چائے کی پیالی پوشم پوش


بچپن میں سب نے ہی یہ گاتے ہوئے ڈاکو پکڑا ہو گا۔
چائے کی پیالی پوشم پوش
بنگلے کا تالا ٹوٹ گیا

سو روپے کی گھڑی چرائی
اب تو ڈاکو پکڑا گیا

اس چائے کی پیالی کی سیاسی، سماجی اور اخلاقی اہمیت دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہے۔ بڑے سے بڑا معاملہ ”اوور آ کپ آف ٹی“ پے نمٹا دیا جاتا ہے اگر فریقین کو چائے پسند آجائے ویسے بھی چائے کا اہم جز چینی ہے۔ اور شوگر ملز کا پاکستانی سیاست سے گہرا رشتہ ہے۔

اسی طرح ”اسٹروم ان آ ٹی کپ“ ہے۔ یعنی باتیں ایسی کہ لگتا ہو۔ دنیا بدل جائے گی۔ انصاف کا بول بالا ہو گا۔ مجرم، لٹیرے، قاتل اور عوام کو دھوکہ دینے والے منہ کھی کھائیں گے۔ لیکن اب کابینہ پے نظر ڈالیں تو دیگر جماعتوں میں عرصے تک ٹی پارٹی کرنے والے اب یہاں ”صرف ایک چائے کی پیالی“ والی کیبنٹ میں وزیر و مشیر ہیں۔ عوام کو یقین ہے کہ اس چائے کو کچھ خاص وظائف پڑھ کے دم دیا گیا ہے کیونکہ اس کے پیتے ہی وہ تمام افراد سیاسی بپتسمہ سے فیض یاب ہو کے پاک و طاھر ہو گئے جو تیس تیس سال کے داغ دار سیاسی کیرئیر لئے بیٹھے ہیں۔

بپتسمہ کے لئے پانی ہونا ضروری ہے۔ اس کے لئے آتے ہی پہلے تو ڈیم فنڈ جمع کیا گیا۔ اللہ جانے وہ کس نالے میں بہہ گیا۔ مگر حالیہ بارشیں اس وقت ہر نالے میں طغیانی کا باعث بن گئی ہیں۔

ملک بھر میں حالات بدتر ہیں۔ خصوصاً کراچی اور حیدرآباد کی حالت مخدوش و سنگین ہے۔ سڑکیں نہریں بن گئی ہیں، سالوں سے جمع کچرا گاڑیوں کے ساتھ بہہ رہا ہے۔ گھروں میں پانی داخل ہو کے اسی لوئر مڈل کلاس کو برباد کر گیا جو ٹیکس نہیں دیتی۔ ہونا بھی چاھئے تھا۔ آخر کیوں نہیں دیتے ٹیکس!

لیکن یہ صنعتی شہر مجموعی طور میں پاکستان میں سب سے بڑا ٹیکس دینے والا شہر ہے۔ کل سے واویلا مچا ہے کہ اب ڈوبا کہ جب ڈوبا!

جب ”آزاد میڈیا“ نے شہر کا حالِ زار پچاس انچ کے ایچ ڈی ٹی وی پے دکھایا تو ڈی ایچ ائے سے دو نجات دھندہ دورے پے نکلے۔ ان کے ساتھ چند دیگر بھی فوٹیج کے شوق میں ساتھ لگ لئے۔ ایک نالا دیکھا۔ دوسرا دیکھا۔ رستوں سے گزرے۔ میڈیا کو سنگینیِ حالات پے رنجیدگیِ قلبی والا کلپ ریکارڈ کروایا۔

اس محنتِ شاقہ کے بعد یاد آئی، چائے کی پیالی! جس کی تصاویر دیکھ کے مجھے بچپن کے اس کھیل کی تظمین کرنی پڑی۔

چائے کی پیالی پوشم پوش
ندی کا پل ٹوٹ گیا۔
چائے پکوڑے کی دعوت کھا کے
حاکم گھر کو لوٹ گیا

اس شہر کی نظم و انصرام کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ سندھ حکومت ہو، شہری حمایت والی سیاسی جماعت ہو یا وفاق۔ کوئی یہ تلخ گھونٹ پینے کو تیار نہیں۔ سب یہی کہہ کے منع کر دیتے ہیں ”ناٹ مائی کپ آف ٹی“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).