چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی: ’104 ارکان کے ایوان میں 37 ووٹ لے کر آنے والا شخص کیسے چیئرمین رہ سکتا ہے؟‘


سینیٹ

بظاہر حزبِ اختلاف سینیٹ میں اپنی اکثریت کا حق استعمال کرنا چاہتی ہے

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کے لیے ایوانِ بالا میں ووٹنگ آج متوقع ہے جس میں حزبِ اختلاف کی جانب سے 65 ارکان شامل ہو کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے۔

اس بارے میں پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے وزارتِ پارلیمانی امور کی سمری پر آج دو بجے سینیٹ کا اجلاس بلایا ہے۔

یکم اگست آنے سے پہلے ہی اس بارے میں سوالات اٹھنا شروع ہوگئے تھے کہ کیا چییرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دیا بھی جائے گا یا نہیں؟ اور اگر ووٹنگ ہوتی ہے تو اس میں سینیٹرز کی موجودگی کو کیسے یقینی بنایا جائے گا؟

اسی حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بدھ کے روز ظہرانہ دیا جس میں تقریبا 53 سینیٹرز نے شرکت کی جبکہ سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے ووٹنگ کے عمل پر بات کی۔

لیکن اس کے ساتھ ہی حکومت کی جانب سے قائدِ ایوان سینیٹ شبلی فراز کی جانب سے ایک واضح مؤقف یہ آیا کہ ’ووٹنگ اپنے طے شدہ وقت پر ہوگی۔‘

اس سے پہلے پاکستان تحریکِ انصاف کے اعظم سواتی کے بیان پر قیاس آرائی ہوتی رہی لیکن وہ پاکستان کے صدر کی جانب سے اجلاس طلب کرنے کے بعد ازخود دم توڑ گئیں۔

قیاس آرائیوں پر بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر شیری رحمان نے کہا ’یہ تو حکومت کا وطیرہ ہے کہ وہ ہر کچھ دنوں بعد کوئی نئی گپ چھوڑتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں قرارداد میں مسئلہ تھا۔ اب جبکہ بیلٹ پیپرز جاری ہوچکے ہیں، پریزائیڈنگ افسر نامزد ہوچکے ہیں تو اب حکومت ووٹنگ ہونے سے نہیں روک سکتی سوائے قیاس آرائی کرنے کے۔‘

اسی حوالے سے جب چیئرمین سینیٹ کے متبادل کے طور پر نامزد امیدوار نیشنل پارٹی کے لیڈر حاصل بزنجو سے بات کی گئی تو انھوں نے کہا ’ہمارے ایک سینیٹر کے سوا سب موجود ہیں جس کے بعد اب ہمارے سینیٹرز کی تعداد 65 ہے۔ اب ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ میں چیئرمین سینیٹ کو یہی تجویز دوں گا کہ وہ بیلٹنگ سے پہلے استعفٰی دے دیں۔‘

انھوں نے کہا ’چیئرمین سینیٹ بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے جو اس وقت حکومت میں ہے۔ آپ خود بتائیں کہ 104 ارکان پر مشتمل ایوان میں 37 ووٹ پر آنے والا شخص کیسے رہ سکتا ہے؟‘

حاصل بزنجو

حاصل بزنجو کی چیئرمین سینیٹ کو تجویز ہے کہ وہ بیلٹنگ سے پہلے استعفٰی دے دیں

چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے سے کیا فرق پڑے گا؟

اب تک حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں نے ایک بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ محرکات تبدیل ہوچکے ہیں جس کی بنیاد پر پاکستان پیپلز پارٹی نے بلوچستان کے صوبے سے تعلق رکھنے والے صادق سنجرانی کو اپنی ہی پارٹی کے رضا ربانی کو سینیٹ کے انتخابات میں ترجیح دی تھی۔

لیکن چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے سے کیا مقصد حاصل ہوگا، اس بارے میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کی مختلف آرا ہے۔

اس بارے میں شیری رحمان نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے سے ایک بہت واضح فرق پڑے گا۔

’وہ فرق یہ ہے کہ پارلیمان میں اکثریت جماعتیں اپنا حق استعمال کرتی ہیں تو اس سے اجتماعی دانش کی نمائندگی ہوتی ہے، اُن کا حوصلہ بڑھتا ہے۔ لوگوں میں یہ تاثر جاتا ہے کہ ہر صوبے کے لوگوں کی نمائندگی کی جارہی ہے بجائے صرف ان لوگوں کے جن کا حکومت سے تعلق ہے۔‘

انھوں نے کہا ’جب رضا ربانی چیئرمین سینیٹ تھے تب ماحول ہی کچھ اور تھا۔ اب ہم اسی ماحول کو آگے لے جانا چاہتے ہیں۔چاہتے ہیں کہ احتساب ہو، ہمارا بھی ہو۔ ہم اپنی اکثریت کا حق استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اور کسی بھی طرح سے اپنی اکثریت کا غلط فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے اور یہی ماحول ایوان میں لانا چاہتے ہیں۔‘

اس بارے میں سینیٹ میں حزبِ اختلاف کے لیڈر راجہ ظفرالحق نے بی بی سی کو بتایا کہ چیئرمین سینیٹ منتخب نمائندوں کی اکثریت کا نمائندہ ہوتا ہے۔

’اگر اکثریت جماعتوں کا اُس پر اعتماد ہی نہیں تو پھر اس کا سینیٹ میں ہونے کا کیا فائدہ؟ ٹھیک ہے کہ ایک جماعت اِن کو لانے میں پیش پیش تھی اور پھر انھوں نے اپنا رویہ بدل لیا۔ اس جماعت کے 21 سینیٹرز ہیں جن کے ساتھ اب باقی ارکان بھی شامل ہیں اور آپ اُن کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اب آپ اکثریت کے چیئرمین نہیں رہے۔‘

انھوں نے کہا ’ایسے لوگوں کو پھر سینیٹ میں رکھنا قانون کی تضحیک کے مترادف ہے۔ اکثریت کی نمائندگی کرنے والا سینیٹ کا چیئرمین بنتا ہے نہ کہ وہ جس پر کسی کا اعتبار نہ ہو۔ ہم ایسی غلط مثال نہیں بنانا چاہتے اور اس سے فرق پڑتا ہے۔‘

چیئرمین سینیٹ کے پاس کیا اختیارات ہوتے ہیں؟

ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کا چیئرمین ہونا ایک طاقتور عہدہ ہے جس کے تحت وہ ایوان کے قوانین کے تحت اجلاس طلب کرتا/کرتی ہیں، حکومت اور حزبِ اختلاف کے ارکان کو بلا تفریق اجلاس کے دوران تقریر کرنے کا اور اپنی بات رکھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔اور ساتھ ہی صدر کی ملک میں غیر موجودگی میں بطور ایکٹنگ صدر کام بھی کرتے ہیں۔

صادق سنجرانی

صدر کی ملک میں غیر موجودگی کے دوران چیئرمین سینیٹ بطور قائم مقام صدر بھی کام بھی کرتا ہے

چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا طریقہ کار کیا ہے؟

یاد رہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے حال ہی میں چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے خلاف سیکٹیریٹ میں قرارداد جمع کرائی تھی۔ اس قرار داد میں 26 سینیٹرز کے دستخط درکار تھے اور حزبِ اختلاف کے پاس اس سے دُگنی تعداد میں سینیٹرز موجود تھے۔

اس کے برعکس حکومت نے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کو ہٹانے کے لیے بھی تحریک جمع کر دی۔

آج سب سے پہلے سینیٹ میں قرار داد پیش کی جائے گی اور اس پر بحث ہوگی۔ بحث کے دوران تحریک پیش کرنے والے 26 دستخط کنندگان کو اپنی اپنی نشست (کے سامنے) کھڑے ہونے کی ضرورت ہوگی اور اجازت ملنے پر قرار داد زیرِ بحث آئے گی۔ قرار داد پر ہر رکن کو پانچ سے سات منٹ دیے جائیں گے اور چیئرمین سینیٹ کو بھی تقریر کرنے کا موقع دیا جائے گا لیکن اگر ارکان تقاریر نہیں کرنا چاہیں گے تو پھر براہِ راست ووٹنگ کی جائے گی۔

اس بارے میں رضا ربانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’سات دن کا نوٹس دیا جائے گا۔ سینیٹ پر اس کا اطلاق تب ہوتا ہے جب آپ اس کو آئین کی شق 61 کے ساتھ پڑھتے ہیں کیونکہ آرٹیکل 61 میں ہے کہ قومی اسمبلی کی شرائط کا اطلاق سینیٹ پر بھی ہوگا لہذا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئین سے جنم لیتی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp