چپ کر غدار، ابھی تماشا جاری ہے


\"hafsaخواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری کے بعد اچانک رہائی تو سب نے دیکھی مگر اسی قصے میں ایک عورت کی داستانِ جرات شاید محبت کی عینک پہننے والوں کو ہی دکھائی دی ہو۔ لوگ کہہ رہے تھے مشرقی پاکستان کے واقعات یاد آ گئے۔ کچھ اسی طرح خواتین کی عظمتوں کو روندا جاتا تھا۔ ان کے محلے والوں کے گھروں کی بھی تلاشی لی گئی۔ انکاونٹر کے بے تاج بادشاہ الماریوں میں چھپے دہشت گردوں کو تلاش کر رہے تھی بستروں میں چھپے خودکش حملہ آوروں کی کھوج کی جا رہی تھی۔ غسل خانوں میں ٹارگٹ کلر ٹوٹیوں میں تلاش کیا گیا۔ باورچی خانے میں چولہے کے پیچھے چھپے را کے ایجنٹ، ملک دشمنی کی چھلنی میں چھانے جاتے رہے، برآمدے میں روشن دان سے تانکا جھانکی کرتے مجرم تلاش کئے گئے مگر مہمند ایجنسی میں چالیس سے زائد لاشیں تو کب کی گر چکی تھیں۔ سارا میڈیا خواجہ اظہار الحسن کی داستان کی بانسری بجا رہا تھا۔ بےچاروں کا بھی کیا قصور؟ آقاؤں کے حکم کی نافرمانی کرنے پر بول ٹی وی جیسا سانحہ بھی رونما ہو سکتا تھا۔

چالیس لوگ بھون دئیے گئے مگر کسی شریف نے ایک چوں بھی نہیں کی۔ رات کو ٹالک شوز میں بھی یا اظہار یا اظہار کا ورد کیا جا رہا تھا۔ وہ تو احسان ہے ان کافروں کا جن لوگوں نے سوشل میڈیا جیسا دجال ہمیں عطیہ کیا۔ ان ہی کافروں کی بدولت ہمیں وہ واقعات بھی دکھائی دیتے ہیں جو گھر کے بڑے دکھانا تو دور کی بات، سننا بھی پسند نہیں کرتے۔ بےرخی کی حد ہے۔ ایسا امتیازی سلوک کیا جاتا ہے جیسے مہمند ایجنسی اس ملک کا حصہ ہی نہیں ہے۔ وہ تو سلیم صحافی جیسے درد مند ہیں جو آواز اٹھا لیتے ہیں۔

اس سے کہیں زیادہ دل خراش بات یہ ہوئی کہ مسجد میں انسانیت سوز واقعے کا دکھ توتھا ہی لیکن آج شہدا کی فہرست دیکھی تو دل پر جیسے قصاب نے پے در پے چھریوں کے وار کئے ہوں۔ انسان مرے تھے، اور پھر اپنے ملک کے انسان۔۔۔ 36 شہدا میں نو سے سترہ سال تک 16 بچے شامل ہیں اور ان میں صرف ایک شہید کی عمر 30 سال سے زائد ہے۔ سانسیں رک سی گئی۔ اپنے وطن کے بہتے لہو کی کوئی قیمت کیا، احساس تک نہیں۔ خون کی ندیاں دیکھ کر اب برداشت نہیں ہوتا۔ مگر بات کون کرے۔ غم ہی بانٹ لو۔ چند دانشور مجھے کہتے ہیں کیا ضرورت ہے تمہیں اتنا سوچنے کی۔ ان کے معاملات میں مت بولو ، آواز دے کر مصیبت بلانے سے کیا فائدہ۔ اپنی زندگی کے بارے میں سوچو۔ باہر کے مسائل اپنے گھر مت لاؤ۔ مگر مجھ سے خون بکھرا دیکھ کر چپ نہیں رہا جاتا۔ چپ رہنے والا بھی اتنا ہی ظالم ہے۔ اگر ہماری قوم اپنے اپنے حصے کی بےحسی توڑ دے تو شاید کچھ ہو سکے۔ یہاں سوال کرنا جرم ہے، گناہ ہے مگر بولو ورنہ ایسے لاشیں اٹھاتے رہو۔ کل کو ہمارا لاشہ ہماری ہنسی نہ اڑا رہا ہو۔ ہم اگر سوال کر لیں تو مذہب خطرے میں ورنہ حق بول دو تو را جیسی پھوپھو گلے میں باندھ دی جاتی ہے مگر انسانی فطرت ہے سوال کرنا اور میں فطرت جیسی حس کو نہیں کچل سکتی کیوں کہ یہ ناممکن ہے۔

چند دن پہلے ملک دشمنی کے سرٹیفیکیٹ گلی گلی ناچ رہے تھے اور اگلے بچھڑے یہ منظر دیکھ کر گاڑیوں کے اگلے پیچھے شیشوں پر پرچم چپکا رہے تھے۔۔۔ لے بھئی محب وطنیاں پوری ہوئی۔ مگر کیا کسی نے سوچا وہ کون لوگ ہیں جو آج نعرہ لگا رہے ہیں اور وہ کل کن کے ساتھ تھے؟ پہلی آواز آئی چپ کر غداروں کا دفاع کرتی ہے۔ نہیں رے میری اتنی جرات میں صرف سوال کررہی ہوں۔ کیا اس پر بات بھی نہیں کی جا سکتی؟ گزشتہ چند دن پہلے الطاف حسین کے معدے میں شدید دکھن ہوئی اور تکلیف برداشت سے باہر ہوئی تو وہ پھٹ پڑے اور غداری کا نعرہ تشدد کی آہ بن کر نکل پڑا۔ بعد میں معافی تلافی بھی چاہی مگر یہ عامر لیاقت یا جنید جمشید جیسے مولوی تھوڑی ہیں جو گستاخی کرنے پر معافی مانگنے پر معاف کر دیے جائیں یہ لوگ تو شیخوپورہ کی آسیہ بی بی ہیں جناب! مجھے بھی بارہ مئی نے ستایا مگر یاد مشرف صاحب بھی آ گئے۔ ارے نہیں انکی ریڑھ کی ہڈی میں درد ہے۔ دبئی علاج کے لیے گئے تھے مگر شاید اپنا اور پچھلوں کا سارا درد حق پرستوں کی جھولی میں ڈال کر نکل لیے جو مہروں پٹھوں کے شدید درد میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اور جب چیخ نکلتی ہے تو رینجرز والی سرکار اٹھا کر لے جاتی ہے اس کے بعد اگلی چیخ تاریک راہوں میں ماری جاتی ہے۔ اگر مخالف بیانوں پہ نظر ثانی کریں تو تھوڑا سا زور کا جھٹکا دھیرے سے لگتا ہے۔ ایسے تو لاتعداد سیاستدانوں نے نعرہ لگایا ہے جیسے عمران خان ایک ویڈیو میں غداری کا مظاہرہ کرتے کہہ رہے تھے کہ بیس ہزار لوگ سڑکوں پے آجائیں تو فوجیوں کا پیشاب نکل جاتا ہے۔ میں تو سن کر سُن ہی رہ گئی ایسی باتیں ہمارے مقدس ادارے کے بارے میں توبہ! اسفند یار ولی تو ایک بار کیا بار بار دیکھو والے بادشاہ ہیں۔ سارے سچ ایک ساتھ بول دیتے ہیں مگر پھر زمینی خداوں کی جانب سے طالبان اور عمران خان جیسا عذاب نازل کیا گیا۔ بادشاہ خان نے تو اس وطن میں اُسی وقت دفن ہونے سے ہی انکار کردیا تھا برہمداغ بگٹی سرحدیں پار کر کے ہر حد پار کرگئے۔ ہم یہاں محترمہ فاطمہ جناح جیسی شخصیت پہ ہندوستان دوستی کا الزام لگاتے تھے، ان لوگوں نے تو باقاعدہ ہندوستان سے کھلے عام مدد مانگ کر کل کے الزام کو سچ ثابت کر دیا۔ پھر بچپن سے ایک ضیف جملہ یاد آیا۔ ادارے اور میڈیا ان کو ناراض بھائی کہتے تھےمگر اب بات دشمنی تک پہنچ گئی۔ اسی دوران محمود خان اچکزئی نے کہا جو پشتون پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگائے گا، وہ بےغیرت ہے۔ ٹھیک اسی طرح مولانا شیرانی نے بھری پارلیمنٹ میں جو کہا ؟ پھر سب سے پہلے بھارت کی ایجنٹ ہونے کا الزام محترمہ فاطمہ جناح پہ لگا تھا۔ ان کا قصور شاید اتنا تھا کہ انکی جرات کیسے ہوئی کہ وہ فیلڈ مارشل کے مدمقابل الیکشن لڑنے نکلیں؟

سمجھ سے بالاتر یہ بھی ہے کہ ہندوستان لاہور سے اتنا قریب ہے کہ حملہ کرتے وقت ہندوستان نے بھی پڑوسی ہونے کے ناتے لاہور پر پہلے چڑھائی کردی تھی مگر یہ احمق را کے ایجنٹوں کو ہوا کیا ہے کہ پورے ملک میں پھیل گئے ہیں۔ کوئٹہ میں ایف سی کی جگہ جگہ چیک پوسٹیں پھلاگنے کی جرات رکھتے ہیں کراچی میں تو انکا پورا نانیہال آباد ہے۔ خیبر پختون خوا میں تو نوے فیصد اپریشن مکمل ہوتا ہے مگر سو فیصد کئی برس سے لٹکا ہے اسکے باوجود پے در پے دھماکے اور لاشیں ہم اٹھائے جارہے ہیں اگر ریاست کی کارکردگی پر سوال کرلو تو غدار! ارے بھئی کوئی مجھے بتلائے ہم آپ کو اپنی حفاظت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو سوال کیوں نا کریں ۔گھروں کے غسل خانوں کی ٹونٹی سے ایک دن تھوڑا پانی زیادہ آجائے تو بوٹ پالیشے شکریہ، شکریہ کا ورد کرتے گلیوں مین نکل آتے ہیں۔ اگر ٹی وی پر را کے ایجنڈوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں لہو بہتا نظر آئے تو سارا ملک گو نواز گو، نواز شریف بائے بائے کے نعروں سے گونج اٹھتا ہے۔ یہی رویہ ہمارا مسلسل سے چلتا آ رہا ہے کبھی کارگل کے واقعے میں مشرف ہیرو قرار دئیے جاتے ہیں پھر ان سے نجات کی خوشی میں میڈیا اور پوری قوم خوشی سے جھوم اٹھتی ہے۔ وہ وقت بھی اگر یاد ہو جب ایوب اچانک ایشیا کے شیر سے ایک اور چوپائے مین تبدیل کر دیے گئے تھے۔ پھر ضیاء کو کون بھول سکتا ہے جو مرد مومن مرد حق کے نعروں مین  رخصت ہوئے۔ ہر دس سال بعد یہی سب ہوتا رہا ہے۔ شکور کے گھر میں چوری ہوئی تھی تو منصور چوکیدار کو سب نے مارا مگر پاکستان میں جب بھی چوری ہوتی ہے تو سب منصور کو ایک طرف ہٹا کے شکور کو پیٹنا شروع کردیتے ہیں ۔

دور حاضر کا مورخ کتنا بھی سچا ہو، پورا سچ لکھنے کی جرات کرتے وقت اس کو سب سے پہلے یہ سوچنا ہوگا کہ یہاں سچ لنگڑا کر بھی نہیں چل سکتا۔ سائبر کرائم بل بھی موجود ہے، غداری کا بہتان بے کھٹکے لگایا جا سکتا ہے اور ملک دشمنی کا تمغہ سستا ہو گیا ہے۔

تاریخ میں لکھا جائے گا کہ جب پاکستان میں مشکل وقت آیا تو ہم میں سے آدھے غدار تھے، آدھے محب وطن تھے اور یہ جاننا مشکل تھا کہ ہم میں سے کون لکیر کے کس طرف کھڑا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments