو وہ جلاتی ہے اسی طرح غصہ طاری ہو جائے تو خون جلتا ہے، غصہ کی آگ پہلے غصہ کرنے والے کے خون میں ارتعاش پیدا کرتی ہے اور اس کے اعصاب متاثر ہوکر اپنی انرجی ضائع کر دیتے ہیں۔ یعنی اس کے اندر قوت حیات ضائع ہو کر دوسروں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ جبکہ اللہ تعالی نوع انسانی کے لئے کسی بھی قسم کے نقصان کو پسند نہیں فرماتے۔

غصہ کی حالت میں آدمی میں موجود توانائی کے ذخائر ضائع ہوتے ہیں اور دوسروں کو اس توانائی سے نقصان کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوتا ساتھ ہی غصہ کرنے والا بلند فشار خون اور اعصابی نظام کی کمزوری کا شکار ہو کر کئی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ غصہ تباہی کے علاوہ اور کچھ نہیں، غور کیا جائے تو ہم غصہ اپنی برتری جتانے اور بات منوانے کے لئے ہی کرتے ہیں یعنی غصہ غرور کا عکس ہے۔ اور غصے سے کبھی کسی کا بھلا نہیں ہوا۔

اگر اسلام کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ دیکھنے میں آئے گا کہ اسلام دین فطرت ہے اور غصہ اس دین حق کا کسی بھی طرح حصہ نہیں ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسلام کی تبلیغ عفودرگزر اور ایثار کے ساتھ کی، غصہ ان کی زندگی کے کسی بھی باب میں دکھائی نہیں دیتا۔ اور یہ بات بھی سچ ہے کہ اللہ تعالی جس بھی چیز سے منع فرماتے ہیں اس میں ان کا اپنا کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں نوع انسانی کے لئے ہی راحت کے ذخائر پوشیدہ ہوتے ہیں، ابھی بھی وقت ہے کہ ہم ٹھہر کر کچھ لمحے اپنی موجودہ زندگی کا جائزہ لیں تاکہ ہماری زندگی تمام نوع کے لئے رحمت کا باعث بن جائے۔

اللہ ہمارا ہامی و ناصر ہو۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).