کشمیر اور گلگت کو ملانے والا درہ شونٹھر ویرانے میں کیسے بدلا؟


پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ”درہ“ شونٹھر میں کبھی خاصی چہل پہل ہوا کرتی تھی۔ مگر اب یہ علاقہ ویرانی کا منظر پیش کرتا ہے۔ تقسیم برصغیر سے قبل یہ ”درہ“ گلگت بلتستان کو وادی کشمیر سے ملاتا تھا اور مسافر شونٹھر پاس عبور کرنے کے لئے یہاں پڑاؤ ڈالتے تھے۔

مظفر آباد سے تقریباً 190 کلو میٹر فاصلے پر جنوب مشرق میں واقع یہ ”درہ“ سطح سمندر سے 10,200 فٹ بلند ہے، جب کہ شونٹھر پاس پر اس کی بلندی ساڑھے چودہ ہزار فٹ تک پہنچ جاتی ہے۔

کشمیر کے ڈوگرہ دور حکومت میں مسافروں کے قیام کے لئے یہاں ”سرائے“ بھی تعمیر کی گئی تھی اسی وجہ سے مقامی آبادی آج بھی اس مقام کو ”بنگلہ“ کے نام سے پکارتی ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی دوسری بلند ترین چوٹی ”ہری پربت“ کے دامن میں واقع یہ علاقہ قیمتی جڑی بوٹیوں، معدومی کا شکار ”بھوج پتر“ (جسے مقامی زبان میں ”بھرج“ کہا جاتا ہے) کے جنگلات، مار خور، کستوری والے ہرنوں اور معدنیات کے حوالے سے بھی شہرت رکھتا ہے۔

تقسیم برصغیر سے قبل کشمیر کے ڈوگرہ حکمرانوں کی جانب سے یہاں جنگلات، جنگلی حیات، معدنیات، جڑی بوٹیوں، اور مسافروں کی حفاظت کے لئے فوجی چوکی قائم کی جاتی تھی مگر اب یہاں حکومت نام کی کسی چیز کا نشان نہیں ملتا۔

یہاں کے سکونتی 90 سالہ ولی احمد کا کہنا ہے کہ ڈوگرہ دور میں گلگت بلتستان کی عوام اسی علاقے سے گزر کر کپواڑہ (موجودہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر) تک جاتے اور ”اناج“ لے کر واپس آتے تھے۔ اس دور میں سڑکیں اور گاڑیاں نہیں ہوتی تھیں، مال برداری کے لئے گھوڑے اور خچروں کا استعمال ہوتا تھا۔ یہاں روزانہ قافلے آ کر رکتے، اگر موسم خراب ہو جاتا توقافلے کئی کئی روز یہاں ہی ٹھہرے رہتے تھے۔

ولی احمد کا مزید کہنا تھا کہ فوجی ساز و سامان کی منتقلی کے لئے مقامی افراد سے جبراً بیگار لی جاتی تھی۔ اس دور میں بڑا ظلم تھا کیل سے رٹو (استور) کی بیگار سے واپس آتے تو وہیں سے کسی دوسری طرف بھیج دیا جاتا۔ بیگار کا سلسلہ قیام پاکستان کے بعد بھی بھٹو کے دور حکومت تک جاری رہا۔

قیام پاکستان کے بعد اس ”درہ“ کا استعمال پنجاب سے آنے والے خانہ بدوش گجر قبائل (بکروال) تک محدود ہو کر رہ گیا جو مئی کے وسط میں درہ عبور کر کے استور کی چراگاہوں تک جاتے ہیں اور ستمبر کے وسط تک وہاں قیام کرتے ہیں۔

گرمیوں کے موسم میں گلگت بلتستان سے مویشیوں کی خریداری کے لئے آنے والے افراد بھی اسی راستے کا استعمال کرتے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے پنجاب کے بعض تاجر چین کو گدھے سپلائی کرنے کے لئے بھی اسی راستے سے گزر کر جاتے ہیں۔ ڈوگرہ دور حکومت میں گلگت بلتستان کے عوام، وزیر، وزارت (ڈپٹی کمشنر) سے باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ (پشتنی سرٹیفکیٹ) اور ڈومیسائل کے حصول اور طلبا، علم کی پیاس بجھانے کے لئے اسی راستے سے گزر کر مظفر آباد پہنچتے تھے۔ گلگت بلتستان کے طلبا کی کثیر تعداد آج بھی جامعہ کشمیر میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

تقسیم برصغیر کے بعد حکومت پاکستان نے اپنے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کو الگ الگ انتظامی یونٹ میں تقسیم کر کے دونوں خطوں کو آپس سے جدا کر دیا مگر قدرتی راستوں کی حقیقت اب بھی اپنی جگہ مسلم ہے۔

آزادی پسند طلبا تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے 2007 ءمیں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے مابین قدرتی راستے بحال کرنے کے لئے تحریک چلائی اور 14 اگست کو ”درہ“ شونٹھر عبور کرنے کی کوشش میں دو کارکن راجا بہزاد اورسردار امجد تیرہ ہزار فٹ بلندی پر آکسیجن کی کمی کے باعث زندگی کی بازی ہار بیٹھے۔

1949 ءمیں حکومت پاکستان نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی حکومت سے ”معاہدہ کراچی“ کے ذریعے گلگت بلتستان کا انتظام اپنے پاس لے کر خطہ میں سیاسی سرگرمیوں پر 2008 ء تک پابندی عائد کیے رکھی۔

پاکستان میں پرویز مشرف کے مارشل لا کے خاتمے کے بعد پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو گلگت بلتستان کو عارضی صوبہ بنا کرسیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور گلگت میں پہلے عام انتخابات کے نتیجے میں مہدی شاہ وزیر اعلیٰ نامزد ہوئے تو انہوں نے شونٹھر تا استور روڈ کی بحالی کے لئے اپنے تئیں بھرپور کوشش کی۔

قدیم قدرتی راستے کی بحالی کے لئے حکومت پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے کئی بار شونٹھر تا استور سرنگ نکالنے کے اعلانات کیے ہیں مگر منصوبے پر کام کا آغاز نہیں کیا جا سکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).