آغا ناصر کی خود نوشت”آغا سے آغا ناصر“۔


طویل عرصے تک کسی بھی سرکاری ادارے سے وابستہ افراد کی آپ بیتی پڑھنا اس دو دھاری تلوار جیسا ہے جس کا ایک سرا کند ہو لیکن یہ پتہ نہ چل سکے کہ وہ کون سا سرا ہے۔ ایک خاص سانچے میں عرصہ دراز تک رہنے کی بدولت محتاط انداز، ڈھکی چھپی بات، خود نمائی کی جھلک، تاریخ کے اہم واقعات کا آنکھوں دیکھا بلکہ ہاتھوں کیا حال اور سب اچھا ہے وغیرہ ایسی خود نوشتوں کا خاصہ ہے۔ شہاب نامہ ہو، فرینڈز ناٹ ماسٹرز یا پھر ان دی لائن آف فائر، اس نوع کی تمام کتب کو ایک خاص تناظر میں دیکھنا قاری کی مجبوری بن جاتا ہے۔ نصف صدی تک پاکستان ریڈیو اور ٹی وی سے وابستہ معروف شخصیت جناب آغا ناصر کی آپ بیتی ”آغا سے آغا ناصر“ بھی ایک ایسی ہی کتاب ہے جوتمام تر احتیاط سے لکھی ہونے کے باوجود دلچسپی کا بھرپور سامان لئے ہوئے ہے۔

کتاب کا آٹھواں باب پاکستان کی کچھ اہم شخصیات کا اجمالی جائزہ ہے جن سے آغا ناصر صاحب کا زندگی کے مختلف ادوار میں واسطہ پڑا۔ آغا صاحب نے قائد اعظم کو ایک گھر کی بالکونی سے اس وقت گاڑی میں گزرتے دیکھا جب وہ کراچی میں اسٹیٹ بینک کا افتتاح کرنے جا رہے تھے۔ لیاقت علی خان کے متعلق بتایا کہ جب وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے اکاؤنٹ میں صرف بارہ سو روپے تھے۔ انہوں نے اپنے امریکا کے دورے کے لئے دو سوٹ سلوائے تو اس پر خاصے اعتراضات اٹھے۔ جس پر انہوں نے ایک جلسہ گاہ میں عزیز نامی ٹیلر کو پیش کر دیا جس نے بتایا کہ ادائیگی لیاقت علی خان نے اپنی ذاتی جیب سے کی اور ایک سوٹ کے پیسے ابھی باقی ہیں جو خان صاحب ادا کر دیں گے۔

حسین شہید سہروردی سے ملاقات میں وہ ایک تہمد باندھے اور بنیان میں ملبوس ایک پہلوان سے مالش کروا رہے تھے۔ ساتھ میز پر ڈھیروں کرنسی نوٹ پڑے ہوے تھے۔ باری باری ملاقاتی آتے، سلام کرتے اور پیسے رکھ کر چلے جاتے۔ بعد میں اس وقت کے وزیر اعظم حسین سہروردی نے بتایا کہ یہ سب رشوت نہیں بلکہ پارٹی فنڈ کی رقم ہے۔ سہروردی صاحب نے راولپنڈی سازش کیس میں ملزمان کی پیروی کی تو ایک موقع پر جج کو ٹوک کر مخالف وکیل اے کے بروہی کے متعلق کہا یہ نہ میرے بھائی ہیں اور نہ ہی فاضل۔ یہ سن کر مخالف وکیل بھی ہنس پڑے۔

اسکندر مرزا کی بطور صدر حلف برداری کی تقریب میں ایک صحافی کو کہتے سنا شکر ہے آج انگریز کی غلامی کا طوق گردن سے اتر گیا۔ سقوط ڈھاکہ سے دو۔ دن پہلے اس وقت کے صدر جنرل یحییٰ کی کال آئی کہ ایک دوست سے شرط لگی ہے خبروں کے بعد یہ گانا لگوا دو۔ کل چودھویں کی رات تھی

ذوالفقار علی بھٹو جب شملہ معاہدے کے بعد لاہور کے ہوائی اڈے پر اترے تو لوگوں کے جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے اپنا کوٹ اتار کر ہجوم میں پھینکا تو چند لمحوں میں کوٹ دھجی دھجی ہو گیا لوگ اپنے محبوب قائد کے کوٹ کی دھجیاں نشانی کے طور پر گھروں کو لے گئے۔ ضیاء الحق صاحب سے پہلے جو لوگ جنرل تھے وہ جنرل ایوب، جنرل حبیب اللہ اور جنرل موسیٰ خان کی طرح دراز قد، با رعب، گورے چٹے اور فر فر انگریزی بولنے والے لوگ تھے۔

ایک صاحب نے ضیاء الحق صاحب کے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے آغا صاحب سے کہا کہ یہ اردو ڈائجسٹ پڑھنے والے جنرل ہیں۔ ایک بار ضیاء الحق لاہور کے دورے پر گئے اور نماز جمعہ کے بعد بادشاہی مسجد سے نکل کر علامہ اقبال کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لئے چلے گئے۔ اس مصروفیت کو خبر نا سمجھ کر خبرنامے میں شامل نہیں کیا گیا تو سینئر خفا ہوئے۔ ان کا فرمانا تھا یہ صدر ضیاء کی نہیں علامہ اقبال کی کوریج کا معاملہ تھا۔ اس کو نہ دکھا کر ٹی وی والوں نے شاعر مشرق کی بے حرمتی کی ہے۔

منو بھائی کا یہ بنایا ہوا لطیفہ کافی مشہور ہوا کہ عرش پر فرشتوں کو حکم ہوا کہ جب کوئی بندہ جھوٹ بولے تو گھنٹی بج جائے۔ کچھ عرصے بعد فرشتہ بہت پریشان ہوا کہ ضیاء صاحب جب ریڈیو یا ٹی وی پر خطاب کرتے ہیں تو گھنٹی مسلسل بجتی رہتی ہے۔ کسی نے جنرل ضیاء کو یہ لطیفہ سنایا تو وہ خوب ہنسے۔ اور گھنٹی پھر بج اٹھی۔ آغا صاحب کے مطابق جنرل ضیاء اور جونیجو صاحب کے اختلافات چھوٹی چھوٹی باتوں پر تھے۔ جونیجو صاحب نے آرمی ہاؤس کے خانساماں کو ہیڈ خانساماں کے عھدے پر ترقی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی طرح ایک مسالچی کو صدر کی سفارش کے باوجود ملازمت میں ترقی نہیں دی گئی۔

آغا ناصر کی محترمہ بے نظیر سے پہلی ملاقات ایس ٹی این کا ایم ڈی بننے کے بعد لاڑکانہ میں ٹی وی اسٹیشن کے افتتاح کے موقع پر ہوئی۔ انہوں نے بڑے فخر سے بتایا کہ اس شہر لاڑکانہ نے پاکستان کو تین وزیر اعظم دیے میں، میرے والد اور میرے دادا جو جونا گڑھ کے وزیر اعظم تھے۔

وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں بی بی سی والوں نے لائیو انٹرویو کی درخواست کی۔ وزیر اعظم اس پر مطمن نہ تھے اور سیکرٹری انفارمیشن کہتے تھے کہ وزیر اعظم شرمیلے ہیں۔ اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر کچھ افسروں نے یہ مسئلہ اٹھایا تو وزیر اعظم نے قریب موجود سی ڈے اے کے چیئرمین سے مشورہ لیا جنہوں نے مزاج کو سمجھتے ہوئے کہا سر آپ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں آپ نہیں چاہتے تو انٹرویو نہیں ہو گا آپ بی بی سی کے اسٹاف میں شامل نہیں۔ وزیر اعظم جواب سن کر خوش ہوئے اور یوں بی بی سی والوں کو انکار کر دیا گیا۔

پنڈت جواہر لال نہرو کے متعلق اسٹینلے وولپرٹ کے حوالے سے آغا ناصر لکھتے ہیں کہ ان کی زندگی کے آخری ایام اچھے نہیں گزرے۔ گردوں کی بیماری نے اس خوبصورت اور وجیہ آدمی کا چہرہ اتنا بدنما بنا دیا تھا کہ پہچانا مشکل ہو گیا تھا۔ انہوں نے اپنا آخری بیرونی سفر اپنی بیٹی اندرا کے ساتھ انگلستان کا کیا لیکن وہ وہاں اپنی محبوبہ لیڈی ماؤنٹ بیٹن کو اپنا چہرہ نہیں دکھانا چاہتے تھے۔ دلیپ کمار سے آغا ناصر کی ملاقات انٹرویو کے سلسلے میں جنرل ضیاء کے دور میں اس وقت ہوئی جب وہ سرکاری مہمان کے طور پر موجود تھے۔

انہی دنوں سانحہ اوجڑی کیمپ ہوا جسے دلیپ صاحب نے ہندوستان میں ہونے والے حادثے کی نسبت سے پاکستان کا بھوپال کہا۔ اردو کی معروف مصنف اور آگ کا دریا کی لکھاری قراۃ العین حیدر سے دلی میں ہونے والی مختصر ملاقات بھی دلچسپ تھی۔ وہ سرکاری کوارٹر نما چھوٹے سے بنگلے میں رہتی تھیں جہاں ان کی ملازمہ اپنی ماں اور بیٹی کے ہمراہ رہتی تھی۔ گھر کا فرنیچر معمولی، دیواریں میلی اور کتابیں بکھری پڑی تھیں۔ یہیں آغا ناصر صاحب نے کوہ دماوند نامی کتاب دیکھی جو قراۃ العین حیدر نے ملکہ فرح دیبا اور انقلاب سے پہلے کے ایران کے متعلق لکھی تھی۔

احمد فراز کے متعلق آغا ناصر کہتے ہیں کہ دلچسپ آدمی تھے۔ جب انھیں ایک پبلشر نے کہا کہ کچھ خواتین کی خواہش ہے کہ آپ اپنی آپ بیتی لکھیں اور ان میں ان تمام خواتین کا ذکر کریں جن سے آپ کے مراسم ہیں تو فراز نے کہا بہت سی خواتین مجھے زیادہ پیسے دینے پر رضامند ہیں جو چاہتی ہیں کہ میں اپنی آپ بیتی نہ لکھوں۔

ایک ساتھی ڈائریکٹر کو خود نمائی کا کافی شوق تھا۔ وزیر اطلاعت کا دورہ ہوا تو وہ اپنا نام لے کر بار بار وزیر صاحب کے ذہن میں اپنا نام رجسٹر کروانا چاہ رہے تھے۔ کہنے لگے سر آپ کوکوئی کام ہو تو پی اے سے صرف اتنا کہ دیں کہ زبیر علی سے ملا دو۔ اور میں نے پی اے کو اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ زبیر علی نہ ملیں تو ان کے اسسٹنٹ سے بات کر لیں کہ زبیر علی نے کہا تھا زبیر علی کی غیر موجودگی میں آپ کو بتا دیا جائے کہ زبیر علی اس وقت موجود نہیں ہیں اور آپ وزیر صاحب کو بتا دیں کہ زبیر علی کسی میٹنگ میں گئے ہوئے ہیں اور جیسے ہی زبیر علی واپس آئین گے آپ کو اطلا ع کر دی جائے گی۔ وزیر صاحب ساری بات سمجھ گئے اور جب جاتے ہوئے زبیر علی صاحب سامنے آے تو مسکراتے ہوئے ہاتھ ملایا اور کہا اچھا صدیقی صاحب پھر ملیں گے۔

ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کراچی بخاری صاحب کو سیکرٹری اطلاعات کا سخت فون آیا کہ مولانا احتشام تھانوی صاحب نے شکایت کی ہے کہ ان کو صبح کی نشریات کے لئے اسی گاڑی میں لایا جاتا ہے جس میں موسیقار بندو خان کو اس لئے آپ معافی مانگیں۔ بخاری صاحب نے کہا میں معافی مانگ لوں گا۔ تین دن بعد فون آیا آپ نے معافی نہیں مانگی۔ بخاری صاحب نے کہا میں نے معافی تو مانگ لی ہے۔ بعد میں معلوم ہوا بخاری صاحب نے مولانا کے بجاے استاد بندو خان سے معافی مانگی تھی۔

کشور ناہید کے متعلق کہا کہ وہ ہر کسی کی خوشی غمی میں شریک ہوتی ہیں اور فوتگی والے گھر سے تو تمام رسومات کے بعد ہی گھر لوٹتی ہیں۔ ایک صاحب کی وفات پر ان کی دو بیویوں اور بچوں میں لڑائی جاری تھی کہ وہاں سے اٹھ گئیں پوچھا کیوں تو بولیں۔ میں وہاں رک کر کیا کرتی وہاں تو غربت تقسیم ہو رہی تھی
نوٹ : بشکریہ ( زاہد کاظمی صاحب ) آغا سے آغا ناصر تک۔ عمر کہانی آغا ناصر پورب اکیڈمی، اسلام آباد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).