سینیٹ میں ”جیت“


چیئرمین سینیٹ جناب صادق سنجرانی صاحب کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد ناکام ہوگئی ہے۔ سنجرانی صاحب کی حمایت پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی کر رہے تھے جن کے سب ملا کر سینیٹ میں چھتیس ارکان ہیں۔ جناب سنجرانی کو عدم اعتماد کے ووٹ میں پینتالیس ووٹ حاصل ہوئے جس کا مطلب یہ ہے کہ حزب اختلاف کے نو ارکان نے بھی خفیہ رائے دہی میں ان کو ووٹ دیا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ماضی کی طرح اس سرگرمی میں بھی دھاندلی اور ارکان کو ترغیب دینے اور مجبور کرنے کا عنصر موجود تھا۔ الیکشن کمیشن کو اس بارے تحقیقات لازمی کی جانی چاہئیں۔

قرارداد پر ووٹنگ سے پہلے اپوزیشن کے چونسٹھ ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر سنجرانی صاحب پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ لیکن بعد میں عدم اعتماد کے حق میں پچاس ارکان کا ووٹ ریکارڈ پر آیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خفیہ رائے دہی نے دونوں عناصر۔ ایک وہ جس کو حمایت کی ضرورت تھی اور دوسرا وہ جو یہ فراہم کرنے کے لیے تیار تھا۔ کو موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔

تاہم علانیہ طور پر ایک کی حمایت کرنا اور پھر خفیہ رائے دہی میں دوسرے کی حمایت دوغلا پن اور غیر اخلاقی کام ہے۔ کوئی جس طرف کی بھی حمایت کرنا چاہتا تھا اسے یہ کام کھل کر کرنا چاہیے تھا نہ کہ چوری چھپے۔ خفیہ رائے دہی میں سنجرانی صاحب کو ووٹ دینا ضمیر کی آواز قرار دیا جارہا ہے تو کیا قانون میں اپنے پارٹی لائن کے خلاف کسی رکن کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے؟ اور اگر ایسا عمل ماضی میں لوگوں کا ضمیر خریدنے کے مترادف تھا تو اب جائز کیسے ہوگیا؟

حزب اختلاف کو عدم اعتماد میں کامیابی کے لیے ترپن ووٹوں کی ضرورت تھی لیکن نتیجہ سامنے آیا تو اسے پچاس ووٹ ملے تھے۔ یہ اس لیے کہ پانچ ووٹ فنی وجوہات کی بنا پر مسترد کر دیے گئے جو ظاہر ہے حزب اختلاف کے ووٹ تھے۔ حیران کن طور پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کے خلاف عدم اعتماد کی حکومتی قرارداد کے حق میں چھتیس ووٹ آئے جو حکومت اور اس کے اتحادیوں کے سینیٹ میں کل ارکان کی تعداد ہے۔ یعنی اگر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا گیا ہے تو یہ بظاہر حکومتی نہیں بلکہ حزب اختلاف کی طرف سے دیا گیا ہے۔

یہ نتیجہ دکھاتا ہے کہ حسب معمول سیاسی انجنیئرنگ کی/دیکھی گئی ہے۔ حزب اختلاف کے قائد شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ عدم اعتماد کی قرارداد پر رائے دہی میں تحریک کے حق میں ووٹ نہ دینے والے ارکان کے نام قوم کے سامنے جلد رکھے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کو بھی اس معاملے پر تحقیقات کر لینی چاہئیں۔ جماعت اسلامی نے عدم اعتماد کی قرارداد پر رائے دہی میں حصہ نہیں لیا۔ اگرچہ اس نے کہا وہ غیر جانبدار رہی لیکن اس کے بائیکاٹ کا عملی مطلب موجودہ چیئرمین سینیٹ اور پی ٹی آئی کی حمایت تھا۔

نتیجہ کے مطابق سنجرانی صاحب کی مخالفت کم سے کم پچاس اور حمایت پینتالیس ارکان نے کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس سینیٹ میں اکثریت کی حمایت باقی نہیں رہی۔ اخلاقی طور پر اب انہیں عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔ اس انتخابی عمل نے ایک دفعہ پھر ثابت کردیا کہ ہمارے جمہوری نظام کو ابھی حقیقی جمہوریت کا نمونہ بننے کے لیے طویل فاصلہ طے کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).