کشمیر: ایک نظر ادھر بھی


آزاد کشمیر وادی نیلم گزشتہ روز بھارتی افواج کی جانب سے گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے کانپ اٹھا۔ لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے، شاہراہ نیلم پورا دن بند، بازار بند اور کاروباری سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی۔ سکول، کالجز، یونیورسٹی کے طلباء اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں ہی دب کر رہ گئے۔ جیسے نیلہم ویلی گولیوں اور گولہ بارود کی تڑتڑاہٹ سے لرز گیا ایسے ہی وہ مائیں بھی جن کے بچے سکول، کالج یا یونیورسٹی میں تھے وہ بھی تڑپ گئیں۔

لوگ اپنی جانیں بچانے کے لئے مورچوں کی تلاش میں تھے لیکن وہ مائیں اپنی جان کی پراہ کیے بغیر اپنے بچوں کی جان بچانے میں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی کی طرف لپک رہیں تھیں۔ میرے آبائی گاؤں نیلم ویلی سے میری ماں کا فون اورخیریت دریافت کی۔ ان کی آواز کچھ سہمی ہوئی لگ رہی تھی میں نے خیریت پوچھی تو ماں نے ساری کہانی بیان کی اور بار بار پوچھ رہیں تھیں کہ سب ٹھیک ہے نا بھائی بھی ٹھیک ہیں نا۔ میں نے ماں سے پوچھا کہ لاہور میں کہاں سے گولیاں چلنی ہیں، یہاں تو کوئی بارڈر نہیں ہے، یہاں تو کوئی پہاڑ نہیں ہیں جو وہ چھپ کے گولہ باری یا فائرنگ کریں گے۔

جب میں نے ماں کی یہ حالت دیکھی تو میں سوچنے پے مجبور ہو گیا کہ اگر ایک ماں جس کا بیٹا لاہور میں بیٹھا ہے اس کی اتنی فکر ہو رہی ہے کہ کہیں انڈیا کی گولیاں لاہور میں تو نہیں برس رہی؟ تو وہ مائیں جن کے بیٹے، بیٹیاں نیلم کے سکولوں اور کالجوں میں انڈیا کے بارڈر کے سامنے اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر میلوں پیدل چل کر پڑھنے جاتے ہیں تو ان ماؤں کا کیا حال ہو گا۔

پندرہ سال تک بدترین محاصرے اور فائرنگ کا سامنا کرنے اور پھر زلزلے کا عذاب جھیلنے کے بعد وادی نیلم چند سالوں سے ایک نارمل لائف کی طرف گامزن تھی۔ سیاحتی سرگرمیاں شروع ہوکر بتدریج استحکام پکڑ رہی تھیں کہ پھر سے ایڈونچر شروع ہوگیا۔ غالبا 15 سال بعد لائن آف کنٹرول کے تمام سیکٹرز پر بھرپور حملہ کیا گیا۔ بلا اشتعال سول آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔ سکول اور ہسپتال بھی مشق ستم کا نشانہ بنے۔ غالبا یہ اس کامیاب ڈپلومیسی کا شاخسانہ ہے جو پچھلے دو ہفتوں سے سب کی زبان پر تھی۔

ایک جنونی نے دوسرے جنونی سے کہا کہ تیسرا جنونی تیرے ساتھ صلح کے لئے مجھے سے مدد مانگ رہا ہے۔ اب تیسرا جنونی اپنا شملہ اونچا رکھنے کے لیے حالات کو ابتری کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ایسے میں اگر بیس پچیس یا سو دو سو کشمیری بھینٹ چڑھ جائیں تو ان کی بلا سے۔ لوگوں کی عمر بھر کی جمع پونجی داؤ پر ہو تو کیا فرق پڑتاہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے بے تاج بادشاہ کے وقار کے لیے یہ کوئی بڑی ڈیل تو نہیں۔ یار تم اپنی اپنی سیاست کھیلو۔ داؤ پیچ ایک دوسرے پر آزماؤ۔ کیا تمھیں یہی معصوم ملے ہیں اپنی طاقت کے اظہار کے لیے؟

اوپر سے اپنے بے تاب بادشاہ جنہوں نے بے لگام میڈیا کو ایسی لگام دے رکھی ہے کہ مودی کے کارناموں سے کوئی آگاہ نہ ہونے پائے۔ جانے اس خبر کو روک کر کیا مقصد حاصل کرنا ہے۔ ہم تو بھولے بھالے لوگ آج تک ففتھ جنریشن وار کو سمجھ نہ پائے تو یہ گہری حکمت عملی ہمیں کب سمجھ آسکتی ہے۔ بس گزارش اتنی سی ہے، آپ کی حکمت عملی کچھ بھی ہو ہمیں بطور ٹول استعمال کرنا بند کردو۔

ستم اور بالا ستم یہ کہ میڈیا اندھا، بہرا اور گونگا ہو گیا جس کو اس دنیا کا ایک ٹکڑا جہاں پر ظلم و ستم کی انتہا ہو رہی ہے اور میڈیا پر ابھی تک ایسی خبر نہیں آئی۔ جو نہ رات دیکھتے ہیں نہ دن ہر وقت ٹی وی سکرین پر بھونکتے ہوئے نظر آتے ہیں، میڈیا آزاد کی آوازیں لگاتے نظر آتے ہیں، ( معذرت کے ساتھ ) مجھے یہ الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہیے میں خود جرنلسٹ ہوں لیکن حقیقت سے آگاہ ہوں۔ لیکن میڈیا کا یہ رویہ دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ یہ جمہوریت کا چوتھا ستون نہیں بلکہ بھکاریوں کا پہلا ستون ہے جو پیسے کی گیم پر چلتا ہے۔

ٹی وی سکرین پر دو جملے بولنے سے زبان پر چھالے بن جاتے؟ جو نواز شریف، عمران خان، شہباز شریف وغیرہ کے بارے میں بولنے سے زبان نہیں تھکتی اور نہ ہی چھالے بنے لیکن ان نام نہاد اینکروں اور نیوز ڈائریکٹرز کو ایک منٹ کے لئے بھی ان مظلوموں کا خیال نہیں آیا جو اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ کیا یہ خبر نہیں تھی؟ کیا جو جانیں ضائع ہوئی وہ خبر نہیں تھی؟ جن کے گھروں کو آگ لگ گئی وہ خبر نہیں تھی؟ جن کا سب کچھ لٹ گیا وہ خبر نہیں تھی؟ آپ خبر صرف اس کو کہتے ہیں جو پیسے دے وہ خبر بن جاتی ہے یا پھر سیاسی شخصیت سے لنک بڑھانے کے لئے ان کی خبروں کو اچھالا جاتا ہے۔ لعنت ہے ان بیورو چیف پر جو چینل کے کارڈ اور لوگو مائیک لے کر بلیک میلنگ کرتے نظر آتے ہیں۔

اب سمجھ آئی کہ یہ خبر کیوں نہیں چلی۔ کیونکہ اس خبر میں کسی کو بلیک میل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان سیاسی ٹولوں کو چھوڑ کر خدارا ایک نظر ادھر بھی ڈالیں اور دنیا کو دکھائیں کہ اس حسین وادی کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).