بچوں کی بھوک اور مامتا کی کہانیاں


\"hinaکچھ دن قبل یشارکمال کی کہانی”تپتی دھوپ“ بارِ دگر نظرسے گزری۔ یشار کمال کا شمار جدید ترکی ادب کے نمایاں اور صفِ اول ادیبوں میں ہوتا ہے۔ ان کی تحریروں کے بیشتر موضوعات ترکی کی انا طولیہ اور نچلے طبقے کی عوام کی زندگی کے بنیادی مسائل ہیں جو کئی حوالوں سے ہم سے مماثلت رکھتے ہیں۔ ان کی کہانیوں کے ایک مجموعے کا اردو ترجمہ” مسعود اختر شیخ“ نے” راہوں کے ساتھی“ کے نام سے کیا ہے۔ جس میں شامل کہانی”تپتی دھوپ“ طبقاتی تقسیم، سامراجیت، غربت اوربنیادی انسانی حقوق کے استحصال جیسے موضوعات پر اپنی شاندار گرفت رکھتی ہے۔ کہانی کا آغاز غربت کا شکار، مفلوک الحال ماں اور بیٹے کے مابین مکالمے سے ہوتا ہے۔ جس میں مامتا کے ہاتھوں مجبور ماں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے سب سے چھوٹے نحیف و نزاربچے کو جاگیردار کی زمین پر کام کے لئے بھیجنے پر مجبور نظر آتی ہے۔ یہ مکالمہ خاصا پر اثر ہے۔

”اماں کل صبح سے پہلے ہی مجھے جگا دینا۔ “

”تم پھر نہیں جاگو گے۔ “

”نہ جاگوں تو میرے جسم میں سوئی چبھونا ‘میرے بال کھینچنا، میری پٹائی کرنا۔ “

”اور اگر تم پھر بھی نہ جاگے تو؟“

”مجھے مار ڈالنا۔ “

غربت ‘بھوک اور بد حالی کا شکار یہ گھرانہ جس کا ننھا چراغ اس بدحالی کو اپنے تئیں ختم کرنے چلا ہے ۔ خود سے ساری رات نہ سونے کا\"child-labour-pakistan\" عہد لیتا ہے اوراسے نبھاتے نبھاتے نیند کی وادیوں میں اتر جاتا ہے تب علی الصبح اُس کی ماں نہ چاہتے ہوئے بھی اُسے نیند سے اُٹھا نے پرمتذبذب اور مغموم ہے۔

”ہم بھوک سے مرتے ہیں تو مر جائیں۔ ۔ ایک بچے کے کام کرنے سے کیا فرق پڑے گا۔ “

لیکن غربت کے ہاتھوں مجبور باپ جس نے چند سکوں کے عوض مصطفی آغا جیسے زمیندارکواپنی ننھی اولاد کی غلامی کی زبان دی ہے، زبردستی اُسے بھیج دیتاہے ۔ تب نڈھال مامتا بچے کو لے جانے والی کنیز سے بس اتنی ہی منت کر پاتی ہے۔

”تیرے قربان جاﺅں زینب۔ عثمان کو سنبھال لینا۔ وہ بچہ ہے ۔ بس ایک ہڈی اور کچھ گوشت۔ ۔ “

کہانی کا اگلا حصہ بھی ٹھیک ویسا ہی ہے جیسا ہمارے اپنے سماج میں ہوا کرتا ہے۔ جہاں غربت کی بھاری قیمت غریب گھرانوں میں پیدا ہونے والے ننھے طفل بھرتے نظر آتے ہیں۔ جنھیں یا تو روپے پیسے کی خاطر جبری مشقت پہ مجبور کیا جاتا ہے یا پھرتا عمر کسی متمول زمیندار کی غلامی میں دے دیا جاتا ہے۔\"child-labor3\"

”عثمان خرمن اور کٹی ہوئی فصل کے گٹھے بنانے والوں کے درمیان چرخی کی طرح گھوم رہا تھا۔ ۔ چاروں طرف آگ برس رہی تھی۔ عثمان کا رنگ سیاہ ہو رہا تھا۔ اُس کا چہرہ پچکا ہوا تھا۔ اُس کی قمیص پسینے سے تر ہو رہی تھی۔ کہاں وہ صبح کی پھرتی! اب عثمان چلتا تو اُس کی ٹانگیں آپس میں ٹکرانے لگتیں۔ یوں لگتا ابھی گِر کر گھوڑے کے پاﺅں تلے آجائے گا۔ ۔ اُس نے اپنی جان دانتوں تلے دبا رکھی تھی۔ وہ نیچے سے بھی جل رہا تھا اور اوپر سے بھی۔ اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی اُس کے جگر میں تپتا لوہا جھونک رہا ہے۔ ۔ پھرشدید گرمی میں کھانا کھانا۔ ۔ پانی تھا کہ خون کی طرح نیم گرم۔ ۔ “

کہانی کا سب سے تکلیف دہ حصہ وہ ہے جب ننھا بچہ اپنی اجرت پانے کے لئے زمیندار مصطفی آغا کوکئی طریقوں سے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتاہے مگر اس کی بے اعتنائی و بے نیازی کے آگے مجبور اور بے بس ہو جاتا ہے ۔ اس پہ مستزاد اُس کا یہ تکلیف دہ جملہ اور کہانی کا اختتام:

”ارے دیکھو ذرا میری طرف ! میں تو عثمان کو اُس کی اُجرت دینا بھول ہی گیا تھا“۔ ۔ یہ کہہ کرایک پچیس قروش کا سکہ۔ ۔ عثمان کی طرف بڑھایا۔

وہ بھاگتا بھاگتا گھر جا پہنچا۔ پھولی ہوئی سانسیں لیتا ماں کی گردن سے جا چپکا۔\"child\"

”یہ لو۔ “ اُ س نے ماں کو کہا۔

ماں نے پچیس قروش کا سکہ عثمان سے لے لیا۔ ۔ اُسے پانچ مرتبہ اپنے سر سے وار کر چوم لیا۔

آخر میں یشار کمال کا دیا گیا یہ” نوٹ“ دکھ کی اذیت سے تراشیدہ لفظوں کے بوسیدہ تابوت میں جذبات کی آخری کیل ٹھوک دیتا ہے۔

”(نوٹ: جس زمانے میں یہ کہانی لکھی گئی تھی تُرکی کے پچیس قروش پاکستانی پچیس پیسوں کے برابر ہوتے تھے۔ )“

کہانی کا یہ اختتام ہمارے لئے قطعاََ نیا اور انوکھا نہیں۔ ہم لاکھ جھٹلائیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گلوبلائزیشن اورصنعتی ترقی کے اس تیزی سے بدلتے دور میں ہم ابھی تک غربت ‘ جہالت، پسماندگی اور بنیادی انسانی حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جن میں سرِ فہرست بچوں کے حقوق ہیں۔ دنیا بھر میں بچوں کے حقوق ایک بڑے پیمانے پہ تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ریاست کی جانب سے انھیں مہیا کی جانے والی تعلیم، صحت اور دیگرسہولیات و ضروریاتِ زندگی کا خیال رکھا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ 20 نومبر 1989ءکو اقوامِ متحدہ نے بچوں کے عالمی حقوق کے معاہدے کی منظوری دی تھی ۔ اس معاہدے پر پاکستان سمیت دنیا کے 190 ممالک نے دستخط کئے تھے۔ پاکستان نے اس کنونشن \"child-labour\"کی توثیق 21 نومبر 1990ءمیں کی جس کے تحت حکومتِ وقت بچوں کو ان کے بنیادی حقوق دلوانے کی اہل ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تب سے اب تک ہم ان ننھے معصوموں کو ان کے حقوق دلوانے میں کامیاب ہوسکے؟ اگر نہیں توپھر ان وجوہات کا تعین کرنا ضروری ہو جاتا ہے جو اس سوال کی بنیاد میںپنہاں ہیں۔ یقیناََ اس کے لئے ہمیں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں میں جھانکنا ہوگا اور ان اسباب کا سدباب کرنا ہو گا جو ان ننھے پھولوں کو مسخ کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

اس بات سے انکار ہرگز ممکن نہیں کہ بچے بڑوں سے زیادہ توجہ، راہنمائی اور دیکھ بھال کے حقدار ہوتے ہیں۔ در حقیقت ان کا تحفظ، بقائ، ترقی اور عمدہ نشونما بالواسطہ ریاست کے ہی خوش آئند مستقبل سے مشروط ہے۔ لیکن صد افسوس کہ ہمارے سماج میں بچوں کے حقوق سے متعلق کوئی قابلِ ذکر بہتری تا حال نظر نہیں آتی۔ یہ نہایت تکلیف دہ امر ہے کہ ہمارے ہاں بنیادی انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے غربت کے ہاتھوں مجبور محنت کش لوگ اپنے نو عمر بچوں کی فروختگی پہ بھی آمادہ نظر آتے ہیں۔ ریاستی و قبائلی حدود میں ایک بڑی تعداد میں بچوں کی خرید و فروخت، کم سن اور نا بالغ بچیوں کی بڑی عمر کے افراد یا \"945442_f5201\"قرآن سے شادی، غذائی قلت، روز بروز بڑھتی بچوں کے اغوا کی شرح، جسمانی اعضاءکی خرید و فروخت، بھکاری بچے، جنسی استحصال و تشدد نیز عدم معاشرتی تحفظ جیسی خبریں کسی طور بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بلند آہنگ نعروں کا دفاع نہیں کر سکتیں۔

بد قسمتی سے ہمارے ہاں غربت میں پنپتے خاندان بچوں کو اپنی ذاتی ملکیت اور ذریعہ روزگار سمجھتے ہیں اور ان کی کثرت کو اپنی طاقت گردانتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ہماری سماجی بے حسی کا شکار یہ بچے تعلیم، صحت، بنیادی حقوق نیزسماجی تحفظات جیسی بنیادی ضروریات سے مبرا قرار دیے جاتے ہیں اور اپنی اس تکلیف دہ مشقت اور غلامی کی اجرت کوتشدد اور استحصال کی صورت میں یومیہ وصول کرتے ہیں۔ یوں جبری مشقت، تذلیل، تشدد، جنسی و جذباتی استحصال کا شکار یہ بچے ہمارے نام نہاد ترقی یافتہ سماج میں گھروں، دکانوں اورہوٹلوں میں نہ صرف کل وقتی ملازم ہیں بلکہ ان کی ایک بڑی تعداد ہماری فیکٹریوں میں لیبر کا کردار بھی ادا کرتی نظر آتی ہے۔ اسی طرح مفلس اور نادار لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے بچوں کو محض کھانے پینے اورسونے کے لئے ایک چھت کی خاطر مدرسوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیتی ہے۔ جہاں ایک طرف وہ لوگوں کے گھروں میںمسجد کے نام پر دو وقت کی روٹی مانگتے ہیں تو دوسری طرف مدرسوں میں معلمین کی شدید سختیوں کو جھیلتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ غربت اور تنگدستی کے شکار مفلوک خاندان ان ننھے معصوموں کے بل پر عسکریت پسند تنظیموں کو بھرتی کا ایک وسیع میدان بھی \"20130705_04\"مہیا کرتے ہیں ۔

ریاستی سطح پر یہ تمام حقائق ہمیں ماضی سے حال تک بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کی تعلیم اور شعور کو عام کیا جائے نیز ریاست میں بچوں کے حقوق سے متعلق آگہی اور مثبت اقدامات کی حوصلہ افزائی کی جائے نیز ان کی تعلیم، صحت، بنیادی حقوق و معاشی تحفظات کے ساتھ ساتھ تشدد، اغوا، جنسی و معاشی استحصال نیز ہراساں کرنے والے واقعات کے خلاف سخت اقدامات کو یقینی بناتے ہوئے ریاست کو فلاح اور بہتری کی طرف گامزن کیا جائے اور یہ یاد رکھا جائے کہ بچے جو سیکھتے ہیں وہی لوٹاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments