امریکہ کی جانب سے ایران وزیر خارجہ جواد ظریف پر پابندیاں عائد


جواد

امریکی وزارت خزانہ نے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف پر پابندیاں عائد کر دی ہیں جس کے تحت امریکہ میں موجودگی کی صورت میں ان کے اثاثے منجمد ہو جائیں گے۔

وزارت خزانہ کے سیکریٹری سٹیون منوچن نے پابندی کی وجوہات بتاتے ہوئے جواد ظریف پر الزامات عائد کیے کے ‘وہ ایران کے ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے ایجنڈے کو پھیلاتے ہیں۔’

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

’ویانا ملاقات جوہری معاہدہ بچانے کا آخری موقع ہے‘

ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای پر امریکی پابندیاں

جواد ظریف: ’نسل کشی کے طعنوں‘ سے ایران ختم نہیں ہوگا

دوسری جانب جواد ظریف نے ٹوئٹر کا سہارا لیتے ہوئے اپنا رد عمل دیا اور کہا کہ امریکہ نے ان پر پابندیاں اس لیے عائد کی ہیں کیونکہ وہ انھیں اپنے ایجنڈا کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ‘امریکہ نے مجھ پر اس لیے پابندی عائد کی ہے کیونکہ میں دنیا بھر میں ایران کی ترجمانی کرتا ہوں۔ کیا سچ اتنا تکلیف دہ ہے؟ اس پابندی کا مجھ پر یا میرے خاندان پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ ایران سے باہر میرے کوئی اثاثے نہیں ہیں۔ مجھ کو اپنے ایجنڈے کے لیے اتنا بڑا خطرہ تصور کرنے میں آپ کا شکریہ۔’

https://twitter.com/JZarif/status/1156664257020334081

واضح رہے کہ امریکہ نے ایران کے ساتھ 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے سے خود کو گذشتہ سال الگ کر لیا تھا۔

تاہم خلیجی خطے میں ہونے والے حالیہ واقعات پر یہ خدشہ اٹھ پڑا تھا کہ کہیں اس اہم ترین حصے میں کوئی جھڑپ نہ شروع ہو جائے۔

بدھ کو امریکہ نے چین، روس اور دیگر یورپی ممالک کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے حوالے سے بات چیت کرنے کی چھوٹ میں اضافہ کیا تاہم وائٹ ہاؤس کے سکیورٹی کے مشیر جان بولٹن کے مطابق یہ چھوٹ صرف 90 دن کی ہے۔

امریکہ نے کیا کہا ہے؟

جواد ظریف پر پابندیاں لگائے جانے پر وزارت خزانہ کے سیکریٹری سٹیون منوچن نے مزید کہا کہ ‘اس فیصلے سے امریکہ دنیا بھر کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ ایران کا رویہ ناقابل قبول ہے۔

ایران اپنے ملک کے شہریوں کو سوشل میڈیا تک رسائی دینے سے روکتا ہے اور جواد ظریف ایران کے پروپگینڈا کا دنیا بھر میں اسی سوشل میڈیا کی مدد سے پرچار کرتے ہیں۔’

البتہ بی بی سی کے واشنگٹن ڈی سی کے نامہ نگار گیری ڈوناہیو نے کہا ہے کہ ان پابندیوں کے باوجود جواد ظریف اقوام متحدہ کا دورہ کرنے نیویارک آ سکتے ہیں۔

جواد

امریکی وزارت خزانہ کے سیکریٹری سٹیون منوچن

جوہری معاہدے کا کیا ہوگا؟

سنہ 2015 کے تاریخ ساز جوہری معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کے بعد بقیہ ممالک جن میں چین، فرانس، روس، جرمنی اور برطانیہ شامل ہیں، نے امریکی فیصلے کی مذمت کی اور کہا کہ وہ معاہدے کی پوری پاسداری کریں گے۔

گذشتہ ہفتے یورپی ملک آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ان ممالک کے درمیان مذاکرات ہوئے تاکہ جوہری معاہدے کو بچایا جا سکے۔

میٹنگ کے بعد ایران کی جانب سے ایک سینئیر اہلکار نے کہا کہ ملاقات ‘تعمیری ماحول’ میں ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp