اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا


فیض صاحب نے کہا تھا
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
یہ بات زندگی کی ایک اہم حقیقت ہے لیکن خدا جانے لوگوں کو اس بات کا یقین کیوں نہیں آتا۔

گفتگو کے دوران شاعرانہ پیرائے میں کوئی بات کہہ دیں یا فیس بک کی دیوار پر کوئی شعر تحریر کرکے دیکھ لیں۔ سب سے پہلے آنے والے کمنٹس میں ”خیر تو ہے“ والا جملہ سننے یا پڑھنے کو ملے گا۔ کچھ لوگ واہ بہت خوب کہہ کر بھی آگے بڑھ جائیں گے لیکن بہت سے ایسے ہوں گے جو آپ سے آپ کی خیریت دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ ”کس کی یاد آ رہی ہے بھئی“ ضرور پوچھیں گے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا دنیا بھر میں آج تک انسان نے شاعری، ادب، موسیقی اور آرٹ صرف عورت یا جنس مخالف کی محبت میں تخلیق کیا ہے؟
کیا برستی بارش کے بیچ چائے اور سگریٹ کی محفل کسی ناکام محبت کی یاد میں ہی سجائی جاتی ہے؟
کیا گہرے بادلوں، ڈھلتی دھوپ، ٹپکتی بوندوں یا گہری دھند میں کھو جانے والے لازم ہے کہ عشق کے مارے ہی ہوں؟

کیا کوئی دیوانہ بہار کی صبح، گرمیوں کی سہ پہر اور سردیوں کی شام پر محبت میں دھوکہ کھائے بغیر فدا نہیں ہو سکتا؟
کیا بارش کی بوندوں تلے چائے اور سگریٹ کی محفل صرف بارش، چائے اور سگریٹ کی خاطر نہیں سجائی جا سکتی؟
کیا کوئی انسان سہانے موسم میں چلنے والی ہوا سے کسی اجنبی کی محبت میں گرفتار ہوئے بنا لطف نہیں لے سکتا؟

سوالات کا ایک ریلا ہے۔

کیا سوچ میں ڈوبی آنکھیں رکھنے والے سب نوجوانوں کے خیالات ہمیشہ کسی رومانوی یاد کا ہی طواف کرتے ہیں؟ کیا کوئی صاحب نظر زمانے میں جابجا بکھری ہوئی بے حسی، بے بسی اور بے کسی پر افسردہ نہیں ہوسکتا؟

کیا یہ طے ہے کہ گہری ہوتی ہر سوچ کے پیچھے ہمیشہ کسی لڑکی کا خیال کارفرما ہو گا اور نوجوان اگر کہیں الجھے گا تو وہ ہمیشہ کسی حسینہ کی زلف ہی ہو گی۔ کیا زمانے اور زندگی کی کوئی اور حقیقت اس کے مدنظر نہیں ہوسکتی؟

اور کیا پرانی عمارتوں، سنسان رستوں، خزاں کے پتوں اور دور سے آنے والی موسیقی کی صدا سے متاثر ہونے والے سب محبت میں دھوکہ کھائے ہوئے ہوتے ہیں؟
یہ ضابطے کس نے طے کیے ہیں۔ اور اگر ایسا کوئی اصول نہیں ہے تو پھر ہر دوسرا شخص ایسی ہی بات کیوں کرتا ہے؟

کیا یہ لازم ہے کہ مرد صرف عورت کی محبت میں ہی رنجیدہ ہو گا؟ کیا اسے گلیوں کی دھول میں اٹے ہیرے جیسے بے سہارا بچوں سے انسیت نہیں ہو سکتی؟ کیا اسے ان معصوم فرشتوں کا حال اور ان کے مستقبل کا خیال دُکھی نہیں کر سکتا؟

کیا لکھنے والوں نے صرف عورت کی چاہ میں اپنا دل جلایا اور کیا ان تحریروں پر سر دھننے والے بھی صرف کسی محبوبہ سے دوری کا سوگ مناتے ہیں۔

کیا

بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے

تحریر کرتے وقت غالب کسی خاتون کی گلی میں رسوائی کا دکھڑا سنا رہے تھے؟

یا نقاد یہ ثابت کر چکے ہیں کہ
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

جیسا شعر لکھتے وقت مومن خان مومن کے مدنظر کوئی دوسری ٓافاقی حقیقت نہیں بلکہ محض کوئی حسینہ تھی۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مومن کے اس ایک شعر کے بدلے غالب اپنا پورا دیوان دینے کو تیار تھے۔
اور کیا منیر نیازی اپنی شہرہ آفاق نظم ”ہمیشہ دیر کردیتا ہوں“ میں ”بہت دیرینہ رستوں پر“ جس ”کسی“ سے ملنے جانے میں ہمیشہ دیر کردینے کی عادت پر افسردہ تھے وہ یقیناً کوئی مہ جبیں ہی تھی؟
یا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ڈھاکہ کے دورے سے واپسی پر لکھی جانے والی غزل میں فیض احمد فیض،

ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد
جیسا شعر رقم کرتے وقت کسی خاتون سے اظہارمحبت نہ کرپانے کا افسوس کررہے تھے؟

یا پھر

تو لاکھ فراز اپنی شکستوں کو چھپائے
یہ چپ تو تیرے کرب کا اظہار کرے ہے

جیسے لافانی شعر میں فراز صاحب کی تمام شکستیں اور خاموشیاں صرف عورت سے محبت کے نتیجے میں ملنے والے دکھوں کا نتیجہ تھیں؟

میرے نزدیک ایسا ہرگز نہیں ہے۔ شاعری، سہانے موسم، اچھی موسیقی، خوبصورت خیال اور فن و ادب سے لگاؤ کو محض ایک عورت یا جنس مخالف کے ساتھ نتھی کرنا سوچ کی انتہائی محدود سطح کی عکاسی کرتا ہے۔ کچھ لوگ جنس کے پہلو سے ہٹ کر کائنات کی ہر خوبصورتی میں کھو جانے کا ہنر رکھتے ہیں۔ شعروادب اور مظاہر فطرت انہیں کائنات کی ابدی حقیقتوں کے اور پاس لے جاتے ہیں اور وہ ان میں کھو کر اس دنیا سے کٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ عورت کا وجود بھی کائنات کی انہی خوبصورتیوں میں سے ایک ہے اور جب اس کا جادو بولتا ہے تو پھر سر چڑھ کے بولتا ہے۔ اور اسی طرح عورت کے لیے مرد کا ساتھ بھی ایسی ہی کیفیات کا حامل ہوتا ہوگا۔ لیکن نوجوانی میں انسان کے ہر جذبے، خوشی، غم اور اداسی کو اسی مخصوص محبت سے ملا کر دیکھنا کوتاہ چشمی ہے اور کچھ نہیں۔ نوجوانوں کے صرف ہارمونز ہی نہیں بلکہ ذہن بھی کام کرتا ہے۔

اور پھر یہ محبوب کون ہوتا ہے؟ کیا اشعار میں استعمال ہونے والا یہ لفظ صرف عورت کے لیے ہی استعمال ہوا ہے؟ کون جانے کون کس کی چاہ میں در در بھٹکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ نوع انسانی میں گزرنے والے شاندار انسانوں نے خدا، وطن، آدرش یا انسانیت سے بھی ٹوٹ کر محبت کی اور ان سے عشق نبھاتے نبھاتے اپنے دامن تو کیا وجود تک کو تارتار کر لیا۔

ہم یہ جانتے ہیں کہ انسان خدا کی بہترین تخلیق ہے اور اس کا وجود کسی سمندر سے کم گہرا اور کسی جنگل سے کم مہیب نہیں ہے۔ کسی دانش مند سے انسان کی اداسی کا سب پوچھا گیا تو جواب آیا کہ

”انسان نہیں بلکہ یہ روحیں اداس ہوتی ہیں“

اداس روح جس وجود میں بھی سمائی ہو اسے اس بے مہر دنیا میں دربدر لیے پھرتی ہے۔ اپنے خالق سے واپس جا ملنے کی چاہ نہ ایسی روح کو چین لینے دیتی ہے نہ اس وجود کو جس میں اسے قید کیا گیا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی دیوانہ خود بھی نہیں جان پاتا کہ اس پر کس کی دھن سوار ہے۔

کیا سوگوار رویوں کے پیچھے کارفرما بہت سی وجوہات میں سے یہ ایک وجہ، محدود علم کے ساتھ دوسروں کے بارے میں فیصلے صادر کرنے کے شوقین لوگوں کے وہم و گمان میں بھی ٓاسکتی ہے۔ ہرگز نہیں!

اسے کم نصیبی کہیے یا مقدر کی ستم ظریفی کہ اپنی دھن میں رہنے والوں کا ہر زمانے میں جب بھی واسطہ پڑا زیادہ تر احمقوں یا کم ظرفوں سے ہی پڑا۔ شاید یہی صورت حال پیش نظر تھی جب شاعر نے کہا تھا

کوئی اپنی ہی نظر سے تو ہمیں دیکھے گا
ایک قطرے کو سمندر نظر آئیں کیسے

اب ٓاپ ہی بتائیے کہ جب عام ڈگر سے قدرے ہٹ کر رہنے والوں کے رویوں کے پیچھے وجوہات اتنی متنوع اور ان کی سوچ اتنی وسعتوں کی حامل ہو تو پھر ”خیر تو ہے“ جیسے سوالوں کا کوئی کیسے اور کیا جواب دے؟

شاہد وفا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شاہد وفا

شاہد وفا ایک براڈکاسٹ جرنلسٹ اور لکھاری ہیں۔ معاشرے میں تنقیدی سوچ اور شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں اس لیے معاشرتی ممنوعات کو چیلنج کرنے، جمود توڑنے اور سماجی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

shahid-wafa has 31 posts and counting.See all posts by shahid-wafa