تین طلاق بل کی مخالفت: کیا انڈین مسلمان ’اصلاح’ کے خلاف ہیں؟


طلاق

کئی قانونی ماہرین اس نئے قانون کو مسلمانوں کے عائلی معاملات اور صنفی برابری کے ضمن میں اصلاح کی جانب پہلا قدم قرار دیتے ہیں

انڈیا کی پارلیمنٹ نے منگل کو ایک ہی بار میں تین طلاق دینے کے طریقے کو غیر قانونی قرار دینے کے بل کی منظوری دی ہے۔

یہ بل اب انڈیا کے صدر کے پاس جائے گا اور ان کے دستخط کے ساتھ ہی یہ بل قانون کی شکل اختیار کر لے گا۔ اس نئے قانون کے تحت اگر کوئی مسلم شوہر اپنی بیوی کو ایک ہی بار میں تین طلاق دے کر اپنی شادی کو ختم کرتا ہے تو اسے تین برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

حزبِ اختلاف کی بعض جماعتوں اور تقریباً سبھی مسلم مذہبی اور سماجی تنظمیوں نے تین طلاقوں کے اس نئے قانون کی مخالفت کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم شادی ایک ‘سول کنٹریکٹ’ ہے اور سول کنٹریکٹ میں کسی بھی فریق کو اس سے الگ ہونے کی آزادی ہے۔

ان کے مطابق شادی کے کنٹریکٹ سے الگ ہونے کو جرم قرار دینا ’نیک نیتی‘ پر مبنی قدم نہیں ہے۔ حزب اختلاف کے کئی رہنماؤں نے اسے مذہبی آزادی کی بنیاد پر آئین کے خلاف بھی قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیے

’بیوی کو تین طلاق دینے پر جیل جانا پڑے گا‘

انڈیا میں طلاق پر بحث پیچیدہ اور متنازع

تین طلاقیں، پانچ جج اور مذاہب بھی پانچ

سب سے زیادہ اعتراض اس پہلو پر تھا کہ جب انڈیا میں کسی مذہب میں طلاق کے معاملے میں سزا کا انتظام نہیں ہے تو پھر صرف مسلم شوہروں کو طلاق کے لیے کیوں سزا دی جا رہی ہے؟

بعض نے کہا کہ یہ خواتین کے تحفظ کا قانون نہیں بلکہ مسلم مردوں کو جیل میں ڈالنے اور انھیں غیر انسانی شکل میں پیش کرنے کی کوشش ہے۔

مگر کئی قانونی ماہرین اس نئے قانون کو مسلمانوں کے عائلی معاملات اور صنفی برابری کے ضمن میں اصلاح کی جانب پہلا قدم قرار دیتے ہیں۔

طلاق

انڈیا کے آئین میں مسلم ‏عورت کو طلاق کے سلسلے میں کسی طرح کا قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے

انڈیا کا مسلم معاشرہ دوسری برادریوں کی طرح ایک روایتی معاشرہ ہے اور عموماً خاندان اور مقامی بزرگوں کی طرف سے تمام کوششوں کی ناکامی کے بعد ہی طلاق کی باری آتی ہے۔

لیکن گزشتہ عشروں میں روزگار اور بہتر مواقع کے لیے بڑے پیمانے پر بڑے بڑے شہروں کی طرف ہجرت، دنیا کے بارے میں جاننے اور آزادی سے انسانی رشتوں اور معاشرتی قدروں میں زبردست تبدیلی آئی ہے۔ بعض تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان عوامل کی بناء پر طلاق اور بالخصوص تین طلاق کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

انڈیا کے مسلمانوں میں شادی ایک مضبوط سماجی رشتہ ہے لیکن اپنی بیوی کو طلاق دینا مسلم برادری میں باقی سبھی مذاہب کے مقابلے سب سے آسان ہے۔ انڈیا کے آئین میں مسلم ‏عورت کو طلاق کے سلسلے میں کسی طرح کا قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے۔

طلاق

خواتین کی کئی تنظیموں نے شادی کے لیے ایک ماڈل نکاح نامہ بنانے اور ایک ہی بار میں تین طلاق کا طریقہ ختم کرنے کے لیے مہم چلا رکھی تھی

شادی، طلاق اور وراثت جیسے معاملے انگریزوں کے زمانے سے چلے آرہے مسلم پرسنل لا ایکٹ 1937 کے تحت طے کیے جاتے رہے ہیں۔ دوسری جانب مسلم پرسنل لا بورڈ ایک خود ساختہ اور غیر منتخب ادارہ ہے جو ملک کے سبھی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ مسلمانوں کے مختلف مسالک کے علما اور مذہبی تنظیموں سے وابستہ افراد اس کے عہدیدار اور رکن ہیں۔

یہی ادارہ مسلمانوں کے دینی اور دنیاوی مسائل پر مسلمانوں اور حکومت کی رہنمائی کرتا رہا ہے مگر حالیہ برسوں میں اس میں مسلکی اختلافات کے سبب پھوٹ پڑ چکی ہے۔

گزرے ہوئے برسوں میں ملک میں مسلم خواتین کی بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن اور وومن کلیکٹیو جیسی بہت سی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ کئی تنظیموں نے شادی کے لیے ایک ماڈل نکاح نامہ بنانے اور ایک ہی بار میں تین طلاق کا طریقہ ختم کرنے کے لیے مہم چلا رکھی تھی۔

ایک ماڈل نکاح نامہ تو بن چکا ہے لیکن طلاق ثلاثہ اور نکاح حلالہ کے سلسلے میں پرسنل لا بورڈ نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ سوشل میڈیا اور خواتین کی تنظیموں کے توسط سے اس طرح کے طلاق اور نکاح کے معاملے سامنے آنے لگے۔ موبائل فون، واٹس ایپ کے ذریعے طلاق اور زبانی تین طلاق کے سینکڑوں واقعات پیش آئے۔

لیکن پرسنل لا بورڈ ان واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی اصلاحی قدم نہ اٹھا سکا۔ بالآخر سپریم کورٹ نے ایک مقدمے کی سماعت کے بعد تین طلاق کو غیر قانونی قرار دیا۔

طلاق

تین طلاق کا بل پاس ہونا بی جے پی کی حکومت کے لیے سیاسی اعتبار سے ایک بہت بڑی کامیابی ہے

خواتین کی بعض تنظیموں نے لاکھوں خواتین کے دستخط کے ساتھ حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ مسلم خواتین کوتحفظ فراہم کرے۔ تین طلاق کا معاملہ وزیر اعظم نریندر مودی کی گزشتہ حکومت کے دوران زیر بحث آیا تھا اور حکومت نے اپنے انتخابی منشور میں اسے اہم موضوعات میں شامل کیا تھا۔ منگل کو تین طلاق کا بل منظور ہو گیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قانون سے تین طلاق کے چلن میں کمی آئے گی اور طلاق دینے کا معاملہ اب اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا اس قانون سے پہلے تھا۔

لیکن مودی حکومت کے اس قدم کا مقصد مسلمانوں کے خاندانی معاملات میں ’اصلاح’ سے کہیں زیادہ اپنے حامی ہندوؤں کو یہ پیغام دینا ہے کہ اس نے وہ کام کر دیا جو کانگریس کی حکومتیں مسلم ووٹ بینک کے لیے کئی عشروں کے اپنے دور اقتدار میں نہ کر سکیں۔

اس سے بھی اہم پہلو یہ ہے کہ جس آسانی سے یہ بل پارلیمنٹ میں منظور ہوا ہے وہ بی جے پی کی حکومت کے لیے کافی حوصلہ افزا ہے۔

طلاق

تین طلاق کا معاملہ وزیر اعظم نریندر مودی کی گزشتہ حکومت کے دوران زیر بحث آیا تھا اور یہ حکومت کے انتخابی منشور کے اہم موضوعات میں شامل کیا تھا

حکومت نے اس پہلو کا بھی بہت گہرائی سے مشاہدہ کیا ہے کہ اس بل پر علما کے علاوہ عام مسلمانوں کا رویہ کیا ہے۔ پورے ملک میں مسلمانوں کی طرف سے اس کے بارے میں کوئی منظم ردِ عمل نہیں ہوا ہے۔

بی جے پی کے انتخابی منشور میں پورے ملک میں یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنے کا وعدہ بھی شامل ہے۔ امریکہ اور یورپی جمہوریتوں کی طرح سبھی مذہبی برادریوں کے لیے یکساں سول قانون کی تجویز کی مخالفت سب سے پہلے ہندو تنظیموں نے کی تھی۔

لیکن اب عمومی تاثر یہ ہے کہ صرف مسلم علما اور کچھ اعتدال پسند دانشور ہی اس کے مخالف رہ گئے ہیں۔

تین طلاق کا بل پاس ہونا بی جے پی کی حکومت کے لیے سیاسی اعتبار سے ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ مودی حکومت طویل سیاسی منصوبے پر عمل کرتی ہے۔ وہ بڑی تبدیلیوں اور اصلاحات کے لیے اب پارلیمنٹ کا راستہ اختیار کرے گی۔

یونیفارم سول کوڈ بی جے پی کا ایک پرانا خواب ہے جس کی وہ تکمیل دیکھنا چاہتی ہے اور فضا اس کے لیے فی الوقت بہت موافق ہے۔ یوں ٹرپل طلاق بل نے یونیفارم سول کوڈ کے لیے راستہ ہموار کر دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp