جنرل فیض، خدا کرے آپ آرمی چیف بنیں


وطنِ عزیز میں جسے اور کچھ نہیں ملتا وہ پاک فوج پر تنقید شروع کر دیتا ہے۔ جسے سازش کے تانے بانے بننے ہوں، وہ پسِ پردہ قوتوں کی طرف اشارہ کر دیتا ہے۔ اور قلمکار ویسے ہی بدنام ہیں۔ کسی پر بھی تنقید کر دیں، لازم ہے کہ حزبِ مخالف سے لفافہ وصول کیا ہوگا۔ پاک فوج کے ترجمان نے کہا بھی کہ میڈیا چھ مہینے مثبت رپورٹنگ کرے، لیکن یار لوگوں نے اس میں بھی مزاح کا عنصر ڈھونڈ لیا۔ اب میڈیا تو معدودے چند مستثنیات کے، راہِ راست پر آ چکا ہے، لیکن یہ جو انٹرنیٹ ہے یہ ہر فساد کی جڑ ہے۔

گاہے کوئی منہ اٹھا کر فوج پر تنقید کرتا ہے۔ اور لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جسے مقبول ہونا ہوتا ہے وہ فوج کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دیتا ہے۔ کوئی مقبولیت کے خوف سے، تو کوئی اپنی شکست کا غم مٹانے کو۔ جو نام نہیں لے سکتا وہ ’نکے دا ابا‘ کہہ کر کام چلا لیتا ہے۔ اب یہ حاصل بزنجو کو ہی دیکھ لیں۔ منہ کھول کے جنرل فیض کا نام لے دیا۔ اب جنرل صاحب کوئی لٹھ لے کر تھوڑے ہی دوڑے ہوں گے ان چودہ سینیٹرز کے پیچھے۔ آپ اور آپ کے سینیٹرز اتنے ہی صاحبِ کردار ہوں تو جس نے بھی پیسوں کی آفر کی ہے اسے ٹکا سا جواب دے دیں، سامنا کریں دباؤ کا۔ اب یہ سینیٹ کے الیکشن تو ہوتے ہی بکنے کے لئے ہیں۔ اب بازار میں کوئی جنس پیش ہو گی تو دام تو لگے گا۔

یہی سینیٹ کا الیکشن تھا، یہی صادق سنجرانی تھے، پیپلز پارٹی جوڑ توڑ میں پیش پیش تھی۔ بلوچستان سے سینیٹرز خریدے گئے۔ اس سے پہلے بلوچستان میں صوبائی حکومت بدلنی تھی تو راتوں رات ووٹ خریدے گئے۔ اور ایک ایسے شخص کو وزیراعلیٰ بنایا گیا جس نے 2013 کے عام انتخابات میں کل ایک ہزار سے بھی کم ووٹ لئے تھے۔ اس وقت اسی صادق سنجرانی کی جیت پر پیپلز پارٹی جشن منا رہی تھی۔ اور جشن بھی کیا منا رہی تھی، پیسے کے رقص سے یار منانے کی کوشش کر رہی تھی۔

اب حاصل بزنجو صاحب کو کیا پڑی تھی جنرل فیض حمید کا نام لے کر فوج کو بدنام کرنے کی۔ کیا آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ فوج نے انہیں خریدا یا آپ بس ہوائی باتیں کر رہے ہیں؟ کیا فوج نے کہا کہ آپ بکیں؟ جو نہیں بکے، کیا ان کا دام لگانے کی کوشش نہیں کی گئی ہو گی؟ ایک دوشیزہ بازارِ حسن میں سج سنور کر بیٹھے، تو قصور کس کا ہے؟ اس دوشیزہ کا یا اس خریدار کا جو حسن کا دام لگا کر چند گھڑیاں نشاط میں بسر کرتا ہے؟ سب مل کر فوج کو گالیاں دیتے ہیں۔ تو دکھائیے کردار کی مضبوطی۔ آپ نہ بکیں، خریدار نہیں خریدے گا۔

رہی بات جنرل صاحب کی تو جنرل فیض جتنا میڈیا سے دور رہتے ہیں، اس کے برعکس اتنے ہی معروف بھی ہیں۔ فیض آباد دھرنے میں نام تو سنا ہو گا؟ میرے منہ میں خاک۔ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اسی کارکردگی کے صلے میں آئی ایس آئی کے ڈی جی بنے۔ عام انتخابات کس کو بھولے ہوں گے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی تو کبھی بھولیں گے نہیں۔ اور نہ ہی مولانا فضل الرحمٰن انہیں بھولنے دیں گے۔ نکے دا ابا کی اصطلاح بھی مولانا نے ہی متعارف کروائی۔

اب گلاب کو کسی بھی نام سے پکاریں، خوشبو تو وہی رہے گی۔ تو کہتے رہیے حضور۔ نام لیں یا نہ لیں۔ مقتدر ادارے کہہ کر اشارہ کریں، محکمہ زراعت کہہ کر پکاریں یا خلائی مخلوق۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ اشارہ کس طرف ہے۔ تو عرض یہ ہے کہ محکمہ زراعت نے جس خوبی سے اس دفعہ سنڈیوں کو قابو کیا ہے، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ دو بڑے حریفوں کو آپس میں لڑوا دیا۔ دونوں اپنی طرف سے اپنا رانجھا راضی کرتے رہے، لیکن رانجھا تو کسی اور کی زلف کا اسیر ہو چکا تھا۔

یہ مٹیار ابھی کنواری بھی تھی، تو موقع دینے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں تھا۔ اب آدھی سے زیادہ اپوزیشن جیل میں ہے۔ جو باہر ہیں وہ آج اندر ہوئے کہ کل۔ پنجابی کہاوت کے مطابق گلیاں تو سنجیاں یعنی سنسان ہو چکی ہیں، لیکن مرزا یار ابھی تک کھل کر دندنانے کی پوزیشن میں نہیں آیا۔ اب کوئی اس سے زیادہ کیا کرے؟

سیاستدانوں اور صحافیوں کے پاس فوج پر تنقید کرنے کے علاوہ بچا ہی کیا ہے۔ ہر پارٹی ہر سیاستدان آخری لمحے تک اپنا منجن بیچنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب فوج کسی اور کا منجن خرید لیتی ہے تو سب جمہوریت پسند ہو جاتے ہیں۔ صفِ اول کی جماعتوں میں شاید کوئی بھی ایسی پارٹی نہیں جس نے کسی نہ کسی سٹیج پر فوج سے ڈیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جب ڈیل نہیں بنتی تو سب سستے چی گویرا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر الیکشن سے پہلے یہ سب ہوتا آیا ہے۔

کبھی سیاستدانوں نے فوج پر تنقید کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں نہیں جھانکا کہ انہی کی برادری کے لوگ ہیں جو فوج کو بلاتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں اس امید میں کہ فوج اقتدار طشتری میں رکھ کر انہیں پیش کرے گی۔ جب فوج خود زلفِ لیلیٰ کی اسیر ہو جاتی ہے تو پھر یہ اپنا رانجھا جمہوریت کے بت کو بنا لیتے ہیں۔ اب اس کو آپ کنفیوژن کہیں یا کچھ اور۔ لیکن یہ طے ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے نہ پنپنے میں جتنا حصہ اسٹیبلشمنٹ نے ڈالا، اتنا ہی سیاستدانوں نے بھی۔

آپ ڈلیور کریں، عام آدمی کا معیارِ زندگی بہتر بنائیں، لوگ آپ کی ڈھال بنیں گے۔ لیکن نہ آپ ڈلیور کرتے ہیں، نہ کردار دکھاتے ہیں، اور لوگوں سے امید کرتے ہیں کہ لوگ آپ کے لئے ٹینکوں کے آگے لیٹ جائیں۔ اور جب آپ بھاگنے پر آتے ہیں تو اپنے ساتھ والے سیل میں قید غوث علی شاہ کو بھی خبر نہیں ہونے دیتے۔ آپ اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دے کر خود دم دبا کر بھاگ جاتے ہیں۔ اگر کوئی قومی ادارہ سیاسی انجنئیرنگ کرتا ہے تو آپ نے ہی یہ سارے حربے اسے سکھائے ہیں۔ اور یہ کوئی راز نہیں کہ لوگ سینیٹر بنتے کس لئے ہیں۔ باقاعدہ انویسٹمنٹ کر کے سینیٹ کی سیٹ خریدی جاتی ہے۔ اور ہر اہم موقع پر اپنی سرمایہ کاری سود سمیت وصول کی جاتی ہے۔ اب ایسے میں آپ دوش کس کو دیں گے؟ بازارِ حسن میں خود کو پیش کرنے والی طوائف کو یا جو اس کا مول لگائے؟

پاکستان کی صفِ اول کی خفیہ ایجنسی کا ذکر ہو تو آپ جانتے ہیں کہ یہ اپنے کام یعنی حربی کاموں میں دنیا کی بہترین ایجنسیوں میں شمار ہوتی ہے۔ لیکن گاہے اس پر سیاسی انجنئیرنگ کا الزام لگتا رہتا ہے۔ ماضی کے آئی ایس آئی چیفس کو یاد کریں تو ہر ایک کے بارے میں اس کی ریٹائرمنٹ کے بعد منفی تبصرے سننے میں ملتے ہیں۔ اتنی جرات تو نہ اہلِ قلم میں ہے اور نہ ہی میدانِ سیاست کے سواروں بلکہ شہسواروں میں کہ صاحبِ مسند کے بارے میں کچھ کہہ سکیں۔ تو یارلوگ اس کام کے لئے عموماً ریٹائرمنٹ کا انتظار کرتے ہیں۔

مثلاً کبھی تحریک انصاف کی اولین اڑان اور 2011 کے جلسوں کے پیچھے اس وقت کے آئی ایس آئی چیف کا نام آتا ہے، کسی کو 2014 کے دھرنوں کا معمار کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے جنرل کیانی خوش قسمت رہے کہ آئی ایس آئی چیف کے بعد آرمی چیف بن گئے۔ پھر جنرل پرویز مشرف دبے لفظوں میں کہتے بھی رہے کہ لیکن کھل کر کبھی نہیں کہہ سکے کے 2008 کے اگست میں ان کے استعفے تک کیوں فوج نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔

اب جنرل کیانی پر کبھی تنقید ہوتی بھی ہے تو بحیثیت سپہ سالار ان کے فیصلوں اور مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے۔ بطور آئی ایس آئی چیف ان کا دور کسی کو یاد نہیں۔ اس کے برعکس جنرل ندیم تاج، جنرل ظہیرالاسلام وغیرہ کے بارے میں آخری تجزیہ اسی عہدے کے بارے میں ہوتا ہے۔ موجودہ چیف یعنی جنرل فیض حمید صاحب جن کی شہرت ایک پروفیشنل سولجر کی ہے، ان کا نام دھرنوں، عام انتخابات اور اب سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے دبے لفظوں میں لیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بزنجو صاحب کو جانے کیا ہوا کہ کھل کر ان کا نام لے لیا وہ بھی بغیر کسی ثبوت کے۔ اب آخری تجزیے میں جنرل صاحب کا نام کس کیٹیگری میں آئے گا، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن ہم دعا کرتے ہیں کہ جنرل صاحب آرمی چیف بنیں تاکہ تاریخ کے اوراق میں بلند سے بلند تر مقام پا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).