سب سے بڑا جھوٹ


کیاہم سب جانتے ہیں کہ دنیا میں بہت سے لوگ سب سے زیادہ اور سب سے بڑا جھوٹ کیا بولتے ہیں؟ میرے خیال میں ہم سے سے بڑا جھوٹ یہ بولتے ہیں کہ ”میں اللہ سے ڈرتا /ڈرتی ہوں“۔ حالاں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ آپ لوگ بھی سوچ رہے ہوں گے میں کیا کہہ رہی ہوں جی حضور! یہی بات ہے اگر آج دنیا کے لوگ ربّ سے ڈررہے ہوتے تو کیا دنیا میں اتنی بُھوک، ننگ اور افلاس ہوتی؟ کیا دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام ہوتا؟ کیا دنیا طبقاتی سلسلے کی بھٹی میں جل رہی ہوتی؟

کیا اتنی تحریکیں پلتیں؟ کہیں فسطائیت، کہیں آمریت، کہیں روحانیت، کہیں بادشاہت، کہیں جمہوریت پہ مبنی مختلف جہتیں ہوتیں؟ سب یہ ہی گولی کھاتے اور کھلاتے رہے لیکن افاقہ نہ ہوا۔ ہم دنیا میں آئے اس زندگی کو جینے کے لیے اُس دنیا میں، اس گھر میں، اس خاندان میں جہاں انسان اپنی مرضی سے نہیں آتا۔ اس کا خالق جہاں چاہے اسے بھیج دیتا ہے۔ جس گھر میں انسان بھیجا جاتا ہے وہاں اسے ماں باپ بہن بھائیوں کی تقسیم اس گٹھڑی میں ملتی ہے جو پیدا کرنیوالا اسے بانٹتا ہے۔

بچپن کی دہلیز پار کرکے جب انسان جوانی کی اونچی گلیوں میں داخل ہوتا ہے تو اُسے خاص قسم کی ذہنی کیفیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر اس کے قدم سماج کے اونچے نیچے رستوں پر چلتے ہوئے اکثر ڈگمگانے لگتے ہیں۔ اکثر ہم سماجی دباؤ یعنی Societal Pressure جو ان دنوں سوشل میڈیا کے ذریعے ہم پہ بڑھتا ہی جا رہا ہے کا شکار رہتے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب یہ دباؤ Suicidal Pressure بنتا جا رہا ہے۔ افسوس!

کہ ہم نے اس راستے کو اپنا امام بنا لیا ہے اور اب یہ رستہ ہمیں ڈک ڈک کے مار رہا ہے۔ چلیے آج مل جُل کرکچھ چھوٹے چھوٹے وعدے کرتے ہیں۔ ایک وعدہ تو یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کوربّ کی عطا کردہ خوبیوں کو مثبت انداز میں استعمال کرنا شروع کریں گے۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہماری Motivational Forces یعنی کسی چیز یا کسی کام کو کرنے کی خواہش ہمارے اندر کتنی مضبوط ہیں۔ اس میں سب سے پہلی بات یہ ہے جو شخص بھی ہر وقت منہ بسورتے ہوئے شکایات کے دفتر جمع کیے رہتا ہے وہ اپنی اس طاقت کے استعمال سے محروم رہے گا۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ہر وقت یہ کہتے ہیں ”میں اَک گیا ہوں، میں تھک گیا ہوں اس زندگی سے“ اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے زندگی میں بنیادی مقصد کچھ اور ہی رکھا وہ نہیں کیا جو آپ کا دل چاہتا ہے۔ اپنی آواز کو نہیں سُنا باہر کے شور میں ہی گُم رہے۔ زندگی کے جھمیلوں اور نہ سنائی دینے والے شور سے کبھی کبھار ہم سب کو ضرور نکلنا چاہیے۔ اپنے آپ کے ساتھ بیٹھنا چاہیے، اپنے اندر کی آواز کو سُننا چاہیے۔ لیکن اس نقطے سے آگے بڑھنے سے پہلے ہماری تما م بنیادی ضروریات کا پورا ہونا انتہائی اہم عمل ہے۔

اگر ہمارے پیٹ میں روٹی ہی نہ ہوگی، تن پہ کپڑا ہی نہ ہو گا، رہنے کو چار دیواری اور سر پہ چھت ہی نہ ہو گی تو باقی چیزیں کیا خاک سمجھ میں آئیں گی۔ Abraham Maslowکی Hierarchy of Needsکی تھیوری میں وہ کہتا ہے کہ انسانی نفسیات پانچ بنیادی ضروریات پہ منحصر ہے۔ جس میں سب سے پہلے غذا، پانی، سکون ہے، دوسرے نمبر پہ ہمارا تحفظ، تیسرے نمبر پہ ہماری چیزیں، رشتے اور دوست وغیرہ ہیں، چوتھے نمبر پہ ہماری عزت اور شائستگی کی ضروریات اور پانچویں نمبر پہ ہماری Self Aactulizalionکی ضرورت ہے۔

مگر افسوس دنیا میں بیشتر لوگ حرف پہلے تین مرحلوں تک ہی جا پاتے ہیں اوراُن کی زندگی کی شام ہونے لگتی ہے۔ کچھ اور مضبوط لوگ چوتھے مرحلے تک جا پہنچتے ہیں اور زندگی میں کچھ نام تھوڑی عزت بنا لیتے ہیں لیکن پانچویں نمبر تک ہم شاذ ہی پہنچ سکتے ہیں۔ یہاں میں تھوڑا سا ذاتی تجربہ بتانا چاہوں گی کہ میرے اندر بہت بچپن ہی سے کچھ کرنے کی تمنا کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ میرے اندر بھی بہت سی خامیاں تھی یعنی سُستی اور کاہلی وغیرہ لیکن کچھ کرنے کی تمنا، خوابوں کو پالنے کی خواہشیں ہر وقت انگڑائیاں لیتی رہتی تھی۔

Self Motivation کے لیے سب سے پہلے دنیا میں اپنے آنے کا مقصد تلاش کرنا بھی اشد ضروری ہے جو قدرت نے مجھے بہت پہلے ہی سکھا دیا تھا۔ آپ کا کوئی Passion کوئی خواب ہر وقت آپ کو اُکساتا رہتا ہو بس اسے مضبوطی سے پکڑے رہنا ہی Motivational Force ہے۔ مجھے زندگی میں بہت دیر سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ میرا سب سے بڑا اُستاد میرا ربّ ہے۔ وہ مجھے ہر لمحہ کچھ نہ کچھ سکھاتا رہتا ہے۔ اس وقت میں اپنے لاؤنج کی فرنچ وِنڈو سے آسمان کو دیکھ کر حیرت اور محبت کے سمندر میں غوطے کھائے جارہی ہوں۔

دنوں کے بعد لاہور کا آسمان شفق کی لالی سے سجا ہوا ہے اس گلابی اور کاسنی رنگ کے تھوڑا اوپر ہی رُوئی کے گالوں جیسے سفید اور سُرمئی بادلوں سے پُھوٹتی ہوئی نرم سفیدی کے اندر جاکر وہ اجنبی ان دیکھی دنیا دیکھنے کو دل مچل رہا ہے۔ زندگی اسی وقت واقع ہوتی ہے جب آپ اس کی منصوبہ بندی کر رہے ہوں۔ اب دیکھیں ناں کہنے کو تو میں کالم لکھ رہی ہوں لیکن ساتھ ہی کائنات کے سربستہ رازوں کی کھوج لگانے کو بھی من ہچکولے کھا رہا ہے۔

زندگی لمحہ لمحہ اپنے رُوپ بدلتی ہے اس کے بدلتے رنگوں سے سیکھنا ہی زندگی کی روح ہے۔ موسم کیسا بھی ہو رات اور دن ہمیشہ اپنے اپنے مقررہ وقت ہی میں آتے ہیں۔ کتنی بھی گھنی کالی گھٹائیں آسمان سے ٹپکتی ہوئی سورج کی روشنی کو روکتی ہوں دن کا آغاز اپنے ربّ کے بتائے ہوئے وقت کے مطابق ہی ہوگا۔ کبھی ہمارے ٹائم ٹیبل کے مطابق نہ تو سورج ڈھلے گا اور نہ ہی طلوع ہوگا۔ اس بات سے میں سیکھتی ہوں کہ ہمارے کام اور ہماری خواہشات بھی وقت پر محیط ہیں۔

ربّ کی برستی ہوئی رحمتوں سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ وہ سب کو کھانا دیتا ہے وہ یہ نہیں کہتا کہ میرا اقرار کرو گے تو نعمتیں ملیں گی۔ یہ خوب صورت حقیقت سکھاتی ہے کہ دوسروں کی چھوٹی موٹی لغزشوں کو معاف کر دینا ہی انسانیت کی معراج ہے۔ ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ سے ڈرتے ہیں لیکن اس جُملے کی سچائی کو پرکھتے نہیں؟ کیا ہم عقل نہیں رکھتے جو ربّ کی سب سے خوب صورت نعمت ہے۔ دوسری طرف خود پسندی سے زیادہ وحشت زدہ کوئی چیز نہیں۔

نیک عمل سے حسین کوئی عمل نہیں اور اس جھوٹ سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں کہ ہم اللہ سے ڈرتے ہیں بس اس پہ ہمیں غور کرنا ہے۔ محبت وہ بہتا دریا ہے جو رُک جائے تو دل کھارا ہو جاتا ہے، دل کی نمی سُکھنے لگتی ہے اور سُوکھی مٹی میں بیج نہیں پنپتے لہذا محبت کے دریا کو بہتے رہنا چاہیے۔ محبت تو لوگوں میں بانٹنے کی چیز ہے۔ لوگوں سے محبت کرنا ہی زندگی کا ماخذ ہے۔ بقول شاعر:

کر محبت ہر کسی سے دل دُکھانا چھوڑ دے

بس عبادت ہے یہی جنگل کو جانا چھوڑ دے

آج میرا دل محبت کے احساس سے یوں بھرا ہے کہ دل چاہتا ہے میری ریاست، سیاست، آدمیت، انسانیت، جمہوریت ہر چیز پہ محبت غالب آ جائے۔ میرے دیس کی دھرتی تو صوفیا کی دھرتی ہے جنہوں نے محبت کا پیغام عام کیا۔ لیکن ہم یہاں ابھی تک عدل کا نظام لاگُو نہیں کر پائے۔ یہ زندگی ہی صرف جھگڑوں کا باعث ہے زندگی ختم ہو جائے تو پھر کچھ نہیں ہوتا، کوئی کسی کی خاطر نہیں مرتا۔ سماج میں تبدیلی لانے کے لیے ہم سب کو اپنی اپنی منفی سوچ کو بدل کر مثبت انداز میں ڈھالنا ہوگا ان دنوں دراصل روپیہ انسان سے زیاد ہ اہم ہوتا جا رہا ہے۔ رشتوں کو مضبوط بنانے سے بیشتر مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ احساسِ برتری یا احساسِ کمتری سے بچنا ہی اچھے خیالات کا ماخذ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).