فواد چوہدری کا اپوزیشن کو مشورہ اور مولانا فضل الرحمان


فواد چوہدری نے کہا ہے، ”مولانا فضل الرحمان مذہبی کارڈ استعمال کر رہے ہیں، پی پی اور نون لیگ ان سے دوری اختیار کرے۔ مدرسہ کے بچوں کو سیاست کا آلہ کار بنایا جارہا ہے۔ “

مولانا ایک مذہبی پارٹی کے سربراہ ہیں، اہل سنت کے مدرسہ دیوبند کے پیرو کار ہونے کے باعث وہ دیوبندی حنفی کہلواتے ہیں۔ دیوبندی ہی تبلیغی جماعت اور طالبان کے مذہبی و روحانی استاد ہیں۔ مولانا دائیں بازو کی سیاست کرتے ہیں اور انتہائی ذہانت سے اپوزیشن اور حکومت، دائیں اور بائیں بازو، دونوں کو ساتھ لے کر، اپنے پشت پناہوں کوبھی خوش رکھ کر، ہمیشہ حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ سیاست دانوں میں وہ اکلوتی مثال ہیں جو انتہائی شاطرانہ چالوں کے ساتھ مخالفین کے لیے مصیبت بن جانے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔

بینظیر بھٹو نے کہا تھا مولانا اگر حکومت میں نہ ہوں تو خطرناک ہو جاتے ہیں۔ ان کی سیاست ہمیشہ حالات اور راولپنڈی کے موسم کے مطابق بدلتی رہی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ وہ حکومت کا حصہ نہیں اور ان کو کوئی اشارہ اور سہارہ بھی نہیں مل رہا کہ وہ اپنی شکست کا بدلہ لے سکیں۔ تحریک انصاف نے ان کے ووٹ بینک میں بھی نقب زنی کی ہے اس لئے وہ اس کے انتہائی خلاف ہیں۔ کے پی کے میں دونوں کا حلقہ انتخاب ایک ہی ہے۔ مشرف کا ساتھ دینے کی وجہ سے جہادی خیالا ت کے حامل مذہبی ووٹر ان سے پہلے ہی ناراض تھے اور ان پر قاتلانہ حملے بھی ہوے۔ اب ان کے حلقہ انتخاب میں جو کہ پختون خواہ سے بلوچستان تک پھیلا ہوا ہے دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں۔ مولانا کو زیادہ تکلیف اس امرکی ہے۔ وہ اپوزیشن کا دور تو گذار سکتے ہیں لیکن اپنے مریدین اور ووٹرز میں کمی برداشت نہیں کر سکتے۔

پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں ان کے زیر اثر مدرسوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جن میں لاکھوں طلبا ان کے اشاروں پر حرکت پذیر ہونے کو تیار بیٹھے رہتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ 2002 کے الیکشن میں ان کے حامی کا گوجرانوالہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن جیتنے سے لگایا جا سکتا ہے۔ 25 جولائی کے کراچی کے جلسہ میں بلاول خطاب کر رہے تھے اور سندھ میں حکومت بھی پیپلز پارٹی کی ہے، لیکن سب سے زیادہ جھنڈے ان کی پارٹی کے تھے۔ الیکشن رزلٹ کے کاتبین کو بھی شکست کی وجہ سے مولانا کے غصہ کا اندازہ ہو گیا ہے اور ان سے روابط میں اس بات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ مولانا جانے دیں، غلطی ہوگئی۔ سینیٹرز بھی شاید اسی لئے بھیجے گئے لیکن مولانا کے سامنے صرف موجودہ وقت کے مفادات نہیں ہیں وہ اپنے حلقہ انتخاب میں پڑی دراڑ کو دیکھ رہے ہیں۔

پاکستان کی سیاست میں مذہبی ہتھیار ہمیشہ جہادی سوچ کے حامل ان گروہوں نے استعمال کیا ہے جو ملک کو سیکیورٹی سٹیٹ بنانا چاہتے ہیں۔ جو ڈیپ سٹیٹ کے حمائیت یافتہ ہیں لیکن عوام الناس میں ان کو پذیرائی کم ہی ملتی ہے۔ پی ٹی آئی نے طاقت کے اسی منبع کو اپنی پشت پر کھڑا کر لیا ہے۔ 2014 کے دھرنا میں مذہبی پارٹی کے پچیس ہزار سے زائدتربیت یافتہ مریدین جو پیر کی ایک زیارت کو لاکھ کروڑ حجوں کے مترادف گردانتے ہیں، مرشد کے ساتھ ڈی چوک میں معتکف ہو گئے۔

پیر صاحب کا دعویٰ تھا کہ ان کو امام حسین کے کربلا کے قیام سے ہدایت ملی ہے اور انہوں نے اپنے مخالفین کو اسی پیرائے میں غاصب قرار دیا۔ غسل شہادت کر لئے گئے۔ سفید کفن اوڑھ کر قبریں کھود لی گئیں اور ایوانوں میں مقیدجمہوریت کو ان گڑہوں میں دبا کروہ دولت سمیٹ کر عازم ”مملکت دولت اسلامیہ“ کینیڈا ہو گئے۔ پی ٹی آئی کا یہ ہتھیار استعمال ہو گیا تو کیا ہوا، ابھی ترکش میں کئی اور تیر بھی موجود تھے۔

اس کے بعد عمران خان نے ختم نبوت کا پرچم اٹھا لیا۔ اس باب میں پارلیمنٹ میں جو بھی پیش رفت ہوئی تھی اس میں شیخ رشید اور پی ٹی آئی سمیت تمام پارٹیا ں شامل تھیں۔ صرف جے یو آئی کے حافظ حمد اللہ نے قابل اعتراض نکتے کی مخالفت کی تھی اور ان کا ساتھ، بعد میں معتوب ٹھہرنے والے، وزیر قانون زاہد حامد نے دیا تھا۔ حکمرانوں کے ایمان اور اسلام کو مشکوک کردیا گیا۔ ان پر اسلام دشمنی کا الزام لگایا گیا اور خود کو اسلام کا اصل نمائندہ بنا کر ”ریاست مدینہ“ کونعرہ کی شکل دے دی گئی۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر مذہب کے رنگوں میں آگ اور خون ملا کر حکومتی عملداری دھواں بنا کر ہوا میں اڑا دی گئی۔

ابھی اور تیر بھی باقی تھے۔ اقوام متحدہ میں نامزد دہشت گرد وں کو ملی پارٹی کی شکل دی گئی اورایک مذہبی گروہ کے ووٹرز کی نمائیندگی کو ڈسٹ بن میں ڈال کر ضائع کر دیا گیا۔ دوسرے گروہ کو لاٹھیاں پکڑا کر سڑکوں پر کھلا چھوڑ دیا گیا۔ یوں مذہبی ہتھیار کو استعمال کر تے ہوے ووٹوں کو تقسیم کرکے، الیکشن میں جیت کی راہ ہموار کی گئی۔

اب زود پشیمان فوادچوہدری، چور، ڈاکو اور لٹیروں کو ہدایات دے کر اپنی پارٹی اور پشت پناہوں کی ان حرکتوں پرشاید پشیمان ہو کر تلافی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مولانا نے جب اے پی سی میں عمران خان کی حکومت کے خلاف مذہب کارڈاستعمال کرنے کی کوشش کی تو نون لیگ کی خاموشی کے باوجود بلاول بھٹو نے اس کی تائید نہ کی اورتقریباً آدھے گھنٹے کی گرما گرم بحث کے بعد اس نقطہ کو چھوڑ دیا گیا۔

مولانا فضل الرحمان، عمران خان کے بقول ڈیزل کے پیوپاری ہیں لیکن خان صاحب کواس بات کا بھی اندازہ ہونا چاہیے کہ ان کو آگ لگانا بھی آتا ہے۔ ان کی اس صلاحیت کو ان کے حواری ہی ڈبیہ میں بند کرسکتے ہیں۔ اب حکومت کو بھی چاہیے کہ ان کو گرفتاری کی دھکیاں دے کر اس آگ کے لئے ایندھن فراہم کرنا بند کرے اور نہ ہی جلتی پر مزید تیل ڈالنے کا سوچے۔ مولانا نواز شریف یا زرداری نہیں ہیں جو چپ چاپ جا کر جیل میں بیٹھ جائیں گے۔

اگر چہ حکومت میں آنے کے بعد عمران خان نے اپوزیشن کے حوالے سے صرف ایک یہی عقلمندانہ کام کیا ہے کہ مولانا کے بارے میں اپنی زبان کو ”تھام“ کر رکھاہوا ہے۔ لیکن مولانا مذہبی سیاست کرتے ہیں اور مذہب ہی ان کا الیکشن میں نعرہ ہوتا ہے۔ اگر چہ وہ انتہائی سمجھدار ہیں اور اس کو نعرہ کی حد سے آگے نہیں جانے دیتے۔ خان صاحب کو چاہیے کہ ان کو مزید مواقع فراہم نہ کریں اور حکومتی کتاب کے ایک صفحہ پر موجود دوسری طاقت پر انحصار بڑھا کر مولانا کو رام کر لیں۔ فوادچوہدری کی ہدایت کے مطابق نون لیگ اور پیپلز پارٹی اب شاید مولانا اور ان کی اسلام آباد آمد کے منصوبہ سے دوری اختیار نہیں کر سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).