ایک عام مشرقی مرد کے لیے عورت یا کنیز ہے یا ایک سیکس ڈول


آداب ڈاکٹر خالد سہیل صاحب
مجھے گل رعنا کہتے ہیں۔ میرے اصلی نام سے خیر کیا لین دین۔

میں آپ کے کالمز بلکہ یوں کہئے مسائل حل کرنے کے مصالحے ہم سب پہ ریگولر پڑھتی ہوں۔ سوچا شاید آپ کے پاس میرے جیسی عورت کے لئے بھی کوئی نسخہ وفا موجود ہو۔ سو اس کے لئے رابعہ الرباء جیسے تو خیر نہیں اپنے جیسے ایک خط کی ضرورت ہو گی۔ جو حاضر خدمت ہے

میں اپنے شعبہ کی ایک نیم معروف لیڈی ہوں۔ وقت پہ شادی ہو نہیں سکی۔ اس کا خمیازہ بھگت رہی ہوں۔ اک آزمائش ہے۔ عمر اک منگیتر کے انتظار میں کٹ گئی۔ اس دوران کسی اور کا خیال کبھی خیال میں بھی نہیں آیا۔ مگر وہ مرد مجاہد تھا۔ اس نے چند برس بعد شادی جیسا عظیم فریضہ سر انجام دے لیا۔

اب میرے لئے رستہ تو کھلا تھا۔ مگر مسلسل اپنے کام کے ساتھ وقت گزاری سے میں اس مقام پہ ہوں جسے کم از کم ہم نیم شہرت کہہ سکتے ہیں۔ اس صورت میں مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں کیسے مرد کا انتخاب کروں۔ کیونکہ اتنی میچور ہو چکی ہوں کہ کسی کے ایک لفظ سے اس کی نیت جس کا دارو مدار اعمال پہ ہے کھل جاتی ہے۔ اور میں رستہ بدل لیتی ہوں۔

ایک وہ مرد ہیں جو گاؤں سے شہر آتے ہیں پڑھ لکھ جاتے ہیں مگر یہاں سیٹ نہیں ہو پاتے۔ ان کے لئے میں شادی کے فریم میں شہر سیٹ ہونے کا وسیلہ ہوں۔ ان کو یہ بھی گوارا ہے کہ میرے گھر والے انہیں اپنے گھر میں داماد جمع بیٹا بنا کر رکھ لیں خیر ہے۔ کوئی کاروبار نوکری کروا دیں تو سب خیر ہے۔ وہ ماشاءاللہ بچے پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔

دوسرے وہ مرد ہیں جو کما لیتے ہیں کھا بھی لیتے ہیں مگر ایک ماڈرن کماتی بیوی مل جائے تو وارے نیارے ہو جائیں۔ اگر شادی کے بعد یہ بیوی کسی ٹی وی چینل میں بھی نوکری کر لے تو بلے بھی بلے۔ دولت اور شہرت دونوں قدموں میں ڈھیر ہو جائیں گی۔ ایک ماڈرن بیوی بھی ہو اور ساتھ گھر داری کا سلیقہ بھی جانتی ہو۔ باہر ساتھ آ جا بھی سکتی ہو۔ بھلے اس کے کھانے کے دانت اور دکھانے کے اور ہوں۔

ایک وہ مرد ہیں جن کی ایک یا دو یا تین شادیاں ہو چکی ہیں اور مجھے دیکھنے کے بعد انہیں خیال آیا کہ مجھے تو ایسی بیوی چاہیے تھی۔

ایک وہ مرد ہیں جو بہت سچے ہیں کہ بھئی دیکھو نا میں تم کو کچھ دے سکتا ہوں نا تمہارے گھر والوں سے کچھ لوں گا۔ یہ ایک کمرے کا گھر ہے۔ جس میں میں زمین پہ سوتا ہوں۔ مگر یہ وعدہ ہے کہ بھوکا نہیں سلاؤں گا۔ بس اتنا کماتا ہوں۔

ایک وہ مرد ہیں جن کا تعلق دیہات سے ہس یا شہر سے ان کو وقت مقررہ پہ جو زوجہ گھر والے سہرے سجا کر لا دیتے ہیں اس نکاح نامہ پہ وہ دستخط کر دیتے ہیں۔ ایک دو راتوں کے بعد انہیں خبر ہوتی ہے کہ ”وے میں لٹی گئی“۔ اس کیس میں دو طرح کے مرد ہیں ایک جو خوب پڑھ لکھ جاتے ہیں ان کی شادی انہیں کے دستخط سے کسی ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ عورت سے ہو جاتی ہے۔ اب وہ اپنی ہی ذات کے دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے۔ الجھ بھی جاتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جن کی کسی بھی طور ہم آہنگی ہو ہی نہیں پاتی تعلیم یا طبقہ بھی درمیان میں حائل و مائل نہیں ہوتا۔ اسی حصے میں وہ مرد بھی ہیں جن کی بیگمات ان کے بقول مادہ پرست دولت پرست ہیں۔

اب اتنے سارے مردوں میں سے مجھے سمجھ نہیں آتا کہ شادی کے قابل کون ہے۔ ؟
دوسری شادی کے قابل کون ہے؟
اور
اگر عورت ہوتے ہوئے مجھے بھی دو مرد اچھے لگ جائیں تو میں کیا کروں؟

جواب کی شدت سے منتظر
قاری خواتین و حضرات سے درخواست ہے کہ اپنی بہن کو دعائے خیر میں یاد رکھیں۔

پڑھنے کا شکریہ
”ہم سب“ تمہارا بھی شکریہ کہ تین ہزار مریضوں میں ایک ڈاکٹر فی سبیل اللہ رکھا ہوا ہے
گل رعنا۔ اسلام آباد۔ کراچی لاہور۔ ملتان تے سارا پاکستان

۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب

۔ ۔ ۔ ۔

محترمہ گلِ رعنا صاحبہ!

آپ کا نیم مزاحیہ ،نیم سنجیدہ، نیم نفسیاتی اورنیم سماجی خط ملا۔ پہلے تو میں نے بھی سوچا کہ میں بھی آپ کو نیم مزاحیہ خط لکھوں اور کہوں کہ آپ تو ایک خوش قسمت خاتون ہیں کہ اس معاشرے میں جہاں سینکڑوں ہزاروں لاکھوں عورتوں کو ساری عمر ایک رشتہ بھی نہیں آتا آپ کو اتنے رشتے آتے ہیں کہ آپ کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ کیا یہ خوش بختی نہیں کہ

نجانے کتنے مجنوں آپ کو اپنی لیلیٰ بنانا چاہتے ہیں
نجانے کتنے فرہاد آپ کو اپنی شیریں کا روپ دینا چاہتے ہیں

اور
نجانے کتنے رانجھا آپ کو اپنے خوابوں کی حسین ہیر بنا چکے ہیں۔

لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ آپ کے مزاح میں ایک طنز مخفی ہے۔ آپ کی مسکراہٹ دراصل ایک زہر خند ہے۔ آپ کا خط ایک سماجی المیے کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کا زہر نجانے کتنی جوان عورتوں کی زندگیوں میں ہر روز گھلتا رہتا ہے۔

گلِ رعنا صاحبہ!

آپ بخوبی جانتی ہیں کہ آپ جس روایتی محول میں رہتی ہیں وہاں اکثر نوجوان مردوں اور عورتوں کی شادیاں ان کے گھر والے طے کر دیتے ہیں جنہیں ہم عرفِ عام میں ارینجڈ میریج کہتے ہیں۔ ایسی شادیوں میں دو اجنبی ایک مولوی کے سامنے بیٹھ کر نکاح کے دو بول پڑھتے ہیں اور گھر چلے جاتے ہیں۔ ان دو اجنبیوں میں نہ پیار ہوتا ہے نہ محبت نہ ہی وہ ایک دوسرے کی شخصیت اور فلسفہِ حیات سے واقف ہوتے ہیں۔ پھر وہ ساری عمر دریا کے دو کناروں کی طرح زندگی گزار دیتے ہیں اور ان کے بچے ان کے درمیان پل بن جاتے ہیں۔ چونکہ ان کی طلاق نہیں ہوتی اس لیے ایسی شادیوں کو کامیاب سمجھا جاتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail