سینیٹ میں نواز شریف اور زرداری کی بہترین چال اور ایک لطیفہ


آپ میں سے بہت سے لوگ حیران ہو رہے ہوں گے کہ نواز شریف اور آصف زرداری جیسے گھاگ سیاست دانوں نے یہ کیا حماقت کی ہے۔ محض عددی قوت کے زعم میں آ کر انہوں نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی۔ کیا انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ طلسم ہوشربا میں لشکر کی تعداد کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا جادو کا ہوا کرتا ہے۔ کوئی بھی طاقتور ساحر ایک ناریل پھوڑتا ہے یا مونگ کی کالی دال جسم پر ملتا ہے اور اکیلا ہی لاکھوں کے لشکر کو دیوانہ بنا ڈالتا ہے۔

ایسی بات نہیں ہے۔ نواز شریف اور آصف زرداری پچھلے پینتیس چالیس سال سے سیاست میں ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ سیاست میں کیا سحر چلتے ہیں، کس طرح لوگوں کے دماغ اور ووٹ پلٹ جاتے ہیں۔ وہ خود ایسے سحر سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ لیکن اب یہ سحر ان کے خلاف استعمال ہر رہا ہے تو انہوں نے اس کا جواب دینے کی کوشش شروع کی ہے۔

میری رائے میں اپوزیشن کی حکمت عملی کامیاب رہی ہے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ الیکشن میں روپے پیسے کا جادو چلتا ہے۔ یہ جادو نہ ہو تو سب ممبران اسمبلی اپنی اپنی پارٹی لائن پر ووٹ دیں گے یا ذاتی تعلقات پر۔ اب سینیٹ کا گزشتہ الیکشن ہی دیکھ لیں۔ مارچ 2018 کے سینیٹ الیکشن میں نون لیگ کو باہر کروانے کے لیے خریداروں کے اربوں روپے لگ گئے تھے۔ پہلے بعض لوگ رقمیں لگا کر سینیٹر بنے اور پھر چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے موقعے پر بھی ایسا جادو چلنے کی خبریں آئیں۔ اور اب محض پانچ مہینے بعد ہی اگست 2019 میں صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر کے اور دوبارہ ووٹنگ کروا کر پھر خریداروں کا کروڑوں اربوں کا خرچہ کروا دیا گیا ہے۔ خریداروں کے لیے ہر پانچ چھے مہینے بعد اربوں کا ٹیکا برداشت کرنا آسان تو نہیں۔ آئٹم مہنگے ہوں تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ قارون کا خزانہ بھی خالی ہو جاتا ہے۔

اب آپ میں سے بعض افراد حسب معمول قنوطیت سے کام لیتے ہوئے شک و شبہ ظاہر کریں گے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ اپوزیشن ہے ہی احمق اور اسی وجہ سے جب بھی وہ اپنے تئیں سیانی بنتی ہے تو بری طرح پھنس جاتی ہے اور کبھی جدے جاتی ہے تو کبھی جیل۔ لیکن اگر آپ نے کل شکست کھانے کے بعد مریم نواز کا بیان دیکھا ہو تو آپ کو میری اس بات کا یقین آ جائے گا۔

مریم نواز نے شکست کھاتے ہی ایک مرتبہ پھر تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عدم اعتماد کی دو تحاریک میں خدا جانے کتنا قانونی وقفہ ضروری ہے مگر لگتا ہے کہ ہر چھے مہینے بعد خریداروں سے یہ ہرجانہ لیا جائے گا۔ یوں اپوزیشن خریداروں کو دیوالیہ کر کے انتخابی سیاست کو روپے پیسے سے پاک کرنے کے مشن پر کام کرنے میں جتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

غالباً اپوزیشن کے ان سیانوں نے بھی ہماری طرح وہ لطیفہ سن رکھا ہے جس میں اپنی زوجہ معظمہ کے ظلم و ستم سے پریشان ایک پہلوان کو اس کا دوست مشورہ دیتا ہے کہ صبح دوپہر شام حکیمی نسخوں سے کشید کی گئی توانائی کے مسلسل اور پیہم استعمال کے نتیجے میں وہ اپنی زوجہ معظمہ کو ہلکان کر کے صرف چار مہینے میں ختم کر سکتا ہے اور اس پر کوئی الزام بھی نہیں آئے گا۔

چار مہینے بعد وہ پہلوان اپنے دوست کو بازار میں لڑکھڑاتا ہوا چلتا دکھائی دیتا ہے۔ رنگ اس کا پیلا پڑا ہوتا ہے۔ وزن آدھا رہ گیا ہوتا ہے۔ ہاتھ پاؤں کانپ رہے ہوتے ہیں۔ مگر چہرے پر ایک مستقل مسکراہٹ جگمگا رہی ہوتی ہے۔ دوست حال احوال پوچھتا ہے تو وہ پہلوان کانپتی ہوئی آواز میں بتاتا ہے کہ اس کی زوجہ معظمہ بظاہر پہلے سے زیادہ صحت مند اور خوش باش دکھائی دیتی ہے اور اسے علم ہی نہیں کہ اندر ہی اندر اس کی صحت تباہ ہو چکی ہے اوروہ بس چند دن کی مہمان ہے۔
اپوزیشن کے پہلوان مطمئن رہیں اور اپنی حکمت عملی پر کام جاری رکھیں، سیاست میں کرپشن بھی ایسے ہی چند دنوں کی مہمان ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar