ایسٹ انڈیا کمپنی۔ کچھ حقائق، کچھ غلط فہمیاں


1947 ء کا ہندوستان کا بٹوارا (جس کو بیشتر شعورمند حلقے ”غیر فطری“ قرار دیتے ہیں ) ، ایک دن کی رُوداد نہیں تھی، بلکہ ”وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا! “ کے عین مصداق ایک ایسا واقعہ تھا، جس کے لئے پیدا ہونے والے عوامل کے ذمہ دار خود یہیں کے باشندے تھے، چاہے وہ مانیں یا ناں مانیں! چاہے وہ اُنیسویں صدی کے وسط تک حکومت کرنے والے مغل ہوں، انگریزوں سے دُگنی فوج ہونے کے باوجود ”میانی“ اور ”دُبے“ کے میدان میں جنگ اُن ہی کے حوالے کر کے آنے والے تالپُوروں کے لشکر کے غدّار ہوں، یا پھر موجودہ ہندوستان اور پاکستان کے کئی بظاہر حُبّ الوطن سیاسی کارکن، اِس واقعے (یا پھر کچھ حلقوں کے مطابق ”المیے“ ) کے ذمہ دار زیادہ تر تو یہیں کے لوگ ہی ہیں۔

انگریز نے جو ہتھیار استعمال کرتے ہوئے یہاں پر اپنے پاؤں جمانا اور پَر پھیلانا شروع کیے، اُس ہتھیار کا نام ”اِیسٹ انڈیا کمپنی“ تھا۔ اس نام سے تین کمپنیاں تھیں۔ ایک انگریزوں کی، دُوسری پرتگیزیوں کی اور تیسری فرانسیسیوں کی، جن کی بنیادیں ترتیبوار 1600 ء، 1602 ء اور 1664 ء، میں پڑیں۔ پرتگیزیوں والی اِیسٹ انڈیا کمپنی یہاں سماں دورِ حکومت میں بھی تھی، مگر بعد میں اُس کی ازسرِنو تشکیل ہوئی اور وہ 1664 ء میں نئے انداز میں اُبھری۔

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی، 1600 ء میں باضابطہ طور پر لندن کی پارلیمنٹ سے مشرقی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھنے کے منشور کے تحت وجود میں آئی۔ اس کمپنی کے 217 حصّہ دار تھے۔ 31 دسمبر 1602 ء کو برطانیہ کی رانی ایلزبتھ نے کمپنی کی جانب سے سندھ میں تجارت کرنے کا پروانہ جاری کیا، جس کے بعد 1613 ء میں ”نکولس وتھنگٹن“ نامی مبینہ سوداگر، مگر دراصل ایک جاسوس، کمپنی کی جانب سے سندھ میں تجارت کی غرض سے جائزہ لینے یہاں آیا اور اُسی برس اُس نے اپنی تجارت کی پہلی کوٹھی ہندوستان کے ساحلی شہر ”سُورت“ میں قائم کی، جو اُس وقت کی مشہور بندرگاہ تھا۔

بعد ازاں 1618 ء میں اُس ایسٹ انڈیا کمپنی نے مکران کی بندرگاہ ”جسک“ پر تجارتی کوٹھی قائم کی۔ اُس سے پہلے 1615 ء میں برطانیہ کے بادشاہ ”جیمز اوّل“ کی جانب سے ”سر تھامس رو“ کو ہندوستان میں سفیر بنا کر بھیجا گیا۔ 24 دسمبر 1615 ء کو اس کمپنی کو سندھ میں تجارت کے حوالے سے معلومات دی گئیں، کیونکہ برطانوی کمپنی 1613 ء میں پہلی بار سندھ میں تجارتی کوٹھی کھولنے کی کوشش کر رہی تھی، مگر پورچوگیزوں کے قدم یہاں پہلے ہی جمے ہوئے تھے، جس وجہ سے انگریز اس ضمن میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔

26 اپریل 1630 ء کو برطانوی کمپنی کا ایک نمائندہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے یہاں سندھ میں بھیجا گیا، جو نہ صرف صورتحال معلوم کر کے بلکہ یہاں سے دو گٹھڑیوں میں یہاں بننے والے کپڑے اور نِیل کے نمونے (سیمپل) ، سُورت کے ایجنٹوں کو دکھانے کے لئے ساتھ لے گیا۔ اس سے پہلے 1617 ء میں برطانوی کمپنی نے ہندوستان سے 3 لاکھ 56 ہزار 288 پاؤنڈز کا مال خریدا تھا، جس کی مالیت برطانیہ میں 9 لاکھ 14 ہزار 600 پاؤنڈز تھی۔

اتنا بڑا فائدہ دیکھتے ہوئے اِیسٹ انڈیا کمپنی نے سندھ میں تجارتی کوٹھی قائم کرنے کے لئے اپنی کوششیں تیز کر دیں اور اس سلسلے میں برطانیہ سے ”ڈسکوری“ نامی ایک بحری جہاز ٹھٹہ کے ”لاہری“ نامی بندرگاہ پر آن پہنچا، جس میں تین افراد پر مشتمل ایک تجارتی وفد ٹھٹہ پہنچا۔ ان افراد میں ”ولیم فریملین“، ”جون سیلر“ اور ”رچرڈ موئلی“ شامل تھے۔ اس وفد نے دو مہینے سندھ میں رہ کر کپڑے کے کاروبار کے حوالے سے جائزہ لیا اور اُسی سال کے آخر میں یہاں پہلی تجارتی کوٹھی قائم کی، جس کا صدر دفتر ٹھٹہ جبکہ دو شاخیں (ذیلی دفاتر) نصرپور اور سیہون میں قائم کیں۔

یہ کوٹھی یہاں 27 سال تک سرگرم رہی، جو 1662 ء میں سندھ میں قحط پڑنے کے باعث بند کر دی گئی۔ اُس کے پانچ سال بعد جب سندھ دوبارہ سر سبز و شادا ب خطہ بن گیا، تو 1667 ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہاں دوبارہ کوٹھی کھولنے کے لیے ہاتھ پیر مارنا شروع کیے، جس میں ناکامی کے باوجود اُس کے اگلے برس 1668 ء میں جب کمپنی نے بمبئی کو اپنے قبضے میں لے لیا، تو سندھ میں کوٹھی نا ہونے کے باوجود بھی گورے نے یہاں زبردستی کی بنیاد پر اپنا تجارتی سلسلہ جاری رکھا، اور یہ سلسلہ 1758 ء تک ناجائز طور پر جاری رہا، جب تک کمپنی نے دوبارہ سندھ میں اپنی کوٹھی قائم نہ کر لی۔

اس دوبارہ واپسی میں سندھ کے کلہوڑا حکمران باپ بیٹوں، میاں نور محمّد اور میاں غلام شاہ کلہوڑو کا بہت بڑا ہاتھ ہے، جن سے بہتر تعلقات استوار کر کے گورے نے اپنے مقاصد حاصل کرلیے اور اُن سے دوبارہ کوٹھی قائم کرنے کا نہ صرف فرمان جاری کروایا، بلکہ غلام شاہ کلہوڑو نے تو سفید فام فرنگیوں میں سے انگریزوں پر سے تجارتی محصول (ٹیکس) بھی معاف کر دیا، جنہوں نے یہاں تجارت کے نام پر لُوٹ مار جاری رکھی، اس حد تک کہ 1764 ء میں انگریزوں نے قلمی شورے (جس کو وہ بارود بنانے میں استعمال کرتے تھے ) کی 1254 بوریاں بمبئی روانہ کیں اور کمپنی سالانہ تقریباً 10 ہزار من قلمی شورہ، سندھ سے اُٹھا اُٹھا کر بھیجتی رہی اور اُس نے 1775 ء تک یہ تجارتی لُوٹ مار جاری رکھی۔ جب سندھ میں سیاسی بے امنی پیدا ہوئی اور کاروبار متاثر ہوا، تو گورے کو اِیسٹ انڈیا کمپنی کی تجارتی کوٹھی مجبوراً بند کرنا پڑی۔

در اصل انگریز نے اِیسٹ انڈیا کمپنی، ہندوستان پر قبضہ کرنے کی غرض ہی سے بنائی تھی، جس سازش کا آغاز 1613 ء میں سُورت میں پہلی تجارتی کوٹھی قائم کرنے سے ہوا، جبکہ گورا اپنے مقاصد حاصل کرنے میں 19 ویں صدی کے وسط تک کامیاب ہو گیا، جب وہ پورے ہندوستان پر قابض ہو گیا۔ گویا اگر سوا 2 صدیاں قبل یا اس عرصے کے دوران ہی کہیں اِس خطے کے حکمران اپنے ذاتی عارضی مفادات کو بالائے طاق رکھتے، تو انگریز اس خطے پر کسی صورت قابض نہیں ہو سکتا تھا۔

حالانکہ سندھ میں فرانسیسیوں اور پرتگیزیوں کی جانب سے قائم شدہ ایسٹ انڈیا کمپنیاں پہلے سے کام کر رہی تھیں، مگر برطانوی کمپنی نے اقتصادی خواہ سیاسی حوالے سے دونوں کو ناکام کر دیا اوریہاں اپنا اثر و رسوخ قائم کر کے یہاں کے سفید و سیاہ کے مالک بن گئی۔ حقیقت پسندانہ نگاہ سے دیکھا جائے، تو انگریز 1947 ء میں یہاں سے چلا تو گیا، مگر ہم آج تک اسی کی غلامی میں گزار رہے ہیں، اور شاید ہماری آنے والی ان گنت نسلیں اِسی غلامی میں گزارتی رہیں گی۔

1858 ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی اپنا ”اصل کام“ انجام دے چُکنے کے بعد ختم کر دی گئی اور اس کے تمام تر اختیارات، ہم سمیت، برطانوی تاج کے ماتحت آ گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).