سری لنکا چائے کی سر زمین۔ قسط نمبر 5۔ کینڈی شہر اور بدھا کی یادگاریں


میں صبح جلدی اٹھ گیا اور تیار ہو کر ناشتہ کرنے ڈائننگ روم میں پہنچ گیا۔ فارمیسی والی رات کھائی ہوئی گولیوں نے تیر بہف کام کیا تھا جس سے میرا گاؤٹ کا درد بالکل ٹھیک ہو گیا تھا۔ ہال میں ہمارے گروپ کے ابھی صرف چند لوگ ہی ناشتہ کرنے پہنچے تھے۔ ہال میں مغربی ٹورسٹ کی زیادہ تعداد تھی جن کا گروپ بھی شاید جلدی سیر کے لئے نکلنے والا تھا۔ میں جوس کا گلاس اور کچھ فروٹ لے کر ایک میز کے سامنے بیٹھ گیا۔ ایکسکیوز می، کیا میں یہا ں بیٹھ سکتی ہوں۔

میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک گوری خاتون کو کھڑا دیکھا، جو میرے ٹیبل پر بیٹھنے کی اجازت مانگ رہی تھی۔ او۔ یس شیور پلیز۔ میں نے فوراً جواب دیا تو وہ بیٹھ گئی۔ وہ بھی جوس اور پھل لے کر آئی تھی۔ آپ انڈیا سے ہوکیا۔ ا س نے گفتگو کا خود ہی آغاز کیا۔ نہیں، میں پاکستان سے ہوں۔ میں نے اسے بتایا۔ اکیلے ہیں۔ اس نے پوچھا۔ نہیں، ہمارا پورا گروپ ہے، میں نے بتایا اور بینک کے ٹور کے بارے میں اسے بریف کیا۔

اس پر اس نے پوچھا کہ کل رات بیچ پر آپ لوگوں نے ہلا گلا کیا تھا۔ میں نے کہا کہ ہم کچھ دوستوں نے ایسے ہی شغل میلہ لگایا تھا۔ نہیں، وہ بہت اچھا تھا میں اور میری دو دوستوں نے رات وہاں بہت مزا کیا۔ وہ انگلینڈ سے اپنی ایک دوست کے ساتھ ایک گروپ کے ساتھ سری لنکا آئی تھی۔ آج اس کے گروپ نے بھی کینڈی جانا تھا۔ ہم نے انگلینڈ کے بارے میں کچھ گپ لگائی۔ اتنے میں اس کے گروپ کے لوگ باہر نکلنے لگے تھے اس لئے وہ بھی بائی بائی کر کے چلی گئی۔

آج ہمارے گروپ نے بھی کینڈی جانا تھا جس کے لئے ہم نے آٹھ بجے نکلنا تھا۔ اسی لئے میں نے ناشتہ جلدی کر لیا تھا۔ میں نے کمرے میں آ کر تیاری کی اور لابی میں آگیا، ابھی کم لوگ ہی لابی میں پہنچے تھے۔ ٹور منیجر بھی لابی میں آ گیا تھا اور حسب معمول بینک کا بورڈ لے کر کھڑا تھا۔ میں اس کے پاس گیا اور آج کا پروگرام پوچھا۔ اس نے تفصیل سے پروگرام بتایا اور کہا کہ جوجو تیار ہوگئے ہیں وہ باہر کھڑی کوچز میں بیٹھنا شروع کر دیں تا کہ بروقت سفر شروع کیا جا سکے۔ آج کا پروگرام کافی لمبا تھا۔ ہم نے کینڈی کے سفر کے ابتدا میں ایک نباتاتی اور ہربل کے باغ میں رکنا تھا۔ کینڈی پہنچ کر ایک فائیو سٹار ہوٹل میں لنچ کے بعد مقدس بدھا کے دانت والے مند ر کی یاترا کے علاوہ بدھا کے بہت بڑے مجسمے اور کافی ساری جگہوں کی سیر آج کے پروگرام میں شامل تھی۔

حسن۔ عمران گل اور طلعت اکٹھے ہی ناشتہ کر کے آئے اور مجھے دیکھ کر سیدھے میرے پاس آ گئے۔ شاہ جی، آپ تو جانے کے لئے تیار لگتے ہیں، حسن نے پوچھا۔ کوئی شک، میں نے جواب دیا، میں تو ہمیشہ سب سے پہلے تیار ہوتا ہوں۔ یہ تو ہے جناب، طلعت نے اقرار کیا۔ باتیں کرتے ہوئے ہم سب ہوٹل سے باہر نکلے تو سامنے ہی فرنٹ پر بینک کا مونوگرام لگائے کوچز کھڑی تھیں۔ ہم سب سے آگے والی کوچ میں بیٹھ گئے۔ تیس پینتیس لوگ بیٹھنے پر ایک گائیڈ آ گیا اور پانچ منٹ بعد چلنے کا عندیہ دیا۔

پانچ چھ اور لوگوں کے آ جانے پر اس نے ڈرائیور کو چلنے کو کہا۔ آج ہماری کوچ میں کوئی بھی خاتون نہیں تھی۔ ہم ساڑھے آٹھ بجے اپنے ہوٹل سے روانہ ہو گئے۔ موسم آج خوشگوار تھا۔ آسمان پر ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے۔ کینڈی شہر کولمبو سے 120 کلو میٹر دور ہے اور بذریعہ کوچ تقریباً تین گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ ہماراگائیڈ ایک نوجوان تھا اور بہت اچھی انگریزی بولتا تھا۔ وہ راستے میں ہمیں سری لنکا کے بارے میں بتا رہا تھا۔

ہم جس سڑک سے گزر رہے تھے وہ کا فی اچھی تھی لیکن ٹریفک زیادہ ہونے کی وجہ سے کوچ کی رفتا راتنی زیادہ نہیں تھی۔ سڑک کے ساتھ ساتھ آبادی تھی۔ تقریبا ً ایک گھنٹے کے بعد کوچ ایک شہر کے درمیان سے گزری۔ جس کا نام کیگالے kegalle تھا۔ اور یہ کیگالے ضلع کا ضلعی صدر مقام بھی تھا۔ سڑک کے کنارے ہمیں ایک مسجد نظر آئی۔ سبز شیشوں سے مزین باہر سے یہ مسجد خوبصورت دکھائی دی جسے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ اس سے دو تین سو گز کے فاصلے پراسی سڑک پر ایک مندر دکھائی دیا۔ اس کی بیرونی دیواروں پر مختلف دیوی دیوتاؤں کے مختلف رنگوں کے چھوٹے چھوٹے مجسمے نصب تھے۔ چلتی کوچ سے میں نے ہر دو کی فوٹو کھینچ لی۔

اس شہر سے گزر کر تھوڑی دیر بعد کوچ ایک جگہ رکی۔ گائیڈ نے بتایا یہا ں تھوڑی دیر قیام کریں گے۔ آپ یہاں واش روم وغیرہ استعمال کر لیں اور چائے پی لیں۔ یہ چھوٹا سا ایک خوبصورت ریسٹورینٹ تھا۔ صاف ستھرا ماحول اور سب سے بڑھ کر صاف ستھرے واش روم۔ ہم نے یہاں بہت اچھی چائے کا لطف اٹھایا، کچھ فوٹوگرافی کی اور کوچ میں کر بیٹھ گئے۔ ایک گھنٹے کے سفر کے بعد کوچ دوبارہ رکی۔ یہ ایک ہربل پودوں کا نباتاتی باغ تھا۔

ہمیں چلنے سے پہلے گائیڈ نے بتایا تھا کہ ہمیں ایک ہربل اور نباتاتی باغ کی سیر کرائیں گے۔ باہر ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ ہم باری باری کوچ سے باہر آ ئے اور باغ کے گیٹ سے اندر داخل ہوئے۔ سامنے ایک ہال نما کمرا تھا جس کے ایک طرف ایک کاؤنٹر بنا ہواتھا جس کے پیچھے دیوار کے ساتھ بنی الماریوں میں مختلف ادویات پڑی ہوئی تھیں۔ ایک سیلز میں ان ادویات کی خصوصیات بتا رہا تھا لیکن ہمیں ادویات خریدنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لئے ہم کمرے کے دوسرے دروازے سے باہر نکلے۔

وہا ں باغ سے متعلقہ تین چار لوگ کھڑے تھے جو وہاں پر لگے ہوئے پودوں کے بارے میں بتا رہے تھے۔ مجھے دیسی جڑی بوٹیوں میں کافی دلچسپی ہے۔ میں نے ایک آدمی سے ان کے بارے میں پوچھا لیکن کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا۔ ہلکی بارش کی وجہ سے ہم باغ میں اندر تک نہیں گئے اور جلد ہی فارم سے نکل کر کوچ میں بیٹھ گئے۔ ایسی جگہیں ٹورسٹوں سے خریداری کروانے کے لئے بنائی جاتی ہیں اور ٹور آپریٹر لازمی اپنے ساتھ آنے والے سیاحوں کو وہاں لے کر جاتے ہیں۔

ہو سکتا ہے گائیڈ وغیرہ کوکچھ ان سے ملتا ہو یا پھر یہ ایک دوسرے کے بزنس میں مدد بھی ہو سکتی ہے۔ اس بات کا مشاہدہ ہمیں دوسرے ممالک کے ٹور ز میں بھی ہوا۔ یہاں سے نکل کر ہمارا اگلا پڑاؤ مہا ویلی ہوٹل تھا جہاں ہمارے لئے لنچ کا بندوبست تھا۔ مہا ویلی کینڈی کے دریا مہا ویلی کے کنارے ایک خوبصورت فائیو سٹار ہوٹل ہے۔ ہوٹل سے آپ مہا ویلی دریا کا خوبصورت نظارہ بھی کر سکتے ہیں۔ ہوٹل کا ڈائننگ ہال سومنگ پول کے ساتھ ہی ہے۔

حسن۔ طلعت اور میں نے پہلے سومنگ پول کے کنارے فوٹوگرافی کی۔ پھر دریا کا نظارہ کیا اور کھانا کھانے اندر آ گئے۔ بو فے لنچ تھا اور کھانہ بہت ہی مزیدار تھا۔ ہم کھانا کھا رہے تھے کہ ایک ساتھی اونچی آواز میں بولا کہ کھانا کھا تو رہے ہیں، لیکن کیا یہ حلال بھی ہے۔ فوراً گائیڈ کو بلایا گیا جس نے بتایا کہ آپ سب کے لئے حلال کھانے کا آرڈر تھا اور یہ آپ جو کچھ بھی کھا رہے ہیں سب حلال ہے۔ کھانا کھانے کے بعد ہم کوچ میں آ گئے اب ہماری اگلی منزل کینڈی شہر میں واقع بدھ مت کی مقدس یادگاریں تھیں۔ گائیڈ نے بتایا کہ ہم سب سے پہلے شاہی محل میں واقع بدھا کے مقدس دانت والے مندر میں جائیں گے اور اس کے بعد بادشاہی محل اور اس میں واقع دوسری اہم یادگاروں کو دیکھیں گے۔

بدھا کے مقدس دانت کی یادگار مندر

Relic of the tooth of the Buddha

بدھا کے مقدس دانت کی قدیمی یادگار کینڈی شہر میں ایک مندر ہے جو کہ سلطنت کینڈی کے آخری بادشاہ کے محل میں واقع ہے۔ پرانے وقتوں سے لے کر مقدس دانت کی اس یادگار کو سیاست میں ایک اہم مقام حاصل رہا ہے۔ ایک روایت کے مطابق جس کے پاس یہ مقدس دانت ہوتا تھا وہی کینڈی کی بادشاہت کا حق دار ہوتا تھا اسی لئے مقدس دانت کا مالک ہونا بادشاہی کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ بد ہ بھکشوؤں کے دو فرقے ملاؤٹے  اور اسگیریا یہاں روزانہ مندر کے اندرونی حصہ میں عبادت کرتے ہیں۔ یہ عبادت صبح۔ دوپہر اور شام کو کی جاتی ہے۔ بدھ کے دن اس یادگار کو جڑی بوٹیوں اور عرق سے تیار کردا محلول سے غسل دیا جاتا ہے۔ اس محلول کو شفا سمجھا جاتا ہے اور وہاں موجود حاضرین میں تبرک کے طور پر بانٹا جاتا ہے۔

سری لنکا کی قدیم روایتی واستانوں کے مطابق 543 قبل مسیح میں مہاتمہ بدھ کے نروان کے بعد کوشی نگر کے مقام پر اس کے جسم کو صندل کی لکڑی سے تیار کردا چتا میں جلایا گیا۔ بدھا کے ایک شاگرد کھیما کو چتا کی راکھ سے بدھا کا ایک بائیں طرف والا دانت ملا۔ کھیا نے یہ دانت نذرانے کے طور پر اس وقت کے بادشاہ برہمداتا کو پیش کیا۔ یہ مقدس دانت بادشاہ نے اپنے پایہ تخت دانتاپوری میں رکھا۔ یہ مقام آج کے ہندوستان میں اوڑیسہ میں واقع ہے۔ اس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ جس کے پاس بدھا کا مقدس دانت ہو گا وہی بادشاہ ہو گا اس لئے بدھ مت کی قدیم داستانوں کے مطابق 800 سو سال تک اس مقدس دانت کی ملکیت حاصل کرنے کے لئے جنگیں لڑی جاتی رہیں۔ یہ جنگیں دو بادشاہتوں، کالنگا کے گووہاسوا  اور پانڈو کے درمیان لڑی جاتی رہیں ہیں۔

سری لنکا کے جزیرے میں یہ مقدس دانت تیسری صدی کے شروع میں لایا گیا۔ شہزادی ہہیمالی اور اس کے خاوند شہزادہ دھا نتہا اپنے والد بادشاہ گوہا سوا  کے کہنے پر سمگل کر کے یہاں لائے۔ اس کے بعد اس کی حفاظت کی ذمہ داری بادشاہ وقت کی ہوتی تھی اس لئے اسے بادشاہ کے محل کے اندر واقع مندر میں رکھا جاتا تھا۔ بیرونی حملہ آوروں سے ہمیشہ خطرہ رہتا تھا اس لئے اس کی حفاظت کا خصوصی انتظام ہوتا تھا۔ اس کی ملکیت بادشاہی کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ مختلف بادشاہوں کے دور میں یہ مقدس دانت ان کے پایہ تخت کی زینت بنا رہا۔

پرتگالیوں نے جب سری لنکا پر قبضہ کیا تو مقدس دانت بھی اپنے قبضہ میں لے کر اسے دمبارہ میں منتقل کر دیا۔ اس دوران برما کے بادشاہ باگو نے پرتگالیوں کو مقدس دانت کے حوض پچاس ہزار پاونڈ کی پیشکش کی۔ لیکن بات نہیں بنی۔ راجہ سنہا دو ئم  نے اسے دوبارہ حاصل کیا اور اسے پھر سے کینڈی منتقل کیا۔ موجودہ مندر راجہ ویرہ نریندر سنہا ۔ نے تعمیر کروایاتھا۔ اس کی تعمیر کا سہرہ بادشاہی معمار دیوندرہ مولا چاریہ کے سر رہا جس نے اس کی تعمیر اپنی نگرانی میں کروائی۔ 1989 میں جناتھہ پیرامونا اور 1998 میں تامل ٹائیگر کے حملوں کی وجہ سے مندر کو نقصان پہنچا جو اسی وقت ٹھیک کر دیا گیا تھا۔
بادشاہی محل کے بارے میں مزید جانئے اگلی قسط میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).