پاکستان کی تین لیلائیں اپنے مجنوں کی منتظر ہیں


عربی زبان میں لفظ لیلیٰ کے معنی ’رات‘ کے ہیں۔ تاہم مشہور عالم لیلیٰ مجنوں کی عشقیہ داستان کے سبب یہ لفظ محبوبہ کے مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم یہاں رات یا عشق و محبت والی لیلیٰ کا ذکر کرنا مقصود نہیں بلکہ لیلیٰ کے نام سے دنیا میں موجود کم از کم ان چار پہاڑی چوٹیوں کا احوال بیان کرنا ہے جن میں سے تین پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔

ان چار لیلاؤں میں سب سے چھوٹی لیلیٰ ترکی کے شمال میں واقع خوبصورت ملک جارجیا کے کوہ قاف پہاڑی سلسلے میں سیونٹی کے علاقے میں واقع ہے۔ وہاں مقامی زبان میں لیلیٰ کا مطلب ’چمکتی ہوئی شے‘ کے ہیں اور قرین قیاس یہی ہے کہ اس خوبصورت پہاڑ کی چمکتی ہوئی برف پوش چوٹی اس نام کی وجہ بنی ہو گی۔ اس واحد غیر پاکستانی لیلیٰ کی اونچائی چار ہزار میٹر کے قریب ہے۔

پاکستان میں لیلیٰ کے نام سے جو تین پہاڑ تین مختلف وادیوں میں موجود ہیں وہ یہ ہیں: بڑی لیلیٰ۔ لیلیٰ پیک ا، وادی ہراموش، قراقرم، 6985 میٹر۔ منجھلی لیلیٰ۔ لیلیٰ پیک اا، وادی حوشی، قراقرم، 6096 میٹر۔ چھوٹی لیلیٰ۔ لیلیٰ پیک ااا، وادی روپال، ہمالیہ، 5971 میٹر۔

پاکستان کی سب سے اونچی لیلیٰ نامی چوٹی ہراموش وادی میں چوگو لنگما گلیشیر کے جنوب میں واقع ہے یہ 6,985 میٹر یا 22,917 فٹ بلند ہے۔ یہ چوٹی سات ہزار ستائیس میٹر بلند نسبتاً زیادہ مشھور پہاڑ سپانٹک، جسے گولڈن پیک بھی کہا جاتا ہے، کے جنوب میں واقع ہے۔ بڑی لیلیٰ کو پہلی بار ستر کی دہائی میں جاپان سے تعلق رکھنے والے کوہ پیماؤں نے سر کیا تھا۔

دوسری پاکستانی لیلیٰ نامی چوٹی حوشی وادی میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں گونگوگورو گلیشیر کے قریب ہے۔ بلاشبہ یہ ایک خوبصورت چوٹی ہے اور کوہ پیمائی کی دنیا میں اپنی عمودی ڈھلان کی بدولت خاصی معروف ہے۔ یہ چوٹی بلتستان کے مشا بروم پہاڑی سلسلے کا حصہ ہے جس کے مشرق میں گونگوگورو وادی اور مغرب میں چگولیسا وادی ہے۔ حوشی کا گاؤں اس پہاڑ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔

یہ چوٹی گونڈوگورو لا پاس گزرنے کے بعد کونکوڑیا اور کے ٹو بیس کیمپ سے بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کی عالم گیر شہرت کا سبب نیزے کی صورت وہ خوبصورت اور خطرناک چوٹی ہے جس کا عمودی زاویہ پنتالیس ڈگری تک ہے جو کہ پندرہ سو میٹر کی ڈھلان پر مشتمل ہے۔ اس لیلیٰ کو پہلی بار سر کرنے کا سہرا سائمن ییٹس اور اس کے ساتھیوں پر مشتمل چار رکنی برطانوی ٹیم کو جاتا ہے جنہوں نے 1987 میں یہ کارنامہ سر انجام دیا۔ سائمن نے اپنی سوانح عمری The Flames of Adventure میں اس ضمن میں ایک پورا باب تحریر کیا ہے۔

اسی چار رکنی برطانوی ٹیم نے قریب واقع نمیکا نامی پیک کو بھی پہلی دفعہ سر کرنے کا کارنامہ سر انجام دیا تھا۔ 2005 میں اس لیلیٰ چوٹی نے اس وقت بین الاقوامی توجہ حاصل کر لی جب فریڈرک ایریکسن اور ان کے ساتھی نے پہاڑ کی چوٹی سے سکی انگ کرتے ہوئے نیچے آنے کا حیرت انگیز کارنامہ سرانجام دیا۔ ان کے مطابق یہ پہاڑ چند حیرت انگیز ترین پہاڑوں میں سے ہے جو انہوں نے آج تک دیکھے۔ کچھ عرصے بعد ایک اور یورپی ٹیم نے سنو بورڈ کے ذریعے نیچے آنے کا کارنامہ بھی کر دکھایا۔ ایک کوہ پیما کے مطابق یہ لیلیٰ پیک پہاڑوں کا مقابلہ حسن جیت سکتی ہے۔

پاکستان کی تیسری اور سب سے چھوٹی لیلیٰ نامی چوٹی مغربی ہمالیہ میں نانگا پربت اور روپال وادی کے جنوب میں واقع ہے۔ اس کے مشرق میں قریب ساڑھے پانچ ہزار میٹر بلند معروف روپال پیک واقع ہے۔ کوہ پیمائی کی دنیا میں تھری پیک چیلنج ایک معروف اصطلاح ہے جس میں تین چوٹیوں کو یکے بعد دیگرے مخصوص وقت میں سر کرنا ہوتا ہے۔ برطانیہ اور مصر سمیت کئی ممالک میں تھری پیک چیلنج منعقد ہوتے ہیں۔ پاکستان کی تینوں لیلاؤں کو ملا کر بننے والا تھری پیک چیلنج اپنی نوعیت کے اعتبار سے مشکل ترین چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستانی اور غیر ملکی کوہ پیماؤں کے لئے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تینوں لیلیٰ نامی چوٹیوں پر ابھی تک کوئی ایک کوہ پیما نہیں پہنچ سکا۔ شاید یہ تینوں لیلائیں اپنے اکیلے مجنوں کا بڑی شدت سے انتظار کر رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).