یزیدی ماں کی مشکل، داعش جنگجو سے پیدا ہونے والا بچہ یا یزیدی خاندان


ماں اور بچہ

آدم کے سنہری بال اور نیلی آنکھیں ہیں۔ وہ اپنے بھائی اور بہنوں سے مماثلت نہیں رکھتا۔ اس کی ماں جوان کہتی ہیں کہ ’میں اسے اس وقت سے پیار کرتی ہوں جب وہ پہلی مرتبہ رویا تھا۔‘ وہ اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن تھا۔ لیکن آدم کے باپ نے انھیں یرغمال بنا کر رکھا تھا۔ اور اب جوان کو آدم کو واپس کرنا پڑا ہے۔

جوان کو اپنی زندگی سے محبت تھی، وہ اپنے شوہر کے ساتھ ایک خوبصورت گاؤں میں رہ رہی تھیں جہاں وہ پلی بڑھی تھیں۔ انھیں گاؤں کی شامیں خصوصاً زیادہ پسند تھیں جن میں وہ اپنے شوہر خیدر کے ساتھ چھت پر چڑھ کر چائے پیتی تھیں۔ جیسے ہی ان کے بچے سوتے وہ چپ چاپ چھت پر آ جاتے اور موسم کا نظارہ لیتے، کھلا آسمان اور جھل مل کرتے ہوئے ستارے دیکھتے۔

یہ بھی پڑھیئے

امن کا نوبیل انعام یزیدی خاتون نادیہ مراد کے نام

عراق کی دو یزیدی خواتین کے لیے سخاروف ایوارڈ

وہ کہتی ہیں کہ ’میں بہت خوش تھی، اور میں جہاں تک ممکن تھا بہترین زندگی جی رہی تھی۔‘

لیکن 2014 کے موسمِ سرما میں سب کچھ بدل گیا۔ اگست کے اوائل میں ایک دن دوپہر کے کھانے سے کچھ دیر بعد کالے جھنڈوں والی دو گاڑیاں ان کے گاؤں میں آئیں۔

فروری 2015 میں سنجر شہر

سنجر کی وادی

جوان اور خیدر کو یہ تو صحیح طرح معلوم نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے لیکن اتنا ضرور پتا تھا کہ وہ خطرے میں ہیں۔ یہ واضح تھا کہ آنے والے لوگوں کا تعلق جنگجو شدت پسند گروہ دولتِ اسلامیہ سے تھا۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی پتہ چلا کہ ان میں سے کچھ قریبی گاؤں کے لوگ تھے اور خیدر انھیں جانتے تھے۔ انھیں یقین دلایا گیا کہ اگر وہ تعاون کریں گے تو انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

انھیں 20 دوسرے خاندانوں کے ساتھ ایک قافلے کی شکل میں وادئی سنجار کے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں لے جایا گیا۔

جو جوان اور ان کے شوہر کو سمجھ نہیں آیا وہ یہ تھا کہ حملہ دولتِ اسلامیہ کے عراق اور شام کے اڈوں سے کیا جانا والا ایک مربوط حملہ تھا جس کے کئی مقاصد تھے۔ سال کے آغاز میں گروہ نے بغداد کے قریب شہروں پر قبضہ کر لیا تھا۔ پانچ مہینے کے بعد موصل پر بھی قبضہ ہو گیا جو جوان اور خیدر کے گاؤں کے نزدیک تھا۔ اب ایک مرتبہ پھر دولتِ اسلامیہ حرکت میں تھی۔

یہ خبر تیزی سے وادی میں پھیل گئی اور جب قافلہ ابھی آدھا گھنٹے کی مسافت پر تھا تو اکثر گاؤں والے پہلے ہی گاؤں چھوڑ کر سنجار پہاڑ کے اوپر والے حصے میں جا چکے تھے۔

قافلے کے سربراہ نے خیدر سے کہا کہ وہ پہاڑ پر جائیں اور گاؤں والوں سے کہیں کہ وہ نیچے آ جائیں، انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔

یزیدی خاندان

دولتِ اسلامیہ سے بچنے کے لیے گاؤں والے پہاڑوں میں ادھر ادھر چھپ گئے

خیدر کہتے ہیں کہ انھوں نے پیغام تو دے دیا لیکن کوئی بھی اسے ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ پہاڑوں میں فرار افراد میں خیدر کا بھائی بھی شامل تھا۔ خیدر اپنے خاندان والوں کے پاس واپس آنا چاہتے تھے لیکن ان کے بھائی نے کہا کہ یہ خود کشی کے مترادف ہو گا۔ دولتِ اسلامیہ کے متعلق مشہور تھا کہ وہ ان لوگوں کو قتل کر دیتے ہیں جن کا انھیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

یزیدی مشکل میں پڑ گئے تھے۔ جو لوگ پہاڑوں پر گئے وہ بھی پھنس گئے کیونکہ وہاں نہ تو پانی تھا اور نہ ہی دوسری اشیاء۔ 50 سے زیادہ درجہ حرارت میں درجنوں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

جو نیچے زمین پر موجود تھے انھیں دولتِ اسلامیہ نے پکڑ لیا۔ خاندان الگ کر دیے گئے۔ لڑکوں کو دولتِ اسلامیہ کے تربیتی کیمپوں میں لے جایا گیا اور لڑکیوں اور خواتین کو سیکس کے لیے غلام بنا لیا گیا۔ جن لوگوں نے مسلمان ہونے سے انکار کیا انھیں قتل کر دیا گیا۔

ابھی تک یہ پوری طرح معلوم نہیں کہ دولتِ اسلامیہ نے کتنے یزیدیوں کو اغوا کیا تھا۔ اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سنجار میں تقریباً چار لاکھ یزیدی موجود تھے۔ ان میں ہزاروں مارے گئے اور 6400 سے زیادہ یزیدیوں کو جن میں سے زیادہ عورتیں اور بچے تھے غلام بنا لیا گیا۔ ان کے ساتھ ریپ ہوا، انھیں پیٹا اور بیچا گیا۔

جوان، ان کے تین بچے اور تقریباً 50 کے قریب عورتوں اور بچوں کو ایک ٹرک میں بیٹھا دیا گیا۔ انھیں بالآخر شام کے شہر رقاء لے جایا گیا جو کہ اس وقت نام نہاد دولتِ اسلامیہ کا دارالحکومت تھا۔

جوان کہتی ہیں کہ ہم اپنے دفاع میں کچھ بھی نہ کر سکے۔ اس کے بعد انھوں نے اگلے چار سال خیدر کو نہیں دیکھا۔

قید میں عورت

قیدی

جلد ہی جوان کو پتہ چلا کہ انھیں جہاں لے جایا گیا ہے وہ ایک غلاموں کی منڈی ہے۔

انھیں اور ان کے بچوں کو ایک تین منزلہ عمارت میں دوسری عورتوں اور بچوں کے ساتھ رکھا گیا۔ اس عمارت میں تقریباً 1500 افراد تھے۔ جوان کہتی ہیں کہ وہ ان خواتین میں سے کئی ایک کو جانتی تھیں۔ کچھ تو ان کی رشتہ دار تھیں اور باقی محلے دار یا دوسرے دیہات سے لائی گئی خواتین۔

وہ کہتی ہیں کہ ہم ایک دوسرے کو یہ امید دلاتے رہے کہ کوئی معجزہ ہو گا اور ہم چھوڑ دیے جائیں گے۔

لیکن قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ جوان کو کہا گیا کہ وہ تنکوں کو اٹھائیں تاکہ یہ فیصلہ کیا جائے کہ انھیں دولتِ اسلامیہ کے کس جنگجو کے حوالے کرنا ہے۔ انھیں ایک تیونسی شخص کے حوالے کیا گیا جس کا نام ابو مہاجر التیونسی تھا۔ وہ ایک نوجوان اعلیٰ کمانڈر تھا جس کی لمبی داڑھی تھی۔

رقاء

ستمبر 2014 میں شام میں دولتِ اسلامیہ کا ایک جنگجو

کمانڈر چاہتا تھا کہ جوان مسلمان ہو کر اس سے شادی کر لیں۔

جوان کئی دن روتی رہیں۔ انھوں نے تین مرتبہ کوشش کی کہ وہاں سے بھاگ جائیں مگر تینوں مرتبہ ہی انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے بچے چھوٹے تھے۔ سب سے بڑا 13 سال کا تھا جبکہ سب سے چھوٹا تین سال کا۔ جب بھی ابو مہاجر کو ان کے فرار کی کوشش کی خبر ہوتی تو وہ انھیں کمرے میں تالا لگا کر بند کر دیتا۔

’میں نے واقعی سوچا کہ اس سے اچھا ہے کہ میں خود کشی کر لوں، لیکن پھر مجھے اپنے بچوں کا خیال آیا۔ اگر میں چلی گئی تو ان کا کیا ہو گا۔‘

آخر کار جوان نے سوچا کہ ان کے پاس اسلام قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

مزید پڑھیئے

عراق میں یزیدیوں کا مستقبل

عراق کی لائبریری راکھ کا ڈھیر کیسے بنی؟

انتہائی دائیں بازو اور دولت اسلامیہ، تصویر کے دو رخ

جوان ابھی بھی اپنے اغوا کار کے متعلق بات کرتے ہوئے ڈرتی ہیں۔ لیکن انھوں نے یہ ضرور کہا کہ اس نے حیرت انگیز طور پر ان کے بچے ان کے پاس رہنے دیے اور وعدہ کیا کہ وہ ان کا خیال رکھے گا۔

جوان اپنے بچوں اور تیونسی جنگجو کے ساتھ رقۂ کے ایک گھر میں منتقل ہو گئیں۔ اس وقت تک دولتِ اسلامیہ نے عراق اور شام کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔

جب تیونسی میدانِ جنگ میں نہ ہوتا تو وہ اپنے وعدے کے مطابق جوان کے بچوں کی دیکھ بھال کرتا اور انھیں قریبی پارک بھی لے کر جاتا۔

لیکن پھر جوان کو پتہ چلا کہ وہ حاملہ ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ان کے پاس کوئی دوائی نہیں تھی اور مجھے نہیں پتہ تھا کہ میں کیا کروں۔‘

امریکہ کی سربراہی والا اتحاد روزانہ دولتِ اسلامیہ کے ٹھکانوں پر گولہ باری کرتا تھا اور شام اور عراق میں عراقی اور کرد جنگجو کئی محاذوں پر دولتِ اسلامیہ سے برسرِپیکار تھے۔ جوان کا اغوا کار اتنا زیادہ وقت میدانِ جنگ میں گزار رہا تھا کہ اس نے یہ بھی سوچا کہ وہ جوان کو دولتِ اسلامیہ کے کسی اور رکن کے ہاتھ بیچ دے۔ جب اسے پتہ چلا کہ جوان حاملہ ہیں تو اس نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔

زچگی کے ساتویں مہینے جوان کو خبر ملی کہ ابو مہاجر ایک محاذ پر مارا گیا ہے۔ اب بچے کی ساری ذمہ داری جوان کے کندھوں پر تھی۔

آدم اس وقت پیدا ہوا جب امریکہ کی سربراہی والا اتحاد تقریباً روزانہ رقۂ پر بم برسا رہا تھا۔

حوا اور حاتم نے بچے کی پیدائش میں اپنی ماں کی مدد کی۔ جوان کہتی ہیں کہ ان کے بچوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اس بچے کے متعلق کس طرح محسوس کریں، جو ان سے بالکل مختلف لگتا تھا۔

’میرا خیال ہے کہ میرے بچے اس سے پیار کرتے تھے۔ انھوں نے اس کا خیال رکھا۔ خصوصاً حوا نے جو کہ میری بیٹی بھی ہے اور بہترین دوست بھی۔ وہ آدم کو کھانا کھلاتی اور اس وقت تک اٹھائے رکھتی جب تک وہ سو نہیں جاتا۔‘

متواتر بمباری کی وجہ سے جوان اور ان کے بچے مختلف گھر بدلتے رہے۔ کئی مرتبہ بجلی چلی جاتی۔ جینریٹر اس کا متبادل تھے لیکن وہ بھی تب جب ایندھن موجود ہو۔ خوراک حاصل کرنا بھی مشکل تھا اس لیے جوان کم کھانا کھاتیں تاکہ ان کے بچے زیادہ غذا کھا سکیں۔

’کئی مرتبہ ہم نے پانی اور چینی کے ساتھ روٹی کھائی۔ مجھے پتہ تھا کہ اگر میں نے زیادہ کھانا نہ کھایا تو میں آدم کو دودھ نہیں پلا سکوں گی لیکن میرے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ تمام مشکلات کے باوجود آدم بڑا ہوتا گیا۔

’وہ مقناطیسی شخصیت کا مالک تھا۔ اگرچہ اس کا باپ میرا حقیقی شوہر نہیں تھا اور ایک قاتل تھا لیکن پھر بھی وہ میرا ماس اور خون تھا۔‘

عورتیں

فرار

عراق میں موجود خیدر کو بچے کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ درحقیقت اسے اپنے خاندان کے بارے میں ہی کچھ علم نہیں تھا۔ وہ 14 مہینے پہلے اغوا ہوئے تھے اور وہ اس وقت سے انھیں ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا۔ جب بھی اسے پتہ چلتا کہ کوئی عورت بچوں کے ساتھ اغوا کاروں کی قید سے رہا ہوئی ہے تو وہ سرحد پر یہ پتہ کرنے کے لیے جاتا کہ کہیں وہ اس کا خاندان تو نہیں۔

آخر کار اسے پتہ چلا کہ وہ کہاں ہیں۔ اس نے ان کا انسانوں کے سمگلروں کے نیٹ ورک سے پتہ لگوایا جو یزیدی خواتین اور بچوں کو واپس خرید رہے تھے۔ خیدر کو ہر بچے کے لیے 6000 ڈالر کی ضرورت تھی۔ حاتم، حوا اور آزاد جلد ہی اپنے والد کے ساتھ دوبارہ مل گئے۔ تاہم جوان کو رقۂ میں مزید دو سال گزارنے پڑے۔ انھیں اس بات کا یقین نہیں تھا کہ خیدر آدم کو اپنا لے گا۔

خیدر کئی مرتبہ اسی آگ میں جلتا رہا کہ وہ کیا کرے۔ دنیا کے سب سے پرانے مذاہب میں سے ایک یزیدی فرقے کے لوگوں کو سخت قوانین ماننا پڑتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو بھی یہ مذہب چھوڑتا ہے وہ اس میں دوبارہ داخل نہیں ہو سکتا۔ لیکن یزیدی روحانی کونسل نے اس قانون میں ذرا نرمی کی تاکہ ان خواتین کو دوبارہ قبول کیا جا سکے جن کو دولتِ اسلامیہ نے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا تھا۔ لیکن دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں کے ہونے والے بچوں کا معاملہ ذرا مختلف تھا۔ اس مذہب میں صرف پیدا ہوا جا سکتا ہے، اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے بچے کو صرف اس صورت میں ہی یزیدی قبول کیا جا سکتا ہے جب اس کے دونوں والدین یزیدی ہوں۔

جوان اب دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں کی دوسری یزیدی بیواؤں کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ سبھی خواتین اس طرح کی سماجی اور مذہبی پابندیوں کی وجہ سے سنجار میں اپنے گاؤں واپس آنے سے ڈرتی تھیں۔

جوان کہتی ہیں کہ ’کئی ایک کے مختلف شدت پسندوں سے ایک سے زیادہ بچے تھے، اس لیے وہ واپس جانے سے بہت ڈرتی تھیں۔‘

خیدر نے آخر کار کہا کہ اس کے بچوں کو اپنی ماں کی ضرورت ہے اور وہ آدم کو اپنانے کے لیے بھی تیار ہے۔ جوان چار سال کے بعد آدم کے ہمراہ سنجار میں اپنے گاؤں واپس آئیں۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد ہی ماحول بدل گیا اور ان کے خاندان والوں نے کہنا شروع کیا کہ وہ آدم کو واپس کر دیں۔

’انھوں نے میرے ساتھ ہمارے مذہب کی اہمیت پر بات کرنا شروع کر دی اور یہ بھی بتایا کہ ہمارا معاشرہ دولتِ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے والد سے پیدا کیے ہوئے مسلمان بچے کو کبھی قبول نہیں کرے گا۔‘

خیدر ایک مرتبہ جوان کو لے کر موصل کے ایک یتیم خانے کی مینیجر سکینہ محمد علی یونس کے پاس گیا۔ اس کی خواہش تھی کہ سکینہ جوان کو ترغیب دے کہ وہ آدم کو اس کے پاس چھوڑ دے۔ سکینہ کا کہنا ہے کہ اس نے جوان کو گھنٹوں سمجھایا۔

وہ کہتی ہیں کہ خیدر بہت مایوس تھا اور رو رہا تھا۔ جوان نے آدم کو چھاتی سے لگایا اور کہا کہ وہ اسے نہیں چھوڑیں گی۔

جب انھوں نے اپنا بچہ سکینہ کو دیا تو ان کا چہرا آنسوؤں سے بھرا ہوا تھا۔

سکینہ نے جوان سے کہا کہ وہ آدم کو ان کے پاس کچھ عرصے کے لیے چھوڑ جائیں کیونکہ آدم بیمار اور کمزور ہے اور اسے دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔

سکینہ کہتی ہیں کہ انھوں نے جوان کو بتایا کہ ’جب تک آپ مسئلے کا حل نہیں تلاش کر لیتی آپ کا بچہ میری تحویل میں ہے۔ جب اس نے میرا ہاتھ تھاما تو مجھے لگا کہ جیسے اس کے اندر لگی آگ بجھ گئی ہے۔‘

بکھری ہوئی عورتیں

زخموں سے چور

یزیدیوں کا نیا سال جوان کے لیے خوشی کا موقع ہونا چاہیئے تھا۔ چار سال اپنے خاندان سے دور رہنے کے بعد خوشی کا پہلا تہوار۔ وہ یزیدی روایت کے مطابق ابلے ہوئے انڈوں پر رنگ لگانے کے لیے رنگوں کی خریداری کرنے نکلے۔

لیکن خاندان کے ساتھ دوبارہ متحد ہونے کے باوجود جوان خوش نہیں تھیں۔ یتیم خانے سے نکلنے کے کچھ دن بعد انھوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ حالات کو قبول کر لیں گی اور اپنے تین بچوں پر توجہ دیں گی۔ لیکن اب یہ کرنا مشکل ہو رہا تھا۔

’میں اس کے متعلق متواتر سوچتی رہتی۔‘

’میں ہر رات اس کے متعلق سوچتی ہوں۔ میں اسے کیسے بھول سکتی ہوں؟ میں نے اسے دودھ پلایا ہے، وہ میرا بچہ ہے۔ میں آپ سے پوچھتی ہوں کہ کیا ہمارے جیسی عورتیں غلط ہیں۔ کیا ہم غلط ہیں کہ ہم اپنے بچوں کی کمی محسوس کر رہی ہیں۔‘

یزیدی نیا سال

انڈوں کو رنگ لگانے کی یزیدی روایت

اپنے اندر کئی ہفتوں کی جنگ کے بعد جوان اور برداشت نہ کر سکیں۔ انھوں نے ایک فیصلہ کیا جس کے متعلق وہ جانتی تھیں کہ اب وہاں سے واپسی ممکن نہیں ہو گی۔ انھوں نے اپنے بچوں کو بتایا کہ وہ ٹراؤما تھیراپی کے لیے دھوک شہر جا رہی ہیں۔

دراصل وہ یتیم خانے جا رہی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ جس دن ’میں نے اپنے بچوں کو چھوڑا وہ بہت برا دن تھا۔ لیکن مجھے لگا کہ میں نے اپنے بچے کو دھوکہ دیا ہے۔ میرے دوسرے تینوں بچے اب بڑے ہو چکے ہیں اور ان کے پاس ان کا والد ہے۔ لیکن آدم کا کوئی نہیں ہے۔ بے چارے کا واقعی کوئی نہیں تھا اور میں دن رات اس کی کمی محسوس کرتی تھی۔‘

جب جوان یتیم خانے پہنچیں تو انھیں بتایا گیا کہ آدم بیمار ہے اور وہ اسے نہیں دیکھ سکتیں۔ لیکن دو تین دن کے بعد سکینہ نے اعتراف کیا کہ جنگ کی وجہ سے یتیم خانہ مشکلات کا شکار تھا، اس لیے اس نے مقامی جج کے ذریعے کچھ بچے دوسروں کو گود دے دیے تھے۔

سکینہ نے کہا کہ انھوں نے جج کو صاف صاف بتایا تھا کہ آدم اور چار دوسرے بچے جو کہ ان ماؤں کے بچے تھے جنھیں دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں نے اغوا کر کے اپنے پاس رکھا تھا، کسی کو گود نہیں دینے چاہئیں کیونکہ ہو سکتا ہے ان کی مائیں کبھی انھیں واپس لینے کے لیے آ جائیں۔

اس کے باوجود آدم کو کسی کو دے دیا گیا۔

سکینہ کہتی ہیں جب انھوں نے یہ بات جوان کو بتائی تو وہ بہت دیر تک روتی رہیں۔

جوان میں گھر واپس جانے کی ہمت نہیں تھی اس لیے انھوں نے شمالی عراق میں عورتوں کے ایک شیلٹر میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔ کچھ ماہ بعد خیدر نے انھیں طلاق دے دی اور ایک پیغام بھیجا کہ وہ اب اپنے دوسرے بچوں کو کبھی نہیں مل سکتیں۔

یزیدی مرد

یزیدی مذہب کے مطابق کوئی بھی یہ مذہب اختیار نہیں کر سکتا، صرف اس مذہب میں پیدا ہی ہو سکتا ہے

خیدر اپنے گاؤں میں دکھی ضرور ہیں لیکن انھیں اپنے کیے پر کوئی ندامت نہیں۔

خیدر کہتے ہیں: ’مجھے معلوم ہے یہ (آدم) کی غلطی نہیں تھی۔ میں کہتا ہوں کہ یہ خدا کی مرضی تھی کہ وہ پیدا ہوا۔ اگر میں سمجھتا کہ اس کا ذمہ دار وہ ہے تو میں اسے شام میں مرنے کے لیے چھوڑ دیتا۔ اگر میں برا شخص ہوتا تو میں خود ہی اسے مار دیتا، لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ میں نے اسے زندہ رہنے دیا اور اسے اپنی بیوی کے ہمراہ یہاں لانے کا خرچہ بھی برداشت کیا۔

’لیکن جب دولتِ اسلامیہ کے لوگ آ کر آپ کے پورے خاندان کو مار دیتے ہیں، اور آپ کی بیوی کو ساتھ لے جاتے ہیں، اور وہ ان کے بچے کی ماں بنتی ہے، تو ہم اسے قبول نہیں کر سکتے۔ کوئی بھی اسے قبول نہیں کرے گا، چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو۔‘

جوان کے بچے اپنی زندگیوں سے اپنی ماں اور آدم کی غیر موجودگی کو مختلف طریقوں سے دیکھتے ہیں۔ بڑا بیٹا حاتم بالکل اپنے باپ کی طرح سوچتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ دولتِ اسلامیہ کے بچے کو اپنے بھائی کے طور پر قبول نہیں کر سکتا۔

وہ کہتا ہے کہ ’میری ماں نے ہمیں اپنے دوسرے بچے کے لیے چھوڑ دیا۔‘ وہ کہتا ہے کہ اس کا چھوٹے بھائی آزاد ماں کے جانے کے بعد ان کے متعلق کئی ماہ پوچھتا رہا لیکن اب اس نے بھی پوچھنا چھوڑ دیا ہے۔

’میں نے اس بتایا کہ ماں واپس نہیں آئیں گی، اس لیے انتظار نہ کرے۔ اس کے بعد اس نے بھی انھیں ڈھونڈنا چھوڑ دیا۔‘

لیکن بیٹی حوا جو آدم کو اپنی بانہوں میں کھلاتی تھی زیادہ ہمدردانہ طریقے سے سوچتی ہے۔

وہ کہتی ہے کہ ’جب ہماری ماں گھر پر تھی تو سب ٹھیک تھا۔ میری خواہش ہے کہ وہ واپس آ جائیں لیکن یہ بھی ان کا حق ہے کہ وہ آدم کو مس کریں۔‘

دوسری خواتین جو متاثر ہوئیں

ایسی بدقسمت صورتِ حال سے دو چار ہونے والی جوان واحد عورت نہیں ہیں۔ بی بی سی نے ایسی 20 خواتین سے بات کی جن کے بچوں کے باپ دولتِ اسلامیہ کے شدت پسند تھے۔ ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں سمجھتی کہ وہ ان بچوں کو اپنے ساتھ لا سکتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کو عراق واپس آنے سے پہلے اپنے بچے شمالی شام میں ہی چھوڑنے پڑے۔

ان میں سے ایک لیلیٰ ہیں، جب دولتِ اسلامیہ انھیں اغوا کر کے شام لے گئی تو وہ صرف 16 سال کی تھیں۔ ان کے اغوا کار سے ان کے دو بچے تھے لیکن ایک کرد کمانڈر نے انھیں کہا کہ یہ شیطان کے بچے ہیں۔

’مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کروں۔ میں گھر واپس جانا چاہتی تھی اور میرے اختیار میں کچھ نہیں تھا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ان کا خواب ہے کہ وہ یونیورسٹی جائیں اور کوئی اچھی نوکری ڈھونڈیں تاکہ وہ اپنے بچوں کی تلاش کے لیے رقم جمع کر سکیں۔

’میں صرف انھیں مرنے سے پہلے ایک مرتبہ دیکھنا چاہتی ہوں۔ مجھے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہیئے۔‘

انھیں یزیدی روحانی کونسل پر بہت غصہ ہے کیونکہ اس نے دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں سے ہونے والے بچوں کو برادری میں قبول کرنے کے حوالے سے اپنے قوانین نرم نہیں کیے۔

’کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ یزیدی مردوں کے پاس دل نہیں ہیں۔ وہ عورتیں نہیں، وہ مائیں نہیں ہیں، وہ یہ کبھی بھی نہیں سمجھ سکتے جو ہم پر بیت رہی ہے۔‘

جن خواتین سے بی بی سی نے بات کی ان میں سے صرف ایک خاتون کو ہی اپنا بچہ اپنے پاس رکھنے کی اجازت ملی۔ روجن کو ان کی چار سالہ بیٹی کے ہمراہ سات مختلف دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کے ہاتھوں فروخت کیا گیا تھا۔ جب وہ عراق واپس پہنچیں تو وہ دو ماہ کی حاملہ تھیں۔ ان کے ڈاکٹر نے انھیں مشورہ دیا کہ ان کا حمل شروع کے مراحل میں ہے اس لیے وہ اپنے شوہر کو قائل کریں کہ وہ ایسا ظاہر کریں کہ یہ ان کا بچہ ہے۔ شوہر نے یہ سوچ کر حامی بھر لی کہ اگر وہ بیرون ملک پناہ کی درخواست دینے کے متعلق سوچیں تو انھیں بچے کے بعد سیاسی پناہ لینے میں آسانی ہو گی۔

لیکن پھر بھی روجن خوف زدہ رہتی ہیں۔

’اگر میرا خاندان یا یزیدی برادری میں سے کوئی میرے بیٹے کے متعلق سچ جان گیا تو وہ اسے مجھ سے چھین لیں گے یا مجھے مجبور کریں گے کہ میں اپنا گھر اور بچی چھوڑ کے چلی جاؤں۔‘

’میں روز اس کے متعلق سوچتی ہوں‘

گذشتہ 18 ماہ سے جوان کو کونسلنگ مل رہی ہے لیکن اب بھی وہ کافی نحیف ہیں۔ اپنی نوٹ بک میں انھوں نے رقۂ میں گذارے ہوئے دنوں کے متعلق ایک سکیچ بنایا ہے جس میں وہ اپنے چار بچوں کے ساتھ گھر میں ہیں اور اوپر ایک جنگی جہاز اڑ رہا ہے۔

’کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ دولتِ اسلامیہ کے دور میں ہماری زندگی بہتر تھی۔ ہمارے گرد محاصرہ تھا، زندگی مشکل تھی لیکن کم از کم میرے ساتھ میرے بچے تھے۔‘

’میں ان چار برسوں میں جسمانی طور پر زخمی نہیں ہوئی تھی لیکن جب میں عراق واپس آئی تو میں نے اپنے آپ کو زخمی محسوس کیا۔ میں اس وجہ سے زخمی ہوں کہ میرے خاندان، میری برادری اور قوانین نے مجھ سے میرے بچے چھین لیے ہیں۔‘

وہ اپنے شوہر سے اتنی ناراض اور برادری سے اتنی مایوس ہیں کہ انھوں نے مسلمان ہی رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

’میں یزیدی برادری کا حصہ نہیں رہنا چاہتی۔۔۔ سچ یہ ہے کہ میں اپنے بچوں سے علیحدہ صرف مذہب کی وجہ سے ہوں۔‘

لیکن وہ اس بات سے بھی خوفزدہ ہیں کہ اس نے ان کو اپنے تین بڑے بچوں سے دور کر دیا ہے۔

’مجھے سب سے زیادہ ڈر اس بات کا ہے کہ میرے بچے مجھے بھول جائیں گے، یا پھر مجھے معاف نہیں کریں گے کیونکہ میں نے انھیں چھوڑ دیا ہے۔ لیکن میں اپنے آپ کو یہ کہتی رہتی ہوں کہ وہ اپنی ماں کو نہیں بھولیں گے۔‘

سکینہ کے بقول جوان اگر چاہیں تو وہ آدم کو واپس لے سکتی ہیں، بس انھیں ڈی این اے ٹیسٹ کرا کر یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ ہی اس کی ماں ہیں۔ تاہم اس بات سے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں کہ وہ یزیدی ہیں اور بچہ اپنے باپ کی وجہ سے مسلمان رجسٹر ہو گا کیونکہ رجسٹریشن میں والد کا مذہب ہی لکھا جاتا ہے۔

ابھی تو جوان نے یہ قبول کر لیا ہے کہ آدم جہاں بھی ہے وہ بہتر حالات میں ہے۔

’میں روز ان کے متعلق سوچتی ہوں۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ ابھی میرے بیٹے کا کسی اور کے ساتھ رہنا بہتر ہے۔ یہ اس کے لیے اچھا ہے۔‘

بس وہ اس خواب کے ساتھ زندہ ہیں کہ وہ کبھی اپنے سبھی بچوں کے ساتھ اکٹھی رہیں گی۔

’میں امید کرتی ہوں کہ اگر خدا کو مجھ پر رحم آیا تو ہم سب ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے۔‘

شناخت کے تحفظ کے لیے کچھ لوگوں کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp